فی زمانہ جمہوریت کو کاروبار مملکت چلانے کیلئے سب سے بہتر بندوبست قراردیاجاتاہے۔پاکستان میں مگر جمہوریت کوجہاںآمروں نے پابہ جولاں رکھا وہاں سول حکمرانوں نے بھی اس کے خدوخال پامال اور اس کا چہرہ مسخ وبے رنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔جمہوریت کی اساس یوں تو عوامی حکمرانی ہے لیکن اس نام پر جو بھی اقتدار کے سنگھاسن سے بوسہ زن ہوااُسکے پیش نظر اولین ترجیح شخصی حکمرانی ہی رہی۔نتیجہ یہ ہے کہ سات عشرے بعد اس ملک میں سیاسی ومعاشی بحران اس قدرتوانا وہمہ گیر ہوچکاہے کہ بڑے سے بڑے اختیارمند کے پاس بھی اس کے حل کی کوئی تدبیر نہیں ۔ بنابریں’ مرحوم‘ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا یہ ہےکہ انتخابات سے زیادہ معیشت اہم ہے،حضرت یہی صائب ہے ،مگر کاش پی ڈی ایم کی حکومت بھی معیشت پرکوئی توجہ دے جاتی !دوسری طرف ن لیگ انتخابات کیلئے بے تاب ہے، ا ہم سوال تاہم یہ نہیں کہ انتخابات کب ہونگے ،اصل سوال یہ ہے کہ آیا انتخابات شفاف ہونگے ،کیا کسی ڈھیل یا ڈیل پر تو مبنی نہیں ہونگے، کیا برسراقتدار آنے والی حکومت ملک کو درپیش معاشی چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیتوں کی حامل ہوگی۔پھر سب سے بڑھ کریہ کہ کیا حکومت دراصل عوامی ہوگی یا عوام کے نام پر پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومتوں کی طرح ذاتی ،گروہی وجماعتی مفاد ہی اس کے پیش نظر ہوگا!سب جانتے ہیں کہ مہنگائی کا موجودہ طوفان جہاں پی ٹی آئی کے آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد برپاہوا،وہاں اس معاہدے پر پی ڈی ایم حکومت کے دورمیں من وعن عملدرآمدسے یہ طوفان تلاطم خیز موجیں مارنے لگا ۔جہاں تک انتقام یا مفاہمت کی بحث ہےتوجہاندیدہ حلقوں کا از بس کہنا یہی ہے کہ یہ وقت انتقام کا نہیں مفاہمت کا متقاضی ہے۔انتقام میںمقصودِنظر مخالف ہی ہوتاہے،جبکہ معروضی صورتحال عوام پر توجہ مرکوز رکھنےکا تقاضاکرتی ہے۔ ن لیگ نے اگر مفاہمت کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے،بادل نخواستہ ہی سہی ،تو یہی پیچیدہ معروضی حالات کا تقاضا ہے،حالات کے جبر کے تحت ہی سہی مگر یہ خبریں عام ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنا بیانیہ پاکستان کے معاشی احیا کے حوالے سے تشکیل دیگی اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے سے گریز کیاجائے گا۔ نوازشریف کی واپسی کیلئے بیانیہ اب معیشت ، گورننس اور عوامی معاملات ہوں گے اور کوئی بدلہ لینے یا کسی ادارے بالخصوص اسٹیبلشمنٹ سے بدلہ لینے کی بات نہیں کی جائےگی ۔ لیگی رہنماؤں کی سوچ یہ نظرآتی ہے کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ مفاہمت اور ایک دوسرےکیلئے گنجائش پیدا کرنا ہے۔یوں تو اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کبھی آشکار نہیں ہوتی ،عمل ہی سے اندازے لگائے جاتے ہیں،چنانچہ سوچ کیاہے یہ توآنے والے وقت ہی بتائے گالیکن لیگی رہنماؤں کی پے درپے لندن یاتراؤں سے شنیدیہ ہے کہ کسی سطح پر بات چل رہی ہے ۔لیگی سوچ کے تناظرمیں البتہ اسحٰق ڈارکے اس بیان سے کہ نواز شریف نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے،فضامیں مطلع صاف دکھائی دینے لگاہے اوراب عیاں ہےکہ میاں صاحب نے جارحانہ بیانئے سے رجوع کرلیا ہے۔اسحٰق ڈارکے بیان کےصرف اگراس جملے پر ہی عمل ہوجائے تو ملکی قسمت سنورسکتی ہےکہ نوازشریف پاکستان کی معیشت اور ترقی پر توجہ دے کر آگے بڑھنے کی ضرورت پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔
اب اگر ایک طرف میاں صاحب کی واپسی اور انتخابات کی باتیں ہورہی ہیں تو دوسری طرف خبروں کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے پر قومی احتساب بیورو متحرک ہے اور نیب کے مشاورتی اجلاس میں عدالتی حکم پرعمل کرنے اور میگاکرپشن کیسزکا تمام ریکارڈ احتساب عدالتوں کو بھیجنے کا فیصلہ کرلیاگیاہے‘سابق صدرآصف زرداری ‘سابق وزرائے اعظم نوازشریف ‘شہبازشریف ‘شاہدخاقان عباسی ‘پرویزاشرف‘یوسف رضاگیلانی ‘سابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ‘ سینیٹر اسحٰق ڈار سابق وفاقی وصوبائی وزراء سمیت دیگر سیاست دان دوبارہ نیب کے شکنجے میں آ سکتے ہیں۔ ان خبروں کے مطابق نیب بند کئے گئے کیسزاورریفرنسز کا قانونی جائزہ لیکر ریکارڈ مرتب کر رہا ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ بدقسمتی رہی کہ بے یقینی نے کبھی اس کا پیچھانہیں چھوڑا، یہ محض اِن دنوں کاواقعہ نہیں،یہ داستان 76برس کے پیچ وخم پر محیط ہے۔کاش اس ملک کا نظام اس قدر مستحکم ہوجائے کہ دہرکے شب وروز اس کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار نہ کر سکیں۔ معیشت اس قدر بہتر و توانا ہوکہ ہمارے ہاں سے لوگ دیگرممالک میں در در کی خاک چھاننے کی بجائے دوسرے یہاں عزت کی روزی روٹی کیلئے آئیں۔ حضرت اقبال نے کہا تھا۔
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی