۷اکتوبر، کا دن اسرائیلی کیلنڈر پر سب سےبڑی عید قومی چھٹی کے طور پر منایا جاتاہے،لیکن ۲۰۲۳ کی اس عید پرفلسطین کی آزادی کے متوالوں نے اسرائیل کو ایک ایسا تحفہ دیا جسے دنیا اب تک حیرت سے دیکھ رہی ہے ، اسے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کا نام دیا گیا۔ اس دن اسرائیلی مظالم، طویل محاصرے اور مسجد الاٗقصیٰ کی بار بار بے حرمتی کے خلاف فلسطینیوں کے صبر کا پیمانہ ایسا لبریز ہوا کہ حماس نے زمینی، سمندری اور فضائی حملوں سے اسرائیل کا سارا زعم خاک میں ملا دیا اور جس دیدہ دلیری سے اسرائیل پر تاک تاک کر حملہ کیا، اس نے مغربی ممالک کو حیرت میں مبتلا کردیا، لیکن مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، امریکا، بھارت، اٹلی سمیت دیگر مغربی ممالک نے حقائق جاننے کے باوجود محض مسلم دشمنی میں حماس حملوں کی نہ صرف مذمت کی بلکہ بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ تل ابیب کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
اسرائیل کی حمایت کرنے والوں کو کبھی مظلوم فلسطینیوں پر کیے جانے والے اسرائیلی مناظر نظر نہیں آئے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نےکہا، فلسطینیوں پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے خلاف مسجد اقصیٰ کے احاطے، فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاروں اور قابض فوج کی دہشت گردی کے خلاف ہمارے عوام کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ حماس کے فوجی کمانڈر، محمدویف نے مشرقی بیت المقدس سے شمالی اسرائیل تک بسنے والے تمام فلسطینیوں سے آزادی کی اس جنگ کا حصہ بننے کی اپیل کی ہے، جب کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فلسطینیوں کے نام اپنے دھمکی آمیز بیان میں کہا ہے کہ انہیں اپنے کیے کی قیمت چکانی پڑے گی۔
ایرانی سپریم لیڈر نے حماس کو مبارک باد کے ساتھ فلسطین اور القدس کی آزادی تک اس کا ساتھ دینے کا پیغام دیا ہے۔ گرچہ جنگ و جدل کوئی اچھا اقدام نہیں لیکن جو کچھ اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کرتا آرہا ہے اس تناظر میں لگتا ہے، یہ جنگ طویل ہوگی۔ متعدد علاقوں میں دو بدو لڑائی جاری ہے۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کا کہنا ہے غزہ میں کام یابی کے بعد یہ جنگ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس تک جائے گی اور اپنی سرزمین سے قابضین کے خاتمے تک جاری رہے گی۔
اب غزہ کی پٹی اسرائیل کے مزید شدید حملوں کی زد میں ہے۔ لیکن آگے بات کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ غزہ کی پٹی اور حماس کے بارے میں کچھ تفصیل قارئین کوبتادی جائے۔ غزہ کا علاقہ بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ہے جسے عربی میں قِطاعُ غزہ اور اردو میں غزہ کی پٹی کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل دولتِ فلسطین یا فلسطینی ریاست کا ایک حصہ ہے جس پر تحریکِ آزادیِ فلسطین حکومت کرنے کی دعوے دار ہے۔
فلسطینی ریاست میں دریائے اردن کا مغربی کنارہ بشمول مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی شامل ہیں،مگر عملی طور پر تمام علاقے اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔ گو کہ وہ جنگ صرف چھ دن چلی تھی، لیکن اس کے نتیجے میں اردن، شام اور مصر کے بڑے علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا ۔ 1993 سے 1995 تک ہونے والے اوسلو مذاکرات کے بعد دریائے اردن کے مغربی کنارے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، ایک طرف فلسطینیوں کی 165 آبادیاں تھیں ،جنہیں فلسطینی نیشنل اتھارٹی یا سلطنت الوطنیہ فلسطینیہ کہا گیا۔
اس پر تحریکِ آزادیِ فلسطین جسےفتح کا نام دیا گیا ،حکومت کرتی ہے۔ فتح فلسطینی قوم پرست جماعت ہے جو تنظیمِ آزادیِ فلسطین (PLO) کا ایک دھڑا ہے، جس کی سربراہی محمود عباس کررہے ہیں ۔ فتح کی قیادت 2004 میں یاسر عرفات کی وفات تک اُن کے پاس رہی، پھر اگلے پانچ سال 2009 تک فاروق القدمی فتح کی مرکزی کمیٹی کے سربراہ رہے ، جس کے بعد محمود عباس نے فتح کی قیادت سنبھالی۔
2006 کے انتخاب میں حماس نے فتح کو شکست دی ،جس سے فتح اور حماس میں تنازع ہوا اور مغربی کنارے پر فتح اقتدار میں آئی ،جب کہ غزہ کی پٹی پر حماس قابض ہوگئی ، گو کہ محمود عباس کی قیادت میں فلسطینی اتھارٹی اب بھی غزہ پر اقتدار حاصل کرنے کی دعوے دار ہے ۔ 2013 کے بعد سے فلسطینی اتھارٹی نے اپنے لیے فلسطینی ریاست کے الفاظ استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں گو کہ اقوام متحدہ اب بھی تنظیمِ آزادیِ فلسطین (PLO) کو فلسطینی عوام کا نمائندہ تسلیم کرتی ہے ۔ فلسطینی اتھارٹی کے قیام میں غزہ جریکو معاہدے نے اہم کردار ادا کیا تھا جو اوسلو معاہدے کے بعد ہوا اور جس کو 1994 کا قاہرہ معاہدہ بھی کہا جاتا ہے ،جس پر یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن نے دستخط کیے تھے۔
اس کی رو سے فلسطینیوں کو محدود خود مختاری دے دی گئی تھی اور مغربی کنارے کے علاوہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوجیں ہٹانے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ اس کے باوجود اسرائیل نے وادیِ اردن اور دیگر اسرائیلی مقبوضہ علاقوں کے ساتھ تمام رابطے کی سڑکوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھا جس سے فلسطینی علاقے ایک طرح کی بڑی جیل یا زندان میں تبدیل ہوگئے جہاں لاکھوں لوگ اسرائیل کی مرضی کے بغیر آ جا نہیں سکتے ، پھر اسرائیل نے یہودی آباد کاروں کے لیے نئی بستیاں آباد کرنا شروع کیں ،جن کے لیے سیکڑوں فلسطینی دیہات پر زبردستی قبضہ کر کے اُن کے مکانات اور باغات تباہ کر دیئے گئے اور یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے۔
اس طرح اسرائیل کی یہودی آبادیاں گولان کی پہاڑیوں، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر پھیلتی چلی گئیں۔ گولان کی پہاڑیاں شام سے چھین کر حاصل کی گئیں تھیں، جب کہ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کو اردن سے چھین کر ہتھیایا گیا تھا ۔ ان سب کارروائیوں پر بین الاقوامی برادری ہلکا پھلکا احتجاج کرتی رہی لیکن مجموعی طور پر اسرائیل کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کی گئی ،جس سے اسرائیل کو موقع ملتا گیا کہ وہ نا صرف مقبوضہ علاقے آباد کرتا رہے بلکہ فلسطینی عوام کو اپنے تشدد کا نشانہ بھی بناتا رہے، جس سے ہر سال سیکڑوں فلسطینی قتل کیے جاتے رہے، اس پر عالمی برادری اور عالم اسلام نے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا۔
اب غزہ کی پٹی کی بات کی جائے تو اس کی سرحد جنوب مغرب میں مصر کے ساتھ گیارہ کلومیٹر طویل ہے ،جب کہ مشرق میں پچاس کلومیٹر طویل سرحد اسرائیل کے ساتھ ہے۔ یعنی غزہ کی پٹی کوئی دس کلومیٹر چوڑی اور پچاس کلومیٹر لمبی ہے، جس پر 2006 سے حماس کا قبضہ ہے ،مگر غزہ مکمل طور پر اسرائیل کے محاصرے میں ہے۔
اس چھوٹے سے علاقے میں بنیادی سہولتوں کا شدید فقدان ہے اور یہاں پانی، بجلی اور دواؤں کی مستقل قلت رہتی ہے ۔ اقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کی درجنوں عالمی تنظیمیں مسلسل اسرائیل سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ وہ فلسطینی علاقوں کے محاصرے کو کھول دے مگر اسرائیل نے فلسطینی آبادی کو مسلسل شدید پریشان کُن حالات میں رکھا ہوا ہے ۔ اس دوران حماس اور فتح آپس میں بھی لڑتے رہے اور حماس نے فتح کے تقریباً تمام حمایتیوںکو کو غزہ سے نکال دیا۔
دو ہزار سات سے قبل تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ غزہ کے فلسطینی اسرائیل میں کام کرتے تھے، مگر پھر حماس کے غزہ پر قبضے کے بعد اسرائیل نے اُن کے اجازت نامے جاری کرنا بند کردیے جس سے غزہ میں بیروزگاری بڑے پیمانے پر پھیل گئی، وہاں کے معاشی حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے اور اسرائیلی اجازت ناموں پر کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ۔ فتح کے مقابلے میں حماس کو ایک بنیاد پرست جماعت سمجھا جاتا ہے جس کی سماجی خدمات کی ذیلی تنظیم دعوہ کہلاتی ہے، جب کہ کتائب القسّام یا القسّام بریگیڈ حماس کا عسکری ونگ ہے۔ حماس خود ایک لفظ نہیں تھا بلکہ یہ حرکتِ مقاومتِ اسلامیہ یعنی اسلامی مزاحمت کی تحریک کے ابتدائی حروف کو ملا کر بنایا گیا۔
حماس کی تشکیل 1987 میں ہوئی تھی اور اس کا عسکری ونگ 1991 میں قائم کیا گیا ۔ یورپی یونین کے علاوہ مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں،خاص طور پر القسّام تو اسرائیل کا مسلسل ہدف رہی ہے۔ حماس کے راہ نما ساٹھ سالہ اسماعیل ہانیہ ہیں جو 2006 سے 2014 تک فلسطینی قومی اتھارٹی کے وزیراعظم بھی رہے جب کہ صدر محمود عباس تھے ۔ اب جو تازہ ترین حملے حماس نے اسرائیل پر کیے ہیں ان میں ہزاروں راکٹ اسرائیل کی سرزمین پر داغے گئے اور حماس کے عسکریت پسند مختلف ذرائع اور راستوں سے اسرائیل میں داخل ہوئے۔
تاريخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اسرائیلی دفاعی حصار کو توڑ کر حماس کے جنگ جو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے علاوہ پیرا گلائیڈر کے ذریعے فضا اور کشتیوں کے ذریعے بحری راستے سے اسرائیل میں داخل ہوئے ۔ گو کہ اب فلسطین کی عسکری تنظیم کو الزام دیا جاتاہے۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سب سے پہلے یہودیوں کی صہیونی تنظیموں نے عسکری گروہ قائم کیے تھے جو تقریباً سو سال سے اس علاقے میں کاروائی کررہے ہیں، لیکن ان صہیونی کارروائیوں میں 1948 کے بعد شدید اضافہ ہوا، کیوں کہ جب برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطیٰ کو تقسیم کیا تو اس کا نتیجہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرائیل کی مصنوعی ریاست کے قیام کی صورت میں نکلا۔
1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو ٹکڑوں میں توڑ کر عرب اور یہودی ریاستوں کے قیام کا اعلان کیا تھا جو ظاہر ہے کہ فلسطینیوں کی حق تلفی تھی ۔ اسرائیل اب بھی غرب اردن پر قابض ہے جب کہ اس نے غزہ سے 2005 میں فوجیں نکال لی تھیں۔ اسرائیل نے ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کر رکھا ہے، جب کہ فلسطینی دعوی کرتے ہیں کہ مشرقی بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت بنایا جائے ۔ یاد رہے کہ غرب اردن اور غزہ کی پٹی کے درمیان صرف 45 کلومیٹر کا فاصلہ ہے جس پر اسرائیل کے قبضے نے فلسطین کو توڑ دیا ۔غرب اردن کے علاقے میں 86 فی صد فلسطینی اور صرف 14 فی صد اسرائیلی ہیں جو پچھلے پچاس سال میں مختلف نئی بستیوں میں آباد کیے گئے ہیں۔
گزشتہ بیس سالوں میں اُن نئی بستیوں کی تعداد میں خاصا اضافہ کیا گیا ہے جس سے فلسطینی ناراض اور نالاں رہتے ہیں،کیوں کہ ان یہودی بستیوں میں تمام جدید سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جب کہ فلسطینی علاقے زیادہ تر بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رہتے ہیں ۔ اس سب کے نتیجے میں حماس اسرائیل پر میزائل داغتا ہے اور جوابی کارروائی میں سیکڑوں فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ ایران حماس کو حمایت فراہم کرتا ہے۔ایران پر الزام ہے کہ وہ حماس کو ہتھیار اور عسکری تربیت بھی دیتا ہے ۔ اب تازہ ترین لڑائی کے پس منظر میں یہ بات ہے کہ مستقل تناؤ ناقابل برداشت ہوگیا ہے اور غزہ میں آباد فلسطینیوں کے پاس غالباً جنگ کے سوائے کوئی متبادل نہیں رہ گیا تھا ۔ تازہ حملے جنوبی اسرائیل میں ہوئے ہیں جن میں اسرائیلی فوج کے ساتھ براہِ راست لڑائی بھی ہوئی ہے۔
مسلح جھڑپوں کے بعد اسرائیل کی کئی فوجی چوکیاں تباہ کردی گئیں اور متعدد اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا گیا ۔ حماس نے درجنوں اسرائیلی فوجیوں کو جنگی قیدی بنانے کا دعوی کیا ہے جن میں کچھ اعلی عہدے دار بھی شامل ہیں۔ جواب میں اسرائیل نے جو اندھا دھند حملے کیے اُن میں سیکڑوں فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور غزہ میں درجنوں مقامات کو اسرائیلی طیاروں نے بم باری کا نشانہ بنایا ہے جن میں غزہ شہر کے مرکز میں واقع گیارہ منزلہ عمارت بھی شامل ہے، جسے بم باری کر کے تباہ کردیا گیا ہے۔ حماس نے اس حملے کے بعد مزید سیکڑوں راکٹ اسرائیلی علاقے پر داغے ہیں۔ اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو جو 74 سال کے ہیں، مجموعی طور پر سولہ سال سے زیادہ عرصے وزیراعظم رہ چکے ہیں اور تین بار یہ عہدہ سنبھال چکے ہیں۔
پہلی بار 1996 سے 1999 تک ، دوسری بار 2009 سے 2021 تک مسلسل بارہ سال وزیراعظم رہے اور پھر ایک سال کے وقفے کے بعد 2022 میں پھر یہ عہدہ سنبھال لیا۔ وہ ایک الگ اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں،انہوں نے غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر میں خاص دلچسپی لی ہے۔ ان نئی یہودی بستیوں کے گرد سیکورٹی رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں جن سے قیامِ امن کی کوششوں کو مزید نقصان پہنچتا ہے ۔ ویسے تو عالمی برادری اسرائیل کے یروشلم پر مکمل دعوے کو تسلیم نہیں کرتی لیکن پھر بھی اسرائیل اسے ہی اپنا دارالحکومت بنانے کا دعوے دار ہے، جب کہ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانے پر راضی ہوچکے ہیں، لیکن اسرائیل اپنی ضد پر قائم ہے اس لیے اس مسئلے کا ذمہ دار بنیادی طور پر اسرائیل ہی ہے، کیوں کہ اس نے غربِ اردن اور مشرقی یروشلم کے مقبوضہ علاقوں میں پانچ لاکھ سے زیادہ یہودی آباد کردیے ہیں۔
یہ بات بھی مدّنظر رکھنی چاہیے کہ فلسطینی تارکین وطن کی تعداد تقریباً ایک کروڑ بتائی جاتی ہے لیکن صرف پچاس لاکھ نےاقوامِ متحدہ کے پاس اندراج کرایا ہے۔ اسرائیل خود تو دنیا بھر سے ایسے یہودیوں کو لاکر مقبوضہ علاقوں میں آباد کررہا ہے جنہوں نے کبھی اس علاقے میں قدم نہیں رکھا تھا، لیکن دوسری طرف اسی علاقے کے اصل باشندوں کو واپس آنے کی اجازت دینے پر تیار نہیں ہے کیوں کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس کی شناخت خطرے میں پڑ جائے گی ۔ اب بظاہر یہ لگتا ہے کہ اسرائیل اپنے ماضی پر عمل کرتے ہوئے شدید جوابی ردعمل کا اظہار کرے گا ، ممکن ہے کہ چند سو اسرائیلی اموات کے مقابلے میں فلسطینیوں کی اموات ہزاروں سے تجاوز کر جائیں۔
اس مسئلے کا حل تو یہی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی آزاد ریاست کے حق کو تسلیم کرے اور غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کرے ،جس سے تنگ آکر حماس نے اتنے بڑے پیمانے پر حملے کیے ہیں۔ ساتھ ہی غربِ اردن اور مشرقی یروشلم میں جگہ جگہ فوجی چوکیاں اور رکاوٹیں ختم کرنا ہوں گی جن سے فلسطینیوں کو بار بار گزرنا پڑتا ہے۔ ان مسائل کا حل تشدد ہرگز نہیں ہے کیوں کہ اس سے صورت حال مزید خراب ہوجاتی ہے اور مزید فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اسرائیلی فضائیہ نے حماس کے انٹیلی جنس کے سربراہ کی عمارت کو نشانہ بنایا ہے تو اس سے حماس کا خاصا نقصان ہوگا ۔ اسرائیلی اندھا دھند حملوں کے بعد غزہ کے شہری اپنے رہائشی علاقوں میں شدید خوف کا شکار ہیں کیوں کہ ان کے پاس جانے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں ہے اور اپنے زندان میں ہی اسرائیلی ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ حماس نے اپنے محلوں کو " ظوفان اقصی" کا نام دیا ہے جس میں سرحدی علاقوں میں حملوں کے بعد یہودیوں کو گھروں سے نکال کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر غزہ منتقل کردیا گیا ۔ یہ بات تو اب حقیقت بن کرسامنے آچکی ہے کہ اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر یا ناقابلِ شکست ہونے کا تاثر بڑی حد تک زائل ہوچکا ہے لیکن اس سے قبل ہم دیکھ چکے ہیں کہ کئی عرب ممالک اپنی افواج کو استعمال کرکے اسرائیل کو جھکانے کی کوشش کرچکے ہیں جو ناکام رہی ہیں، اس لیے حماس اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان حملوں سے کوئی حتمی فائدہ حاصل کر کے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتی ہے تو یہ خام خیالی ہوگی۔
وقتی طور پر اسرائیل ایک بڑے جھٹکے سے ضرور دوچار ہوا ہے جیسا کہ ٹھیک پچاس سال قبل 1973 میں شام اور مصر نے عرب اسرائیل جنگ شروع کرکے ابتدائی کام یا بیاں حاصل کی تھیں، لیکن جلد ہی اسرائیل نے ان ابتدائی نقصانات کے باوجود اپنے مقبوضہ علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا اور عربوں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا۔ اسرائیل کی پشت پر امریکا ایک بڑا سہارا ہے جو مسلسل اسرائیل کی مدد کرتا ہے اور اب تو بھارت بھی اسرائیل کا حامی ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا کیوں کہ خود اسرائیل نے بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بھارت پر کبھی تنقید نہیں کی ۔ بھارت میں ماضی کی کانگریسی حکومتوں نے ہمیشہ اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کا ساتھ دیا ،مگر اب بی جے پی اسرائیل کے ساتھ ہے۔
خود بھارت میں مودی کی جانب سے اسرائیل کی حمایت پر شدید تنقید کی جارہی ہے،اس سے قبل خود بی جے پی کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا موقف تھا کہ اسرائیل نے فلسطین کی جس زمین پر قبضہ کیا ہے وہ اسے خالی کرنا پڑے گی ۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغربی دنیا میں جو نظریہ پیش کیا گیا اسے’’ تہذیبوں کا تصادم‘‘ کہا گیا ،یعنی اب جنگ طبقاتی نہیں بلکہ تہذیبی ہوگی ۔ پیچھلے تین سالوں میں اسی نظریے کے تحت دنیا بھر میں مذہبی منافرت کو مزید ہوا دی گئی جس میں اسرائیل ،امریکا اور دیگر مغربی سرمایا دار ممالک نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ اس طرح سرمایا دارانہ طاقتیں لوگوں کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا کر مذہبی اور تہذیبی منافرت کو پروان چڑھاتی رہی ہیں اور لگتا ہے کہ یہ جنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے
(فیض احمد فیض)
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے
کیا خوف ز یلغار اعدا
ہے سینہ سپر ہر غازی کا
کیا خوف ز یورش جیش قضا
صف بستہ ہیں ارواح الشہدا
ڈر کاہے کا
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
قد جاء الحق و زھق الباطل
فرمودۂ رب اکبر
ہے جنت اپنے پاؤ
ہے جنت اپنے پاؤں تلے
اور سایۂ رحمت سر پر ہے
پھر کیا ڈر ہے
ہم جیتیں گے
حقا ہم اک دن جیتیں گے
بالآخر اک دن جیتیں گے
حزب اللہ کے سینئر عہدے دار، ہاشم صفی الدین نے فلسطینیوں کے نام ایک پیغام میں کہا ہے کہ ہماری تاریخ، ہماری بندوقیں اور ہمارے راکٹ آپ کے ساتھ ہیں۔ حزب اللہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ریڈار سائٹس، زبدین اور رویسات العالم پر بڑی تعداد میں توپ خانے کے گولوں اور گائیڈڈ میزائلوں سے بم باری کی گئی ہم نے حملہ کرکے اسرائیل کو پیغام دیا ہے کہ ہمارے پاس ہتھیاروں کی بھاری مقدار موجود ہے۔ اس کے جنگ جُو تعداد میں زیادہ اور تربیت یافتہ ہیں اسرائیل کے تمام شہر حزب اللہ کے میزائلوں کے رینج پر ہیں۔
اسرائیل کے مضبوط دفاعی نظام کو توڑ کر اور خفیہ ایجنسیوں کو بے خبر رکھ کر طوفان الاقصیٰ کے نام سے کی جانے والی ہمہ پہلو کارروائی کیسے ممکن ہوئی، اسرائیلی حکومت اور اس کی حامی مغربی طاقتوں سمیت سب کیلئے یہ ایک معمہ ہے۔ حماس نے اسرائیلی کے جنوبی شہروں میں فوجی اڈوں اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ مجاہدین کی بڑی تعداد غزہ کی سرحد پر موجود باڑ ہٹاتے ہوئے زمینی راستے سے اسرائیل کے شہر اشکلون سمیت جنوبی شہروں میں داخل ہوئی جبکہ سمندری راستے اور پیراگلائیڈرز کی مددسے بھی متعدد حماس ارکان نے حملہ کیا۔
حماس کے فوجی کمانڈر محمد الضیف کے بقول ہم نے غاصب کے تمام جرائم کا سلسلہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اُن کی بلا احتساب اشتعال انگیزی کا وقت ختم ہو گیا۔ حماس نے مغربی کنارے میں مزاحمت کرنے والے جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ عرب ممالک سمیت دیگر مسلم اقوام سے جنگ کا حصہ بننے کی اپیل کی ہے۔ حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ صالح العروری نے کہاہے کہ، ہم مار کربھاگیں گے نہیں، مکمل جنگ شروع کی ہے، توقع ہے کہ محاذ پھیلے گا، ہماری جہدو جہد کا مقصد زمین اور مقدس مقامات کی آزادی ہے۔