کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آج سے چند دہائی پہلے زندگی کیسی تھی ؟ یا موجودہ زندگی ، رہن سہن ، مصروفیات و دیگر روز مرہ کی حرکات کا گزشتہ دہائیوں سے موازنہ کیا ہے؟ مجھے پورا یقین ہے کہ موازنہ نہیں بھی کیا ہوگا تو واضح فرق تو ضرور محسوس کیا ہوگا۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کا ایک انتہائی وسیع تانہ بانا ،آج دیگرعلوم کو شکست دیتا دکھا ئی دیتا ہے جب ہم اس قدر تیزی سے روز مرہ کی زندگی میں تبدیلیاں دیکھتے ہیں، جس تیزی سے جدید ٹیکنالوجی نے تمام شعبہ ہائے زندگی پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔
اس کو نظر انداز کرنا آسان نہیں، اگر یہ کہا جائے کہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہی انسان پوری دنیا سے جڑا ہوا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہماری سماجی و اقتصادی حیثیت بھی ٹیکنالوجیز کی مر ہون منت ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کس طرح ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس کا اندازہ آپ کو مندرجہ ذیل ایجادات کے بارے میں پڑھ کر ہوجائے گا ۔
سورج سے حاصل ہونے والی توانائی
سورج ہمارے سیارے کو کثرت سے توانائی دیتا ہے ،سورج سے حاصل ہونے والی توانائی کی مقدار 85,000ٹیراواٹ سالانہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ہماری زمین کی توانائی کی سالانہ کھپت 16ٹیراواٹ ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج زمین پر توانائی کی درکار مقدار سے 5,000گنا توانائی فراہم کرتا ہے۔
چناںچہ یہ بات عجیب سی محسوس ہوتی ہے کہ معدنی تیل کو جلا کر ہم اپنی زمین کو آلودہ کر رہے ہیں جب کہ سورج سے حاصل ہونے والی توانائی کی کثیرمقدار یونہی ضایع ہورہی ہے، تاہم صورت حال اب تیزی سے تبدیل ہورہی ہے اور ایسی جدید ٹیکنالوجیز سامنےآرہی ہیں جن کو پاکستان بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ شمسی سیل عام طور پر سلیکون ویفرز سے بنائے جاتے ہیں۔
یہ شیشے جیسے Crystallineمواد تجارتی طور پر 20فی صد کارکردگی حاصل کرچکے ہیں ، مگر اسی دھات سے شمسی پینل کی تیاری کافی مہنگی ثابت ہوسکتی ہے ،تاہم یہ ان دوردرازعلاقوں کے لئے مناسب ہے جہاں سستی بجلی فراہم کرنے کے لئے گرڈاسٹیشن تعمیر کرنا ممکن ہے ۔ پتلی فلم والے شمسی سیلamorphous nanocrystallineاور سلیکون کی دوسری اقسام سے تیار کئے جاتے ہیں اور ان کو کیمیائی بخارات کو ذخیرہ کرکے تیار کیا جا تا ہے۔
اس مرتکزشمسی طاقتConcentrated Solar Power (CSTسے پیدا ہونے والی بھاپ کا درجۂ حرارت850 ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے ،جس کو بجلی بنانے والے ٹرباٹن کو چلانے کے لئے استعمال کیا جا تا ہے ۔ ان کو کمپیوٹر کے ذریعے کنٹرول کیا جا تا ہے ،یہ سورج کی روشنی کو بوائلر پر مرتکزرکھتے ہیں ۔ماہرین کواُمید ہے کہ CST ٹیکنالوجی کا استعمال پوری دنیا میں 16ماہ کے بعد دگنا ہوجائے گا۔
شمسی پینل
سورج زمین کو جتنی حرارت دیتا ہے ،اس کا نصف سے کم حصہ زیریں سرخ روشنی پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ باقی حرارت نظر آنے والی روشنی کی صورت میں ہوتی ہے ۔ جب چمکدار سورج کی روشنی سمندر کی سطح پرپڑتی ہے تو اس سے حاصل ہونے والی درخشانی Irradianceایک کلوواٹ فی مربع میٹر سطحی رقبہ سے کچھ زیادہ ہوتی ہے ۔شمسی پینل کو سورج سے نظرآنے والی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ بجلی پیدا کی جا سکے ، مگرسورج سے حاصل ہونے والی پوری روشنی کو توانائی کی تیاری میں استعمال نہیں کر پاتے، تاہم اس حوالے سے نئے آلات تیار کئے جا رہے ہیں جن کے ذریعے انفرا ریڈیا زیریں سرخ شعاعوں کو (جوکہ رات میں بھی میسر ہوتی ہے )توانائی بنانے کے لئے استعمال کیا جاسکے گا۔
یہ ٹیکنالوجی لاکھوں نینو اسکیل روشنی کے لئے حساس اینٹینا کی صفوں پرمشتمل ہے جوکہ اب تک توانائی کا ایک اہم ماخذہے ۔ سورج کی روشنی میں موجود کل توانائی کا نصف حصہ انفرا ریڈ علاقے میں ہوتا ہے ۔ انفرا ریڈ روشنی اس وقت بھی زمین کی سطح سے منعکس ہوتی ہے جب سورج غروب ہوچکا ہوتا ہے ۔ یہ توانائی رات میں بھی حرارت کی شکل میں قید کی جاسکتی ہے ۔ امریکی محکمہ توانائی کے ادارے Idahoنیشنل لیبارٹری میں کام کرنے والےSteve Novackنے تخمینہ لگایا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سولرسیل کی نئی نسل کی کارکردگی کو 42 فی صد تک بڑھا یا جا سکتا ہے ۔
حیاتیاتی ایندھن کی ٹیکنالوجی
فیول سیل سے چلنے والی کار یں مار کیٹ میں آچکی ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ کئی کمپنیاں الجی سے حیاتیاتی ڈیزل کی پیداوار کے حوالے سے بھی کام کررہی ہیں ۔ایتھنول کی پیداوار کے لئے ایک معروف طریقہ گلوکوز کی خمیر کے ساتھ تخمیر Fermentationہے ، تاہم اس طریقہ کا ر میں جوخمیری اسٹرین استعمال کیا جاتا ہے وہ ایک دوسری شکر Xylose کو تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو کہ پودے کے با ئیو ماس کا ایک اہم حصہ ہے۔
اب University of Illinios Lawrence Berkeley National Laboratory، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور انرجی کمپنیBPمیں کام کرنے والے سائنس دانوں نے ایک نیا خمیری اسٹرینYeast Strainدریافت کیاہے جو گلوکوزاور زائی لوز دونوں کو ایتھنول میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جس سے ایتھنول کی مجموعی مقدار میں اضافہ ہوگا۔
سمندروں سے حرارتی توانائی کا حصول
سطح سمندر پر پانی کا درجۂ حرارت زیادہ ہوتا ہے جب کہ گہرائی میں جاکر ٹھنڈا ہوجاتا ہے۔ درجۂ حرارت کے اس فرق کو بجلی بنانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں درجۂ حرارت کے تبادلہ کے ذریعےسطح سمندر کے گرم پانی کو پمپ کیا جا تا ہے ۔حرارت کم درجہ ٔحرارت پر نقطہَ ابال کے حامل مایع مثلاً امونیا کو بخارات میں تبدیل کرنے اور بخارات میں تبدیل شدہ ،گیس ٹربائن چلانے کے لئے استعمال ہوتی ہے اور اس سے بجلی تیار کی جاتی ہے۔
امونیا گیس کو ایک کنڈنسرسے ملایا جا تا ہے جوکہ سمندر کی گہرائی سے پمپ کئے جانے والے ٹھنڈے پانی کی مدد سے ٹھنڈی ہوتی جاتی ہے اور پھر گیس مایع میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ اس چکر کو مایع امونیا کو سطح پر پمپ کرتے ہوئے دہرایا جا تا ہے جہاں سے گرم پانی پرمبنی72Heat Exchangerاس کو بخارات میں تبدیل کردیتا ہے۔ سطح کے پانی اور سمندر کی گہرائی میں موجود پانی کے درمیان 60ڈگری86) Celsiusڈگری فارن ہائٹ) درجۂ حرارت کا فرق ہوتا ہے جوکہ سمندروں میں عام طور پر پایاجا تا ہے۔ اضافی ڈگری کا فرق توانائی کی پیداوار میں 15 فی صداضافہ کا سبب بنتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے چوبیس گھنٹے مستحکم ، مسلسل اور قابل اعتماد توانائی فراہم کی جاسکتی ہے جب کہ ہوا یا شمسی توانائی کا انحصار موسموں کی تبدیلی پر ہوتا ہے۔ اگرچہ اس منصوبے کے امکانات کے حوالے سے تفصیلات کو مختلف پائلٹ پلان میں ظاہر کیا جاچکا ہے، مگر ابھی اس کو تجارتی پیمانے پر پیش کرنا باقی ہے اس وقت کئی تجارتی ادارے جن میں Lockheed Martim, Vanuatu, Xenesys, Pacific, Otec اوردوسری کمپنیاں شامل ہیں۔ اس نئے میدان میں منصوبے شروع کرنے پر غور کررہی ہیں۔
بیٹری سے حاصل ہونے والا خام مواد برقی کاروں کے لیے
برقی کاروں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان کی بیٹریوں کو چارج کرنے کے لیے درکار مواد ہے ۔ اس مسئلے کا حل یہ تلاش کیا گیا ہے کہ ان بیٹریوں کو پہلے سے جارج شدہ بیٹری کے مائع( Fluid)سے چارج کرلیا جائے ۔ ڈسچارج ہونے والی بیٹری کا سیال مادّہ ایک تھیلے میں پمپ کے ذریعے باہر نکال دیا جائے گا، بالکل ایسے جس طرح آپ خالی ٹینک میں پیٹرول بھرتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی بھی تیار کی گئی ہے، جس میں semi solid flowبیٹریوں کا ستعمال کیا گیا ہے ۔ یہ بیٹریاں موجودہ بھاری بھرکم اور مہنگی flow batteries کے مقابلے میں کافی بہتر ہیں۔
یہ نئی بیٹریاں کافی ہلکی اورسستی ہیں اور ان میں777384میں تیار کردہ نیا سیال استعمال کیا گیا ہے ،جس میں پرانی بیٹریوں کے مقابلے میں 10گنا زیادہ طاقت ہے ۔MITکی تحقیق نے اس کوCambridge Crudeکا نام دیاہے ،جو کہ اس خام تیل کے ہم معنی ہے، جس کوپیٹرول سے چلنے والی کاروں سے حاصل کردہ پیٹرول سے حاصل کیا جاتا ہے ۔اب برقی کاریں تانبے کی برقی کاروں کی طرح سست رفتار نہیں رہی ہیں ۔ تیز رفتار ترین برقی اسپورٹس کار60 میل فی گھنٹے کی رفتار سے 3سیکنڈ میں چل سکتی ہیں ۔
گرم چٹانوں سے حاصل ہونے والی توانائی
Cornwallبرطانیہ میں گرم چٹانوں سے توانائی کے حصول کے منصوبے پر غور کیا جا رہا ہے، یہ چٹانیں 150 ڈگری سینٹی گریڈسے زائد حرارت کا اخراج کرتی ہیں ۔ 3میگاواٹ کا کمرشل تھرمل توانائی کا پلانٹ زمین کی سطح سے3 سے 5 کلومیٹر اندر سے حرارت کو جذب کرے گا ۔ اس منصوبے میں پہلے زمین کے اندر ایک سوراخ کیا جائے گا اور پھر زیادہ دباؤ پر اس سوراخ میں پانی پھینکا جائے گا۔
اس سے گرم چٹانوںمیں چھوٹے چھوٹے شگاف پڑجائیں گے اور چٹان نہ صرف پھیل جائے گی بلکہ اس میں باریک نالیوں کا ایک جال بن جائے گا، ان باریک نالیوں کے جال سے گزر نے والی بھاپ کو ٹربائن چلا نے کے لئے استعمال کیا جا ئے گا جوکہ بجلی پیدا کرنے کے کام آ ئیں گے۔ اس ٹیکنالوجی پر مبنی ایک تجارتی منصوبہ جرمنی میں کام کر رہا ہے۔
شمسی طاقت کی نئی ٹیکنالوجیز
حالیہ چند برسوں میں شمسی ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے تیز رفتار ترقی دیکھنے میں آئی ہے ۔ آسٹریلیا کی کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ نے ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے، جس میں بجلی پید اکرنے کے لیے صرف سورج اور ہوا کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اسTower of Power میں 450 آئینوں کی ایک قطار کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ پچکی ہوئی ہوا کو گرم کرتے ہیں پھر اس گرم ہوا کو ایک ٹاور کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے ۔ یہ ٹاور 30میٹر اونچا ہوتا ہے ۔ پھیلاؤ کے اس عمل کو بجلی کے ٹربائن کو چلانے کے لیے براہ راست استعمال کیا جاتا ہے۔
اس سے بننے والی بجلی سو گھروں کے لیے کافی ہے ،تاہم اس نظام کو صرف تحقیقی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے ۔کوریا کی اورے گون اسٹیٹ یونیورسٹی میں کام کرنے والے محققین مستقل بہاؤ والے مائیکرو ری ایکٹر تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو کہ شمسی سیل کے لیے پتلی فلم والے absorber بنائیں گے۔ ایک اور پیش رفت میں سیلیکون انک استعمال کرکے شمسی سیل تیار کیا گیا ہے۔ امریکی کمپنی نے91 فی صد کی کارکردگی والے سیل تیار کیے ہیں جب کہ عام شمسی سیل کی کارکردگی 51فی صد تک ہوتی ہے ۔ اس میں شامل مواد سیلیکون نینوپارٹیکل پر مشتمل ہے جو کہ مرکبات کے ماحول دوست آمیزے کی شکل میں بکھرکرشمسی روشنائی بناتا ہے
کوانٹم ڈاٹس: اگلے دور کے شمسی سیلز
شمسی سیل سورج سے توانائی حاصل کرکے بجلی بناتے ہیں ۔ سورج کی روشنی فوٹون کی شکل میں ہوتی ہے۔ فوٹون شمسی سیل میں موجود الیکٹران کو تحریک دے کر اس کے مرحلے کے توانائی کی سطح پر بھیج دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اس مواد میں الیکٹران کا بہاؤعمل میں آتا ہے اور بجلی پیدا ہوتی ہے ۔ یہ تیار ہونے والی بجلی ڈائرکٹ کرنٹ (DC) کی شکل میں ہوتی ہے، جس سے بلب اور دوسرے بجلی کےآلات چلائے جاسکتے ہیں۔
بازار میں دستیاب شمسی سیل عام طور پر سیلون کے کرسٹلwafers سے بنائے جاتے ہیں ۔ جس کی کارکردگی 14سے 18فی صد تک ہوتی ہے ۔ اب جدید شمسی سیل جن کو دوسرے مواد سے تیار کیا گیا ہے کہیں زیادہ کارکردگی کے حامل ہیں ۔ ان کی کارکردگی 42 سے 38فی صد تک ہے ۔اس ٹیکنالوجی میں ہونے والی جدید ترین پیش رفت کوانٹم ڈاٹس شمسی سیل ہیں جن کو چھتوں یا کھڑکیوں پر اسپرے کرکے پھیلا دیا جاتا ہے۔
کوانٹم ڈالٹس شمسی سیل انتہائی باریک ذرّات (نینوپارٹیکل) کے بنے ہیں جو کہ نیم موصل semi Conductor ہیں ۔ ان کو انتہائی سہولت سے کھڑکیوں اور چھتوں پر رنگ کی طرح اسپرے کردیا جاتاہے ۔ ابتداء میں اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے نامیاتی مواد سے نینو پارٹیکل تیار کیے تھے، مگر اب ٹورنٹو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اشتراک سے ایسے مزید مستعد کوانٹم ڈاٹس دریافت کرلیے ہیں جن کو غیرنامیاتی اجزاء سے تیار کیا جاسکتا ہے۔ ان شمسی سیل سے چھ فی صد کارکردگی کا ورلڈ ریکارڈ حاصل کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی ان سیلز کی تجارتی پیمانے پر تیاری شروع کردی جائے گی۔