• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

لاہور شہر کا تانگہ کلچر ملک کے دوسرے شہروں کے تانگہ کلچر سے بہت مختلف رہا ہے۔لاہور میں دو طرح کے تانگوں کا طریقہ کار تھا سالم تانگہ جو کوئی بھی صاحب حیثیت شخص اپنی منزل تک کا یکطرفہ یا دو طرفہ کرایہ طے کرکے تانگے کو حاصل کر لیا کرتا تھا پھر تانگے والا ٹھہرنے یعنی انتظار کرنے کے بھی بعض اوقات الگ سے پیسے لے لیا کرتا تھا اور دوسرا طریقہ سواریوں والا تانگہ ہوتا تھا جس میں ایک منزل پر جانے والی چھ سواریاں سوار ہو جاتی تھیں یا جس کسی نے راستے میں اترنا ہوتا وہ بھی سوار ہو جاتا تھا۔ سواریوں والے تانگوں میں عموماً خواتین نہیں بیٹھتی تھیں البتہ اسکولوں اور کالجوں کی لڑکیاں پردے والے اور بغیر پردے تانگے میں سفر ضرور کیا کرتی تھیں۔ہمیں یاد ہے کہ لاہور کالج، کنیئرڈ کالج، کوئین میری کالج، اسلامیہ کالج، کوپر روڈ، اپواء کالج، اسلامیہ کالج کینٹ، سمن آباد گرلز کالج کے باہر تانگوں کی ایک لمبی قطار کھڑی ہوتی تھی۔لاہور کے تیرہ دروازوں کے اندر صرف تانگہ اور ریڑھا ہی چلا کرتا تھا ریڑھا تو آج بھی کہیں کہیں نظر آتا ہے۔اب ان کالجوں کے باہر چنگ چی رکشے اور چھوٹی ویگنیں کھڑی ہوتی ہیں۔ہم بھاٹی دروازے کے باہر گول چکر کے قریب سواریوں والے تانگے پر سوار ہوتے اور چار /چھ آنے دیکر برانڈرتھ روڈ پر اپنے دوست عابدعلی عابد (ڈنمارک) کے گھر رام گلی نمبر 2میں جایا کرتے تھے اور کبھی کبھی سالم تانگہ کرا کے ایک روپیہ دیکر بھی جایا کرتے تھے لاہورمیں کبھی سائیکل بھی چار آنے گھنٹہ کے حساب سے ملا کرتی تھی۔ لاہور میں پانی والا تالاب ،چونا منڈی میں بودی سائیکلوں والا بڑا مشہور تھا۔ بھاٹی گیٹ چوک، سنت نگر، لوہاری دروازہ اور دیگر علاقوں سے سائیکل کرایہ پر ملا کرتی تھی ہم نے خود کئی مرتبہ چار آنے گھنٹہ کرایہ پر سائیکل حاصل کی تھی ڈیمنووالی سائیکل کا کرایہ ایک یا دو آنے زیادہ ہوتا تھا ۔ہائے کیا دور تھا ،لاہور کی ایلیٹ کلاس شام کو اپنے ذاتی تانگوں اور ٹم ٹم پر مال روڈ کی سیر پر جایا کرتی تھی راوی کنارے بھی بہت لوگ تانگوں پر جایا کرتے تھے۔کبھی لاہور میں اینگلو انڈین لڑکیاں کنیئرڈ کالج تانگے میں فراک پہن کر جایا کرتی تھیں، کیا لاہور تھا اور کیا ہو گیا تانگے کے ساتھ بھی پوری ایک انڈسٹری وابستہ تھی ۔جس طرح ہم نے پہلے بھی کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ ہماری فیملی کی چھ کنال کی کوٹھی تھی جس کے فرنٹ پر ٹیپ روڈ اور بیک پر ریٹی گن روڈ لگتی تھی ریٹی گن روڈ اپنے دور کے ایک مشہور ومعروف بیرسٹر مسٹر ریٹی گن کے نام پر ہے ۔یہ علاقہ کبھی لاہور کا سب سے خوبصورت، صاف ستھرا اور ایلیٹ کلاس کا علاقہ تھا آج یہ سارا اردو بازار بن چکا ہے ۔ریٹی گن روڈ کے بازار قطب روڈ اور حضرت علی ہجویری ؒ کے مزار مبارک کے ارد گرد ذیلدارروڈ اور موہنی روڈ وغیرہ پر تانگے بنانے کی پوری انڈسٹری تھی کہیں گھوڑوں کے نعل بنائے جاتے تھے کہیں اس کا فریم، کہیں زین بنائی جاتی تھی کہیں تانگوں پر خوبصورت رنگ وروغن کیا جاتا تھا کہیں اس کے پہیوںپر ربڑ اور لوہے کا کڑا چڑھانے کا کام ہوتا تھا ۔یہ سارے کام ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اب ان کا نام ونشان نہیں رہا۔کہیں خرادیئے بیٹھے ہوتے تھے وہ تانگے کی کمانیوںکے لئے نٹ بولٹ بنا رہے ہوتے تھے ارے سب کچھ ہی ختم ہو گیا پھر گھوڑوں کیلئے ٹوکے لگے ہوتے تھے جہاں پر چارہ وغیرہ کاٹا جاتا تھا ہر تانگے کے اڈے پر گھوڑوں کیلئے پانی پینے کے حوض ہوتے تھے ۔لاہور میں اکثر تانگے والے ریس بھی لگاتے تھے۔منیر نیازی اور دیگر شعرا بھی تانگوں پر سفر کرتے تھے بلکہ منیر نیازی کاایک واقعہ بھی تانگے والے سے وابستہ ہے ۔ پھر حادثات بھی ہوتے تھے پولیس ان کو پکڑ کر جرمانے بھی کرتی تھی تانگے کے دونوں طرف لالٹین نما بڑی بتیاں لگانا لازمی ہوتا تھا ، جن میں مٹی کے تیل کا دیا جلایا جاتا تھا۔تانگے پر پائوں سے بجانے والی گھنٹی بھی لازمی لگائی جاتی تھی۔قارئین کو یہ بات سن کر بڑی حیرت ہو گی کہ تانگہ بانوں کی بڑی مضبوط یونین تھی وہ اکثر اپنے مطالبات کے لئے ہڑتال بھی کر دیا کرتی تھی تانگہ بان کی باقاعدہ خاکی وردی اور سر پر پگڑی ہوتی تھی جس پر پینل کا نمبر ہوتا ہے ہر تانگے کو ایک نمبر الاٹ ہوتا تھا جو کارپوریشن والے دیاکرتے تھے تانگوں کا ون وے پر اور بتی نہ ہونے پرجرمانہ ہوتا تھا ان کو گرفتار بھی کیا جاتا تھا ۔لاہور میں 1919ءمیں مارشل لا بھی لگا تھا ۔ تانگہ بانوں نےانہی دنوں اپنے مطالبات منوانے کیلئے ہڑتال کی تھی ،کوچوان اپنے جلسے بھی کیا کرتے تھے ۔

قارئین آپ کو یہ سنکر حیرت ہو گی کہ جب لاہور میں اومنی بس سروس شروع ہوئی تو تانگہ یونین نے ان کے خلاف ہڑتال کر دی اور کہا کہ ان بسوں کا پرمٹ کینسل کیا جائے یا پھر انہیں صرف چند مخصوص روٹس تک کی اجازت دی جائے تانگے بانوں یعنی کوچوانوں کی یونین بڑی مضبوط ہوتی تھی بلکہ بعض سیاسی جماعتیں اپنے جلسوں کے لئے بھی انہیں استعمال کیا کرتی تھیں تانگوں کو پاس کرانے کے لئے کارپوریشن کے ایگزیکٹو آفیسر کے پاس جانا پڑتا تھا آپ کو حیرت ہو گی کہ گورے کے زمانے میں بھی کارپوریشن کا یہ افسر رشوت لیکر تانگے کو پاس کیا کرتا تھا۔ایک زمانہ تھا لاہور میں دس ہزار کے قریب تانگے چلا کرتے تھے اب تو تانگہ دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں لاہور میں کبھی تانگوں کو چیک کرنے کے لئے تانگہ انسپکٹر،مجسٹریٹ اور بلدیہ کے دیگر لوگ بھی ہوا کرتے تھے، ہمیں یاد ہے کہ لاہور میں ایک مجسٹریٹ بڑا مشہور تھا جو تانگے والوں سے چار آنے بطور رشوت لیا کرتا تھا اس کا نام ہی چونی مجسٹریٹ پڑ گیا تھا۔لاہور میں انگریز کے دور میں پاکستان کے ابتدائی چند برسوں میں قانون کی حکمرانی کس قدر سخت تھی کہ تانگے کو ون وے کی خلاف ورزی ،بتی نہ ہونے پر اور سواریاں مقرر ہ تعداد سے زیادہ بٹھانے پر جرمانہ کیا جاتا تھا اب تو وہ لاہور نہیں جہاں پر ٹریفک کی ذرا سی خلاف ورزی پر جرمانہ ہوتا ہو۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور تانگہ ورکرز کی یونین کافی مضبوط تھی یہ کوچوان میونسپل کمیٹی کے انتخابات پر بھی اثرانداز ہوتے تھے جب لاہور میں بس سروس کا آغاز ہوا تو ان کوچوانوں نے ہڑتال کرکے بھاٹی گیٹ سے لاہور اسٹیشن اور کچہری تک بس روٹ کو بند کرا دیا تھا۔ ( جاری ہے )

تازہ ترین