آج سے ٹھیک اٹھارہ سال قبل اکتوبر کے انہی ایام میں پاکستان کو ایک خوفناک زلزلے کی صورت میں قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس نے آزاد کشمیرکے دارالحکومت مظفرآباد، باغ اور خیبرپختونخوا کے علاقے بالاکوٹ سمیت گردونواح کے مختلف علاقوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا،بے شمار بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئی تھیں، ان گنت لوگ زندگی سے محروم ہوگئے تھے،اس زلزلے کے نتیجے میں گھروں، سڑکیں، ہسپتال، عمارات، تعلیمی اداروں کو شدید نقصان پہنچا تھا، حکومتی اعدادوشمار کے مطابق تقریباََ87ہزارلوگ لقمہ اجل بنے تھے، تاہم انسانی اموات کی تعداد اس سے کہیں زیادہ بیان کی جاتی ہے،ایک عرصے تک زندگی سے بھرپور بستیوں میں وحشت کا راج رہا،آج بھی اس سانحہ کے متاثرہ افراد کو شدید نفسیاتی اورذہنی دباؤ کاسامنا ہے۔آج جبکہ ہماری قومی تاریخ کے اس تباہ کُن زلزلے کو دو دہائیاں بیتنے کو آئی ہیں تو ایک مرتبہ پھر پورے لوگ شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں،گزشتہ چند دنوں سے ملک کے مختلف حصوں میں بسنے والے بالخصوص کوئٹہ، چمن اورملحقہ علاقوں کے لوگ افراتفری کے عالم میں رات کو کھلے آسمان تلے سورہے ہیں، اسکی وجہ نیدرلینڈ کے عالمی ادارے کی جانب سے حالیہ پیش گوئی ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں واقع چمن فالٹ لائن میں شدید زلزلہ متوقع ہے، ہولناک زلزلہ پاکستان کے مختلف علاقوں کو متاثر کرسکتا ہے ،مذکورہ ادارے کی ماضی میں ترکیہ میں آنے والے ہولناک زلزلے کے بارے میں پیش گوئی درست ثابت ہوئی تھی جسکی وجہ سے پاکستان کے بارے میں تازہ پیش گوئی کو عوام کی جانب سے بہت سنجیدہ لیا جارہا ہے،اس وقت انٹرنیٹ صارفین کی بڑی تعداد ایک دوسرے کو زلزلے کی پیش گوئی سے آگاہ کررہی ہے، سوشل میڈیا پر ممکنہ زلزلے کا خدشہ ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ جن علاقوں میں ایک مرتبہ بڑا زلزلہ آ جاتا ہے تو وہاں دوبارہ بھی بڑا زلزلہ آ نے کے خدشات بدستور منڈلاتے رہتے ہیں،اگرچہ پاکستان کے قومی ادارے مذکورہ پیش گوئی کے حوالے سے وضاحت کرچکے ہیں کہ زلزلے کے حتمی درست وقت کاتعین ممکن نہیں اور عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، تاہم اس حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں اکتوبر 2005ء کے زلزلے کی تباہ کن یادیں تازہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسان اپنی زندگی میں کبھی کس چیز سے اتنا خوف زدہ نہیںہوتا جتنا وہ زلزلے سے ہوتا ہے، زمانہ قدیم میں زلزلے کو خدا کے عذاب سے تشبیہ دی جاتی تھی اور مقدس کتابوں میں ایسی نافرمان قوموں کا ذکرہے جوزلزلے کے بعد صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں،زمانہ قدیم میں کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیو ہیکل درندے جو زمین کے اندرپاتال میں رہتے ہیں وہ زلزلے پیدا کرتے ہیں، کچھ کا عقیدہ تھا کہ زمین ایک چوپائے کے سینگوں پر ساکت ہے، جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں،اسی طرح کچھ لوگ کہتے تھے کہ زمین ایک بڑے کچھوے کی پیٹھ پر ہے، وہ جب حرکت کرتا ہے تو زلزلے آتے ہیں،وغیرہ وغیرہ۔تاہم دورِ جدید میں سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زمین کی اندرونی پلیٹ تہہ در تہہ مٹی، پتھر اور چٹانوں پر مشتمل ہے، کسی ارضیاتی دباؤکی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ یا اپنی جگہ سے ہلتی ہے تو سطح زمین پر زلزلے کی نادیدہ لہریں پیدا ہوتی ہیںجو دائرے کی صورت میں چاروں جانب متحرک ہوتی ہیں، زیادہ نقصان زلزلے کی لہریں برداشت نہ کرنے والی عمارتوں کے منہدم ہونے اور اسکے بعد بروقت امدادنہ ملنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ زلزلے کے خدشات سے نبردآزما پاکستان کا شمار دنیا کے حساس ترین ممالک میں کیا جاتاہے جسکا دو تہائی علاقہ فالٹ لائنز پرواقع ہے، ہمارے رقبے کے زیرزمین گزرنے والی تمام فالٹ لائنز متحرک ہیں جہاں کم یا درمیانے درجہ کا زلزلہ وقفے وقفے سے آتا رہتا ہے،ماہرین کے مطابق کراچی سے اسلام آباد، کوئٹہ سے پشاور، مکران سے ایبٹ آباد اور گلگت سے چترال تک تمام علاقے زلزلوں کی زد میں ہیں، جن میںآزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو سب سے زیادہ حساس شمار کیا جاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ زلزلہ درحقیقت قدرت کا ایک پیغام لیکر آتا ہے کہ انسان چاہے جتنی زیادہ ترقی کرلے، آسمان سے باتیں کرتی بلند و بالا مضبوط عمارتیں بنالے، مصنوعی ذہانت جیسی ایجادات کرلے،برق رفتار گاڑیاں اور آواز کی رفتار سے تیز ہوائی جہاز ایجاد کرلے، خدا کے سامنے بے بس ہے، زلزلے کا ایک جھٹکا آتا ہے اور سب کچھ تہس نہس ہوجاتا ہے۔آسمانوں پر ایک ایسی عظیم ہستی ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے، ہمیں اپنی زندگی خدا کی خوشنودی کے حصول کیلئے مخلوق ِ خدا کی خدمت کرنے میں بسر کرنی چاہیے۔میرے اس موقف کو تقویت اس امر سے ملتی ہے کہ آج دورِ جدید میں انسان تمام تر سائنسی ترقی کے باوجودزلزلے کی آمد کی درست پیش گوئی کرنے سے قاصر ہے، آج جبکہ مختلف تحقیقاتی ادارے زلزلوں پرریسرچ ضرور کرتے ہیں لیکن ایسی کوئی ٹیکنالوجی دستیاب نہیں جو زلزلے آنے کا حتمی وقت کا تعین کرسکے،زمانہ قدیم میں بھی انسان نے بہت ٹوٹکے آزمائے اور آج دورِجدید کے سائنس دان بھی بہت کوششیں کررہے ہیں کہ کسی طرح زلزلوں کی پیش گوئی کرنے کا درست طریقہ کار دریافت کرلیں لیکن زیرزمین پلیٹس کی تبدیلیوں اور ہلچل سے صرف قیاس آرائیاںکی جاسکتی ہیں۔آج میرے وطن کے باسی جو زلزلے کے خوف کا شکار ہیں، انہیں میں یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ وہ خداکی رحمت پر یقین کامل رکھیں کہ وہ ہر ایک کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ، اپنی زندگیاں مالک کے بتائے راستے کے مطابق مخلوق ِ خدا کی خدمت میں بسر کریں اور ایسی کسی اطلاع پر کان نہ دھریں جو ہمارے معاشرے میں مزید بے یقینی اور افراتفری کا باعث بنے۔زلزلہ کب اور کہاں آئے گا؟ اسکے متعلق صرف دھرتی کے مالک کو ہی جانکاری ہے۔۔۔!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)