پاکستان اِن دنوں جس قسم کے اقتصادی بحران کا شکار ہےوہ بہت خطرناک ہے اور ہماری تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بالکل مختلف ہے۔اس وقت ایک جانب ہمیں زرمبادلہ کی کمی کا سامنا اور دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہے تو دوسری جانب امداد دینے والےممالک اور ادارے اور بیرون ملک مقیم پاکستانی پاکستان کو ڈالرز دینے سے کتراتے نظر آنے لگے ہیں۔
ملک میں ٹیکس کا نظام تباہ شدہ ہے۔ ملکی وسائل پیدا کرنے میں ناکامی ملکی معیشت کے جمود میں ہونے کا ایک اہم جزوہے اور اسی لیے معیشت انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہے۔ٹیکس کی وصولی کی صورت حال ابتر ہے،یہ بحران بڑھ رہا ہے اور ایک دوسرے سے متعلق بحرانوں کو جلا بخشنے کا باعث بھی بن رہا ہے، جس سے سرکاری قرضوں میں بے قابو اضافے، افراطِ زر اور منہگائی کی بہت بلند شرح، سرکاری اداروں کی ابتر ہوتی کارکردگی، انفرااسٹرکچر کی تباہی، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ضرورت سے کم سرمایہ کاری،بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور توانائی کے شعبے کے بحران جیسے بحرانوں نے جنم لیا۔2001ء میں ٹیکس نظام میں اصلاحات کرنےکے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی گئی تھی جس نےمتنبہ کیا تھا کہ پاکستان کا مالی بحران سنگین ہے، قرضوں کی ادائیگی اور دفاع کے لیے ٹیکسز ناکافی ہیں،اگر ملک کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) میں ٹیکس کے تناسب کو مناسب طور پر نہیں بڑھایا جاتا تو پاکستان کو موثر طور پر نہیں چلایا جاسکتا، عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کی جاسکیں گی اور افراطِ زر کی بلند شرح ناگزیر ہوجائے گی۔لیکن اس انتباہ کو بعد میں آنے والی کسی بھی حکومت نےسنجیدگی سے نہیں لیا لہذاہماری محاصل کی شرح جی ڈی پی کےاعتبار سے صرف دس فی صد ہے،جوخِطّےمیں سب سے کم بتائی جاتی ہے۔
ٹیکس وصول کرنے والے انتظامیہ میں اصلاحات کرنا حکومت کا اہم ترین کام ہے۔ لیکن ہم مخلصانہ تجاویز کو طویل عرصے سے نظراندازکرتے آرہے ہیں۔ ملک کی اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے محاصل میں اضافے میں ناکامی مالی بحران کی مرکزی وجہ ہے۔ ملک میں کوئی ٹیکس کلچر نہیں۔ اس کی کی غیر موجودگی کئی عوامل کی مرہون منت ہے، جن میں کم زور سیاسی قوت ارادی، ٹیکس کی غیر مساوی اورپست بنیاد کا طریق کار جس کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے، معیشت کے بڑے حصے کا ٹیکس کے دائرے سے نکل جانا، نیم دلی کے ساتھ ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کی کوشش، عوام کو بنیادی سہولتوں کی ناقص فراہمی اور طاقت ور سیاسی و معاشی لابیز جو ٹیکس وصولی کے جائزاقدامات کا بھی راستہ روکتی رہتی ہیں۔ ماضی میں حکومتوں کی جانب سے آمدن میں اضافہ اس لیے نہیں ہوسکا کہ اشرافیہ ٹیکسز کی مخالفت کرتی اور ان کی ادائیگی سے انکار کرتی ہے، وہ اپنی معاشی و سیاسی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے حیلے بہانے کرتی ہے۔
اس ناکامی نے پاکستان کو متواتر مالی بحرانوں کی صورت حال میں لاکھڑا کیا ہے، جنہیں زاید ملکی قرضوں سے عارضی طور پر حل کیا جاتا یا پھر بیرونی بیل آوٴٹ پیکجز کے تمام تباہ کن اثرات کے ساتھ اسے حل کیا جاتا تھا۔ بیرونی ممالک سے بیل آوٴٹ پیکجز لینے کی قیمت اکثر خارجہ پالیسی کے رویّے سے یا پھر اسلام آباد کے اصلاحات کے وعدے سے چکائی جاتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جیسے ہی قرض دینے والوں کی جانب سے رقوم ملنا شروع ہوتی ہیں، ایسے وعدے بآسانی بھلا دیے جاتے ہیں۔
بیرونی امداد سے ہونے والی خاطر خواہ آمدِ زر کی دست یابی ٹیکس اصلاحات پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ اب چوں کہ یہ اور دیگر آمدِ زر کے ذرایع ختم ہورہے ہیں،لہذا اب مالی خلا پُر کرنے کے لیے یہ راستہ بھی باقی نہیں بچا۔ اسٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں سے لیا جانے والا قرض ٹیکس کے نعم البدل کے طور پر بھی استعمال کیا گیا جس سے معیشت کو سنگین نقصانات اٹھانا پڑے۔ اب ہماری حالت یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی اور سبسڈیز کی مدکے لیے دی جانے والی رقم چاروں صوبوں اور وفاق کے ترقیاتی بجٹ سےبھی تجاوز کرچکی ہے۔ سود کی ادائیگی دفاعی بجٹ سے بھی بڑھ گئی ہے اور یہ بجٹ کا سب سے بڑا اخراجاتی آئٹم بن گیا ہے۔
اس پر طُرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک میں موجود بدعنوان اور جرائم پیشہ عناصر طرح طرح سے ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے میں تیزی سے مصروف عمل ہیں۔اسی سلسلے کی ایک کڑی اسمگلنگ ہے۔ اگرچہ معیشت کی تباہی میں اپنے حجم کے اعتبار سے اس کا حصّہ دیگر بد اعمالیوں کے مقابلے میں کم نظر آتا ہے،لیکن اس کے اثرات کثیر الجہتی ہیں۔اس سے ایک جانب قومی خزانے کو سالانہ کھربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے تو دوسری جانب بہت سی صنعتیں اور کاروبار اس کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں یا ہورہے ہیں۔
دسمبر 2020کی ایک رپورٹ کے مطابق اس برس ملک میں موبائل فونز کی اسمگلنگ کا حجم 3 کھرب 85 ارب روپے سے زایداورڈیزل کی اسمگلنگ کا حجم 3 کھرب 21 کروڑ روپے رہاتھا۔اسی برس گاڑیوں کی اسمگلنگ کا حجم 57 ارب سے زاید اورٹائرز کی اسمگلنگ کا 38 ارب روپے سے زاید رہاتھا۔فیبرک کی اسمگلنگ کا حجم88ارب سے زاید اور ادویات کی اسمگلنگ کا حجم 3658 ارب روپے سے زاید رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں محصولات میں 5 کھرب 57 ارب روپےکا نقصان ہوا تھا۔
کچھ عرصہ قبل ہارورڈ یونیورسٹی کے اقتصادی ماہرین کی ٹیم اور پاکستان کی وزارت تجارت کے اعلیٰ حکام کی مشترکہ طورپر مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ پاکستان میں ایک درجن اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ کا حجم 3.3 ارب ڈالرز سالانہ ہو چکا ہے۔ زیادہ فکر انگیز بات یہ ہے کہ پاکستانی حکام اس میں سے 95 فی صد سامان ضبط کرنے میں ناکام رہے۔ یہ اندازہ صرف درجن بھر اشیائے ضروریہ کا ہے۔ دیگر اشیائے ضروریہ کی اسمگلنگ کا حساب کتاب کیا جائے تو بات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
چند سال پہلے کی ایک اوررپورٹ کے مطابق 2014ء سے 2018ء کے دوران ہم سایہ اور دیگر ممالک سے اسمگلنگ میں تین گنا اضافہ ہوچکاتھا ۔ رپورٹ کے مطابق اسمگلنگ کا سامان پاکستان کے مختلف سیکٹرز میں پہنچا۔ اس میں تیل، موبائل فون اور بڑی مقدار میں چائے غیرقانونی طور پر پاکستانی مارکیٹس تک پہنچی۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں فروخت ہونے والے74فی صد موبائل فون غیرقانونی تجارت کے ذریعے یہاں پہنچتے ہیں۔ یہاں فروخت ہونے والا 53 فی صد ڈیزل، 43 فی صدانجن آئل، 40 فی صد ٹائر اور 16فی صد آٹو پارٹس بھی غیرقانونی تجارت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
پاکستان کے بازاروں میں فروخت ہونے والی23 فی صد چائے اور20 فی صد سگریٹ بھی اسمگلنگ کا مال ہوتے ہیں۔ تین لاکھ ٹن کپڑا بھی اسمگلنگ کا مال ہوتا ہے۔44ارب روپے کی ادویات بھی غیرقانونی تجارت کے ذریعے پاکستان کے بازاروں تک پہنچ جاتی ہیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کتنی بڑی مقدار میں سامان ڈیوٹیز ادا کیے بغیر پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کو اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
اسی تناظر میں ان دنوں ملک میں اسمگلنگ کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔دراصل یکم ستمبر کو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت ملک میں اسمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہواتھاجس میں انہوں نے کسٹمز حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملک سے چینی، پیٹرولیم مصنوعات، یوریا، زرعی اجناس اور دیگر اشیا کی اسمگلنگ کے سختی سے سد باب کی ہدایت کی تھی۔
نگران وزیراعظم نے ملک کی معیشت کی خرابی کی ایک وجہ اسمگلنگ کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسمگلنگ روکنے کے لیے ملوث حکام کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا ہے۔ اجلاس کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری کردہ بیان میں انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی مشکلات کی ایک بڑی وجہ اسمگلنگ بھی ہے، ٹیکس چوری اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت سمیت بہت سے مسائل اسمگلنگ سے جڑے ہوئے ہیں۔آج میں نے اسمگلنگ روکنے اور اس میں ملوث حکام کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔
آوازیں تو پہلے بھی اٹھ رہی تھیں
رواں برس اپریل کے مہینے میں سریا تیار کرنے والے اداروں کی ایسوسی ایشن (پی اے ایل ایس پی) کے سیکریٹری جنرل واجد بخاری نے اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر مطلع کیا تھا کہ بلوچستان میں فروخت ہونے والا 80فی صدسریا ایران سے بہ ذریعہ اسمگلنگ، مس ڈیکلیریشن اور انڈر انوائسنگ آرہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کی کم زور نگرانی کی وجہ سے اسمگل شدہ سریا اب لاہور، کراچی اور دیگر شہروں تک پہنچ چکا ہے۔
واجد بخاری نے بتایا تھا کہ ایران اور افغانستان سے تقریبا 5 لاکھ ٹن سریا اسمگل ہو کر پاکستان کے مختلف حصوں میں آتا ہے، جو مقامی مینوفیکچررز کے لیے شدید جھٹکا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ غیر قانونی طریقے سے آنے والا سریا پاکستان کی کل پیداوار کا10 فی صد ہے، تاہم اس کی وجہ سے قومی خزانے کو 25 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔
انہوں نے اسمگلنگ سے ملک میں مرتب ہونے والے اثرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کویہ غیر قانونی سرگرمی روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کی متعدد درخواستوں کے باوجود اس کی روک تھام کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
اسی طرح فروری میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سپر ٹیکس کے نفاذ سے متعلق درخواست پرتین رکنی بینچ کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ملک کے مفاد کے لیے خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، حکومت غیر ملکی کرنسی کی بیرون ملک اسمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔
ڈالر کو جھٹکا
ڈالر کی غیرقانونی تجارت، اسمگلنگ اورسٹے بازی کے خلاف حکومت کے کریک ڈاؤن کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اصلاحات کے مثبت نتائج بھی نظرآرہے ہیں۔سرکاری اقدامات کے بعد بالآخر پاکستانی روپے نے ڈالر کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں اور پاکستانی کرنسی نے گزشتہ ماہ بہترین کارکردگی میں دنیا بھر کی کرنسیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
کریک ڈاؤن شروع ہونے سے اب تک انٹربینک میں ڈالر 23 روپے 32 پیسے تک سستا ہوچکا ہے۔ انٹربینک میں ڈالر 283 روپے 78 پیسے کا ہو چکا ہے۔ دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں بھی ڈالر 44 روپے سستا ہوچکا ہے۔ تادمِ تحریر اوپن مارکیٹ میں ڈالر 285 روپے میں فروخت ہورہا تھا۔
اربوں کا دھندا
پاکستان میں اسمگلنگ ایک اہم مسئلہ ہے، اور اس کا ملکی معیشت پر اثر پڑتا ہے۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحدوں پر مختلف اشیا کی غیر قانونی تجارت ایک مستقل مسئلہ ہے۔ اسمگل شدہ مصنوعات نے پاکستان کی معیشت کے متعدد شعبوں میں دراندازی کی ہے، جس میں سیل فون، ایندھن،اور روزمرہ کی ضروریات جیسے باتھ روم کی فٹنگز اور چائے وغیرہ شامل ہیں۔ یہ غیر قانونی سرگرمی رسمی معیشت اور تجارت کو ریگولیٹ کرنے کی حکومتی کوششوں کو مشکلات سے دو چار کرتی ہے۔
ایران اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ سامان کی غیر قانونی تجارت جاری رہنے کے ساتھ، سرحدی اسمگلنگ پاکستان میں ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ سے پاکستان کو سالانہ 300 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت درآمد کی گئیں بیش تر مصنوعات پاکستان میں ہی فروخت کی جا رہی ہیں اور پیٹرولیم مصنوعات کی اسمگلنگ سے خزانے اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ایرانی ڈیزل کی اسمگلنگ سے10ارب روپے ماہانہ ریونیو کا نقصان ہورہا ہے اور ایرانی ڈیزل نے گھریلو ڈیزل کی کھپت کا تقریبا 40 فی صد حصہ چھین لیاہے۔اوگراکے حکام کے بہ قول سرحد پار اسمگلنگ کا حجم تقریباً 4000 ٹن یومیہ ہے، جس کے باعث ماہانہ تقریباً 120,000 ٹن یا 143 ملین لیٹر ماہانہ فروخت کا نقصان ہورہا ہےاور پیٹرولیم لیوی اور کسٹم ڈیوٹی کی وجہ سے پہلے سے سکڑے ہوئے قومی خزانے کو10.2ارب روپے ماہانہ کا غیر معمولی نقصان ہوتا ہے۔
انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے حکومت کو دی گئی رپورٹ کےمطابق، صرف ایرانی پیٹرولیم کی منصوعات کی غیر قانونی سپلائی سے قومی خزانے کو کم از کم 225؍ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اسمگل شدہ ایرانی پیٹرول سڑک کنارے پیٹرول بیچنے والی دکانوں پر غیر قانونی طور پر فروخت ہو رہا ہے اور اب تو صورت حال یہ ہے کہ یہ ایرانی تیل ملک بھر کے باضابطہ پیٹرول پمپس پر بھی فروخت ہونے لگا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انٹیلی جنس بیورو کی سخت محنت کے بعد 76؍ ٹرانسپورٹرز اور 29؍ اسمگلرز اور ان کے معاونین کی نشان دہی ہوئی ہے جو ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔
ستمبر کے مہینے میں سامنے آنے والی سویلین انٹیلی جینس ایجنسی کی ایک رپورٹ میں سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ کے لیے زمہ دار ٹھہرایا گیاتھا۔۔ اس رپورٹ کے مطابق اس غیر قانونی دھندے سے قومی خزانے کو سالانہ ساٹھ ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
وزیراعظم ہاؤس میں جمع کرائی جانے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انتیس سیاست داں اور نوّے کے قریب سرکاری افسران ایران سے پیٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ تاہم کئی سیاست داں اور ریٹائرڈ سرکاری افسران اس رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کے بہ قول رپورٹ میں ان طاقت ورعناصر کا تذکرہ نہیں کیا گیا، جن کے بغیر اس طرح کا کام ممکن نہیں ہے۔ ان میں سے چند افراد کا تو یہ تک کہنا ہے کہ سرکار کی طرف سے جسے اسمگلنگ کہا جا رہا ہے، وہ اسمگلنگ کے زمرے میں ہی نہیں آتی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں حکومت کی جانب سے حالیہ دنوں میں معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے، جس میںسے ایک ایرانی تیل کی اسمگلنگ کی روک تھام بھی ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں تقریبا نو سو پچانوے پیٹرول پمپس بھی ایرانی پٹرول کی اسمگلنگ میں ملوث ہیں اور یہ کہ اس غیرقانونی تجارت کی وجہ سے ملکی خزانے کو60ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔
کرنسی اور تیل کےبعد اب چینی،کھاد اورگندم کی اسمگلنگ کی رپورٹ بھی وزیراعظم سیکرٹریٹ میں جمع کرادی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق چینی،کھاد اور گندم کی پاکستان سے اسمگلنگ کے بارے میں تفصیلات رپورٹ کا حصہ ہیں جب کہ گندم، کھاد، چینی کے اسمگلرز اور سرکاری اہل کاروں کی تفصیلات بھی رپورٹ میں شامل کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں گندم کی اسمگلنگ میں ملوث 592 ذخیرہ اندوزں کی نشان دہی کی گئی ہےاورگندم کی اسمگلنگ میں 26 اسمگلرز شامل بتائے گئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال آئی بی نے 417 رپورٹس متعلقہ محکموں کو بجھوائیں، حساس ادارے کی نشان دہی پر90147 میٹرک ٹن ذخیرہ شدہ اور اسمگل ہونے والی گندم قبضےمیں لی گئی۔رپورٹ میں اسمگلرزکی مدد کرنے والے 259 اہل کاروں کی نشان دہی کی گئی ہے، صوبائی حکومتوں میں تعینات اہل کار اسمگلرز، ذخیرہ اندوزں کو مدد فراہم کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پنجاب میں272، سندھ میں244 اورکے پی میں56 سرکاری اہل کار اسمگلرز کے مددگار ہیں جب کہ بلوچستان میں 15 اور اسلام آباد میں 5 اہل کار اسمگلرزکےساتھی ہیں۔واضح رہے کہ اس سے قبل حساس ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ایرانی تیل کے کاروبار میں 29 سیاست داں بھی ملوث ہیں۔
اسمگلنگ کے راستے اور طریقے
پاکستان کے اندر اور باہر سامان کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ہونے کے لیے اسمگلر مختلف راستے اور حربے استعمال کرتے ہیں۔ یہ طریقے ایران اور افغانستان سے ملحق ناہم وار پہاڑی علاقوں سے گزرتے ہوئے زمینی راستوں کے ساتھ بحیرہ عرب کے ساتھ سمندری راستوں کو بھی کور کرتے ہیں۔ اسمگلر اکثر اونٹوں اور گھوڑوں جیسے جانوروں کا استعمال کرتے ہیں اور بعض صورتوں میں، غیر قانونی سامان کو سرحدوں کے پار منتقل کرنے کے لیے انسانی کو بھی بہ طور کورئیر استعمال کرتے ہیں، جو ان غیر قانونی سرگرمیوں کی استعداد اور وسائل کی عکاسی کرتے ہیں۔
اسمگل کی جانے والی اشیا
مختلف قسم کے سامان کو سرحد پار سے اسمگل کیا جاتا ہے، جس میں سیل فون، ایندھن، اور روزمرہ کی ضروریات جیسے بیت الخلاء کی فٹنگز ،ادویات اور چائے وغیرہ شامل ہیں۔ مزید برآں، چینی اور یوریا جیسی بعض اہم اجناس کو غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر منتقل کیا جاتا ہے۔ پیٹرولیم، تیل، لبریکینٹ اور ٹائرز سمیت مختلف مصنوعات کو کم سفر والے راستوں سے پاکستان میں اسمگل کیا جاتا ہے جو افغانستان اور ایران کے سرحدی علاقوں سے گزرتے ہیں۔ اسمگلنگ کی یہ سرگرمیاں پاکستان کے لیے اہم معاشی اور خلاف قانون مضمرات رکھتی ہیں۔
کیا پہلے والے لاعلم تھے؟
ایسا ہرگز نہیں ہے۔پہلے بھی سب کو سب کچھ پتا تھا۔یقین نہ آئے تو روزنامہ جنگ ، کراچی میں اکیس جون 2016کو شایع ہونے والی یہ خبر پڑھ لیں:
اسمگلنگ سے معیشت کو سالانہ270ارب کا نقصان
اسمگلنگ پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی،ایف بی آر کی خفیہ ررپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت کوصرف اسمگلنگ کی وجہ سے سالانہ 270ارب روپے سے زاید کا نقصان ہو رہا ہے۔پاکستان کی سرحدوں پر الگ سے کاروبار جگ مگا رہا ہے،مگر یہ کاروبار پاکستان کی معیشت کودیمک کی طرح چاٹ رہا ہے،جی ہاں ،ایف بی آر کی خفیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ سالانہ اسمگلنگ کی مد میں پاکستان کو 270ارب سے زاید کا نقصان ہو رہا ہے۔
یہ رقم کتنی اہم ہے آپ خود اندازا لگا لیجئے۔پاکستان کو کیری لوگر بل کی مد میں سالانہ 150ارب روپے ملتے تھے،آئی ایم ایف کے بے تحاشا مطالبات کو مان کر اور ان کی ڈکٹیشن سے پاکستان کو سالانہ 200ارب روپےکا قرض ملتاہے،مگر صرف اسمگلنگ سے ہونے والا نقصان 270 ارب روپے کا ہے، یعنی پاکستان کے کل سالانہ ترقیاتی بجٹ کا آدھا،یہ تو ہے پہلا نقصان۔
اسمگلنگ کا دوسرا نقصان اسمگل ہونے والی اشیاء کی مارکیٹ میں کم نرخوں پر فروخت کی وجہ سے مقامی صنعتیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں، محصولات کی مد میں ہونے والا نقصان کسٹمز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی مد میں ہورہا ہے۔ رپورٹ میں جن 12اشیاء کی اسمگلنگ کی نشان دہی کی گئی ہے، ان میں ٹائروں کی اسمگلنگ سے سالانہ 12ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان موبائل فون کی درآمد سے 150ارب روپےہے، اس کے علاوہ ٹیلی ویژن کی اسمگلنگ سے91کروڑ روپے، چائے سے 8ارب روپے، سگریٹ سے تین ارب روپےسالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔
اسٹیل شیٹ سے 11ارب 50کروڑ، پیٹرول سے 85ارب روپے اور فیبرک کی غیر قانونی درآمدسے 26کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے جبکہ گاڑیوں کی اسمگلنگ سے 17ارب 50 کروڑ روپے اور پرزہ جات کی اسمگلنگ سے 19 ارب روپے کا سالانہ نقصان ہو رہاہے۔رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ پاکستان میں اسمگلنگ جی ڈی پی کا تقریبا چار فی صد ہے۔
اب پانچ اکتوبر 2019کواس وقت کے وزیر اعظم کا بیان بڑھ لیں:
اسمگلنگ ملکی اقتصادیات کے لیے ناسور سے کم نہیں، جس پر جلد ہی قابو پالیا جائے گا :
انہوں نے یہ بات پیر کوا سمگلنگ کی روک تھام کے سلسلے میں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ اسمگلنگ کے ناسور نے ملکی معیشت کوبھاری نقصان پہنچایا ہے۔ صنعتی عمل کو فروغ دینے کی حکومتی کوششوں کو بارآور بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اسمگلنگ کے ناسور پر موثر طریقے سے قابو پایا جائے۔
پھر دو دسمبر 2021کو اس وقت کے وزیر اعظم نے چینی، گندم، یوریا اور پیٹرول کے اسمگلروں اور منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے دیا۔ انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ہدایت کی کہ وہ ہنگامی اقدامات کریں اور ضروری اشیا کی اسمگلنگ پر قابو پائیں۔
یعنی علم سب کو ہر دور میں رہا ،لیکن سب کی اپنی ’’مجبوریاں اور مسائل‘‘ تھے۔ لیکن اب نوالہ حلق میں پھنس چکا ہے، لہذا جان بچانے کے لیے ہاتھ پاوں تو مارنا پڑے گا نا۔