مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک ممتاز رکن جناب علی احمد فضیل نے روزنامہ جنگ کراچی کی 23مارچ 1982ءکی ایک اشاعت میں انٹرویو دیتے ہوئے قائدملت کی مرکزی اسمبلی کی نشست جیتنے کا آنکھوں دیکھا حال ان الفاظ میں بیان کیا۔
1945ءکے الیکشن کا وقت آیا تو لیاقت علی خاں خود بھی میرٹھ سے امید وار تھے۔ الیکشن مہم چلانے کے لئے طلبا کا ایک سیل تشکیل دیا گیا،جس کے انچارج منظرعالم صاحب تھے۔ سہارنپور اور مظفر نگرمیں کام کرنے والے گروپ میں منظر عالم احمد وہاب خیری ،جمیل الدین احمد، جمیل احمد اور میں خود تھا۔ انتخابی مہم کے دوران لیاقت علی خاں تقریباََ تمام ہی حلقوں میں گئے، سوائے اپنے حلقے کے، چنانچہ ہم لوگ نواب اسمٰیل کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ لیاقت علی خاں کو اپنے حلقے میں بھی جانا چاہئے۔جب الیکشن میں آٹھ دس روز باقی رہ گئے تو لیاقت علی خاں اپنے حلقے میں تشریف لائے۔
مظفر نگر میں آپ کا اپنا مکان تھا جو ’’کہکشاں‘‘ کے نام سے تھا، انہوں نے وہیں پر قیام کیا۔ لیاقت علی خاں کے مخالف امیدوار محمد احمد کاظمی تھے ہمیں پتہ چلا کہ جواہر لال نہرو محمد کاظمی کی انتخابی مہم کے لئے آرہے ہیں، اس وقت کیسٹ تو ہوتے نہیں تھے ہمارے پاس سورہ الرحمٰن کا ریکارڈ تھا۔ لائوڈاسپیکر وغیرہ جیپ میں لگے ہی ہوتے تھے، چنانچہ ہم وہ ریکارڈ لے کر جگہ جگہ پہنچ گئے جہاں جہاں نہرو کو تقریر کرنا تھی اور اس سے تھوڑے فاصلے پر اپنےجلسے کا انتظام کرنے لگے۔
جب نہرونے تقریر شروع کی تو ہم نے سورہ الرحمٰن کا ریکارڈلگادیا، چنانچہ نہروکے جلسے میں جو مسلمان شریک تھے وہ سورہ الرحمٰن کی طرف متوجہ ہوگئے اور پھر تھوڑی دیر بعد ان لوگوں کے چہرے ہماری طرف اور پیٹھ نہرو کی طرف تھی۔ ہمارے مخالفین بھی اس وقت اس لئے خاموش رہے کہ مذہب کا معاملہ ہے، چنانچہ مجموعی طور پر ہمارے جلسے کامیاب رہے۔ جب ہم نے لیاقت علی خاں کو اپنی کارکردگی کی رپورٹ دی تو انہوں نے خوش ہونے کی بجائے اظہار ناراضگی کیااور کہا کہ دشمن سے مقابلے کے بھی طریقے ہوتے ہیں، تمہیں ان کا جلسہ درہم برہم نہیں کرنا چاہئے تھا۔