• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر نواز علی ،(جنرل فزیشن)

 تپ دق (ٹی بی )ایک قابل ِعلاج متعدی یعنی ایک دوسرے کو لگنے والی بیماری ہے ۔ جب ٹی بی کا مریض کھانستا ہے تو ہوا کے ذریعے اس کے بلغم میں موجود بیکٹیریا دوسروں تک پہنچ جاتا ہے، اس طرح دوسرا شخص بھی ٹی بی کا مریض بن جاتا ہے۔

یہ ایک قسم کا انفیکشن ہے ،جس کا سبب جراثیم ہوتے ہیں۔ یہ جراثیم عموماً پھیپھڑوں کو متاثر کرتے ہیں ،تاہم یہ جسم کے دیگر حصوں بشمول گردے، ریڑھ کی ہڈی اور دماغ کوبھی متاثر کرسکتےہیں۔ تپ دق کی 2 قسمیں ہوتی ہیں، ایک مخفی یا پوشیدہ تپ دق جو ایک سے دوسرے کو نہیں لگتا، دوسرا اصل تپ دق جو متعدی ہوتا ہے۔ یعنی ایک سے دوسرے کو لگ سکتا ہے۔ فعال تپ دق کی بیماری’’ مائیو بیکٹیریریم ٹیوبرکلوسس‘‘ جیسے ایک بیکٹیریا کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے۔

جو شخص مخفی تپ دق کے انفیکشن میں مبتلا ہوتا ہے ،اس میں اس مرض کی کوئی بھی علامت ظاہر نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ خود کو بیمار محسوس کرتا ہے، تاہم جب مریض کے خون کا ٹیسٹ کیا جاتا ہےتو اس وقت پتہ چلتا ہے کہ وہ لمفری جراثیم کے انفیکشن میں مبتلا ہے۔

مخفی ٹی بی میں مبتلا شخص دوسرے لوگوں تک جراثیم پھیلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا جو افراد مخفی ٹی بی میں مبتلا ہوتے ہیں، ان میں بیماری کی علامتیں کم اُبھرتی ہیں، کیوں کہ ان کے جسم میں جراثیم غیر فعال ہوتے ہیں، تاہم پوشیدہ ٹی بی میں مبتلا افراد کا مدافعتی نظام اگر کمزور ہو تو پھر جراثیم فعال ہوجاتے ہیں اور وہ حقیقی ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ پو شیدہ ٹی بی میں مبتلا افراد کا علاج اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ وہ کہیں فعال ٹی بی کے مرض میں مبتلا نہ ہوجائے۔ اس کی تشخص کے لیے بلغم کا ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔

اس کی ایک قسم Drug resistant TB کہلاتی ہے۔ اگر تپ دق کے مریض پر دوائیں اثر نہ کررہی ہوں تو پھر کہا جاتا ہے کہ اسے ڈرگ ریزسسٹنٹ ٹی بی ہوگئی ہے۔ ٹی بی کے جراثیم پر ادویہ کا اثر نہ ہونے کی دو اہم وجوہ ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ متاثرہ فرد جب دوا مقررہ مقدار اور تعداد میں باقاعدگی سے نہ کھا رہا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس فرد کو ٹی بی جس مریض سے منتقل ہوئی ہے اسے ڈرگ ریزسسٹنٹ ٹی بی لاحق ہو۔تپ دق کے جراثیم جسم میں داخل ہونے کے بعد ضروری نہیں کہ یہ انسان کو بیمار کردیں۔ یہ جسم کے اندر خاموش یا خوابیدہ حالت میں بھی رہ سکتے ہیں۔ طبی اصطلاح میں اسے Latent TB کہا جاتا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال لاکھوں لوگ اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔یہ کوئی ایسی بیماری نہیں ،جس کا علاج ممکن نہیں ہے۔ لیکن ظاہری علامات کی بنیاد پر تپ دق کی تشخیص بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض دیگر امراض کی علامات بھی تپ دق کی علامات کے مشابہ ہوتی ہیں۔ اس کی حتمی تشخیص بیکٹیریا کی موجودگی کے یقینی شواہد مل جانے کے بعد ہی ممکن ہوتی ہے۔ اس کے کچھ ٹیسٹ براہ راست بیکٹیریا کی موجودگی کی نشان دہی کے لیے کیے جاتے ہیں۔ 

دوسرے ٹیسٹ جیسے ایکسرے وغیرہ ممکنہ مریض پر بیکٹیریا کے اثر کا مشاہدہ کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اس کا علاج بھی موجودہے اور اس کی ادوایات بھی لیکن ان کے باوجود اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ ِصحت کی رپورٹس کے مطابق تپ دق دنیا میں اموات کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباً5 لاکھ افراد ٹی بی سے متاثر ہوتے ہیں، جس میں تقریباً ایک تہائی علاج کے لیے کہیں بھی رجسٹرڈ نہیں ہوتے اور ان کے ذریعے یہ مرض پھیلتا رہتا ہے۔

تپ دق5 سے 15 سال تک کے بچوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں74000 بچے ہر سال تپ دق سے جان کھو بیٹھتے ہیں اور ہر سال نصف ملین اس کے نئے مریض بچے سامنے آتے ہیں۔یہ ایک متعدی بیماری ضرور ہے لیکن سو فی صد قابلِ علاج ہے۔ اس کو ابتدائی مرحلہ میں ہی بر وقت اور آسانی سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔اس کے علاج کا دورانیہ 6 سے 9 مہینے تک ہوتا ہے۔

……علامات ……

اس کی علامات کا دارومدار اس بات پر ہوتاہے کہ جسم کا کون سا حصہ متاثر ہوا ہے۔ عموماً تپ دق کے جراثیم پھیپھڑوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اسے’’ پلمونری ٹیوبرکلوسس ‘‘کہا جاتا ہے۔ ایکسٹرا پلمونری ٹیوبرکلوسس تپ دق کی وہ شکل ہے جب پھیپھڑوں کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ اس سے متاثر ہوتا ہے، تاہم یہ دونوں اقسام بہ یک وقت بھی پائی جاسکتی ہیں۔

تپ دق کی عمومی علامات میں مسلسل 3 ہفتے سے زائد بلغم کے ساتھ ہونے والی کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون آنا ،تیز بخار، بہت زیادہ سردی کا محسوس ہونا، وزن میں کمی، سوتے ہوئے بہت زیادہ پسینہ آنا، تھکاوٹ کی وجہ سے ہر وقت نیند کا طاری رہنا، کھانے کی خواہش ختم ہوجانا، گلے کی سوجن، خاص طور پر لمفی گلینڈز کا سوج جانا، پھیپڑوں میں بعض اوقات پانی بھر جانا، سینے سے سیٹی کی آوازوں کا آنا، آواز کا بہت زیادہ بیٹھ جانا، سینے میں درد شامل ہیں ۔

…… قدرتی چیزوں سے علاج……

سیب

سیب کا استعمال تپ ِدق کے مریض کے لیے نہایت مفید ہے۔ روز ایک گلاس سیب کا جوس پینے سے جسم میں ہونے والی کمزوری دور ہو جاتی ہے۔

سنگترہ

پھیپھڑوں کی تپ دق میں مبتلا مریضوں کے لیے سنگترہ بے حد فائدے مند ثابت ہوتا ہے۔ اس کا روز ایک گلاس جوس پینے سے پھیپھڑے صحت مند ہو کر دوبارہ افعال ہو جاتے ہیں۔ ایک گلاس سنگترے کے رس میں ایک چائے کا چمچہ شہد اور چٹکی بھر نمک ڈال کر پئیں۔ اس جوس کا با قاعدہ استعمال مرض سے نجات دلاتا ہے۔

کیلا

ایک پیالی ناریل کے پانی میں ایک کیلا چھیل کر اس میں ملائیں اور اچھی طرح سے اسے پھینٹ لیں، پھر اس میں ایک کپ دہی اور ایک چائے کا چمچہ شہد ملائیں۔ یہ ایک مربہ کی شکل تیار کر لے گا اور اسے روزانہ کھائیں یہ تپ دق میں بے حد مفید ہے۔

کلونجی

آدھا چائے کا چمچہ کلونجی پیس کر پانی کے ساتھ کھائیں، یہ تپ دق کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔

اخروٹ

دو اخروٹ کو پیس لیں۔ا س میں ایک چائے کا چمچہ پیسا ہوا لہسن اور اس مقدار کا مکھن بھی شامل کریں ۔ ان تینوں اشیاء کو ملا کر ان کا ایک چمچہ روز کھائیں۔

ادرک

ایک چائے کا چمچہ ادرک لیں اس میں اتنی ہی مقدار میں شہد ڈال کر اسے صبح و شام کھائیں۔

بچاؤ

تپ دق سے بچاؤ کے ممکنہ اقدامات میں سب سے ضروری اس کے جراثیم کو ایک سے دوسرے فرد تک پہنچنے سے روکنا ہے۔ اس سے بچاؤ کی ویکسین بھی موجود ہے جو’’ بی سی جی‘‘ کہلاتی ہے، مگر یہ صرف بچوں کو لگائی جاتی ہے، بالغ افراد میں یہ مؤثر نہیں ہوتی۔

اگر کسی گھر میں کوئی فرد ٹی بی سے متاثر ہو تو اس کے کھانے پینے کے برتن، تولیہ اور استعمال کی دوسری چیزیں الگ کردینی چاہییں۔ علاوہ ازیں مریض اور گھر میں موجود لوگوں کو فیس ماسک کا استعمال لازمی کرنا چاہیے، تاکہ اس کے جراثیم صحت مند افراد میں منتقل نہ ہوسکیں۔

صحت سے مزید