مرتب: رضیہ فرید
آج شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خاں کی برسی ہے۔ تحریک پاکستان سے قیام پاکستان اور بعد میں انہوں نے ملک و قوم کے لیے جو خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ شہید ملت نے شمع آزادی روشن کرنے کے لیےبانیٔ پاکستان کے شانہ بشانہ کام کیا۔ قیام پاکستان سے قبل عبوری حکومت کے وزیر خزانہ کی حیثیت سے انہوں نے غریب آدمی کا بجٹ پیش کر کے ہندوئوں اور انگریزوں کی سازشوں کو جس طرح ناکام بنایا،وہ ان ہی کا حصّہ تھا۔
قیام پاکستان کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کے ساتھ مرکزی وزیر دفاع کا محکمہ بھی ان ہی کے سپردرہااور بہ طوروزیردفاع ان کی وہ تقریر بہت مقبول ہوئی جس میں انہوں نے دشمن کو اپنا آہنی مکّا دکھاتے ہوئے عوام سے کہا تھا:’ ’بھائیو! یہ پانچ انگلیاں جب علیحدہ ہوں تو ان کی قوت کم ہوجاتی ہے لیکن جب یہ مل کر مکّا بن جائیں تو یہ مکّا دشمن کا منہ توڑ سکتا ہے‘‘ قائد ملت کا یہی تاریخی مکّا اتحاد وقوت کی علامت بن گیا۔
شہید ملت کی برسی کے موقعے پر زاہد حسین انجم کی مرتب کردہ کتاب بہ عنوان ’’قائد ملت لیاقت علی خاں،حیات وخدمات ‘‘سےایک باب میں نواب زادہ لیاقت علی خان کے سیکرٹری نے ’’قائد ملت کی شہادت ‘‘کا گھر سے جلسہ گاہ تک پہنچنےاور پھر شہادت کا احوال قلم بند کیا ہے جو نذرِ قارئین ہے۔
16؍اکتوبر 1951ءکو شہید ملت نواب زادہ لیاقت علی خان مسئلہ کشمیر کے بارے میں حکومتی پالیسی کی وضاحت اور مسلم لیگ کے اندرونی اختلافات کے خاتمے کی ضرورت پر زور ڈالنے کیلئے ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کیلئے راولپنڈی تشریف لائے۔ یہ جلسہ سابقہ کمپنی باغ اور موجودہ لیاقت باغ میں ہونا تھا۔ جلسے کا اسٹیج کافی اونچی پربنایا گیا تھا۔ اور اسٹیج پر اس وقت صرف ایک کرسی رکھی گئی تھی۔ وزیراعظم کے سیاسی معتمد نواب صدیق علی خان نے جلسہ گاہ میں آکر انتظامات کا بغور جائزہ لیا اور فضا کو پرامن پا کر واپس چلے گئے ، تھوڑی دیر بعد قائد ملت جلسہ گاہ میں تشریف لے آئے۔اس کے بعد کیا ہوا ،اس کی تفصیل قائد ملت نواب زادہ لیاقت علی خان کے سیکرٹری نےقلم بندکی ہے۔وہ لکھتے ہیں،
’’ابھی آسمان پر چاند کی تیز روشنی میں ستارے جھلمل جھلمل کررہے تھے اور رات کی آخری میٹھی لوریاں دنیا کو تھپک کر گہری نیند سلا رہی تھیں کہ 16؍اکتوبر 1951ء کی صبح کاذب اس پرسکون … نظر میں آہستہ آہستہ بڑھنے لگی اور میں کروٹ لے کر اٹھ بیٹھا کیونکہ مجھے قائد ملت کے ہمراہ راولپنڈی جانا تھا۔ حسب معمول ٹھیک ساڑھے سات بجے صبح میں وزیراعظم کی کوٹھی پر پہنچ گیا اور ان کا انتظار کرنے لگا۔ چند منٹ بعد وہ بند کالر کا سفید کوٹ زیب تن کئے۔ چہرے پر ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ کھِل رہی تھی۔میں نے سلام کیاقائد نے میرے سلام کا جواب دیتے ہوئے چلنے کی ہدایت کی۔ جب ہم ان کی ذاتی سیاہ کیڈلک کار کے قریب پہنچے تو میاں اکبر نے کہا۔ ڈاڈا! ہم آپ کے ساتھ پنڈی چلیں گے۔
محبت اور تحکم میں ڈوبے ہوئے انداز میں نورنظر سے فرمایا۔ نہیں! تم اپنے اسکول جائو گے اور دونوں صاحبزادوں کو خدا حافظ کہا۔ بچے عازم اسکول ہوئے اور ہم نے طیران گاہ کا راستہ لیا۔ حسب عادت انہوں نے مجھے اپنی کار میں برابر کی نشست پر بٹھایا۔ میں نے کہا۔ اطلاع ملی ہے کہ راولپنڈی میں موسم سرد ہوگیا ہے۔ انہوں نے فوراً اپنے ملازم خاص عبدالغنی سے پوچھا۔ تم نے کمبل رکھ لیا ہے یا نہیں؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ اس دن ماری پور کا راستہ بھی بہت جلد طے ہوگیا۔ طیران گاہ پر چند اصحاب خداحافظ کہنے آئے تھے۔ وزیراعظم ان سے مل کر رخصت ہوئے اور ہوائی جہاز میں جا بیٹھے۔ جہاز نے ٹھیک آٹھ بجے پرواز کی اور اپنے عظیم المرتبت مسافر کو لے کر اس منزل کی طرف تیزی سے روانہ ہوا جہاں شہادت اس کا انتظار کررہی تھی۔
چونکہ مجھے ہمیشہ اپنا دوست اور قدیم رفیق کار سمجھتے تھے اس لئے اپنے کیبن میں نشست دی اور عبدالغنی کو ساڑھے نو بجے ناشتہ لانے کا حکم دیا۔ ہم ساڑھے نو بجے تک اخبار پڑھتےاور مختلف موضوعات پر گفتگو کرتےرہے۔ ناشتے کے بعد ڈپٹی پرائیویٹ سیکرٹری میاں منظور احمد نے وزارت دفاع سے اس تقریر کا موصول شدہ مسودہ پیش کیا جو 17؍اکتوبر کو کیمبل پور میں صدسالہ ری یونین کے موقع پر پڑھی جانی تھی۔ آپ نے خود اپنے دست مبارک سے لفظ سلطنت کو جو تقریر میں تین جگہ درج تھا، قلم زد کرکے اس کی جگہ مملکت لکھا اور مسودہ نقل کرنے کیلئے ڈپٹی سیکرٹری کو واپس کردیا۔ ٹھیک وقت پر ہم چکلالہ کے ہوائی اڈے پر اترے۔ وقت روزاول سے قضا و قدر کا تابع رہا ہے لیکن آج غیر معمولی طور پر ہر کام وقت پر ہورہا تھا۔
جانثار پرستاروں نے انہیں اپنے جھرمٹ میں لے لیا۔ ہر ملاقاتی پر اس کے مذاق کے مطاق دلچسپ فقرے چست کرتے رہے۔ سبھی خنداں و فرحان نظر آرہے تھے۔ سرکٹ ہائوس پہنچنے پر اسمٰعیل ٹیلر کو بلوایا گیا تاکہ ان دو سوٹوں میں جو اس کی فرم سے سلوائے گئے تھے، قطع و برید کرکے دور کرے۔ درزی فوراً آن پہنچا۔ اسے ہدایت کی گئی کہ سوٹ کراچی روانگی سے پہلے درست کرکے لے آئے۔ پھر نواب مشتاق احمد گورمانی کی آمد پر ان سے ڈرائنگ روم میں جاکر ملے۔ میں کمپنی باغ میں اس جلسے کے انتظامات دیکھنے چلا گیا جہاں انہیں شام کو خطاب کرنا تھا۔ اس منحوس جلسے کے انتظامات ڈپٹی کمشنر ہارڈی نے وزیراعظم کے حکم سے کئے تھے۔ یہاں یہ بھی ظاہر کردوں کہ مقامی حکام یا حکومت پاکستان کی طرف سے کسی نے بھی وزیراعظم کے اس دورے یا جلسے کی مخالفت نہیں کی اور نہ اسے ملتوی کرنے کے بارے میں کچھ کہا تھا۔
جلسہ گاہ سے واپسی پر میں ڈیڑھ بجے کے قریب ان کے کمرے میں رپورٹ دینے گیا تو دیکھا کہ وہ تنہا بیٹھے ہیں۔ انتظامات کی تفصیل بتا کر میں نے عرض کیا کہ جلد کھانا کھا کر آرام کیجئے۔ فرمایا۔ کھانا منگوا لیا ہےعجیب بات ہے کہ اس روز میں راولپنڈی پہنچنے کے بعد کچھ گم صم ہوگیا اور بالکل مشینی انداز میں کام کرنے لگا۔ بھوک پیاس بالکل غائب ہوگئی۔
قسم لے لیجئے جو دوپہر کو ایک لقمہ بھی کھایا ہو یا بستر پر ایک لمحے کیلئے آنکھ جھپکائی ہو۔ دل میں اضطراب بپا تھا اور انجانے اندیشے جنم لے رہے تھے جنہیں میں سمجھنے سے بالکل قاصر رہا۔ ضعیف الاعتقادی کی بات نہیں لیکن کیا 15؍اکتوبر کی کیفیت جو بڑی ہیبت ناک تھی اور دیر تک سرخ رہی اور جس نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کو یہاں تک پریشان کردیا کہ وہ اپنے شوہر کو پنڈی جانے سے باربار روکتی رہیں، کہیں غیر محسوس طور پر مجھے بھی متاثر تو نہیں کررہی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
کہتے ہیں کوئی بڑا سانحہ پیش آنے والا ہو تو انسانی دماغ میں نئے نئے اندیشے جنم لیتے ہیں اور چھٹی حس بیدار ہوکر ایک غیر مرئی طاقت کے اشاروں کا مفہوم سمجھنے لگتی ہے لیکن ہمارے وزیراعظم کی رفتار و گفتار سے کوئی ایسی بات ظاہر نہیں ہوئی۔ سرکٹ ہائوس سے ٹھیک تین بج کر سینتالیس منٹ پر روانگی ہوئی۔ کار کی پچھلی نشست پر کمشنر صاحب، وزیراعظم کے ساتھ بیٹھ گئے۔ میں اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھنے کیلئے بڑھا ہی تھا کہ فرمایا۔ آپ میرے پاس آکر بیٹھئے۔ حسب الحکم میں دونوں حضرات کے درمیان جا بیٹھا۔ کار چلی تو وزیراعظم نے سگریٹ سلگا لیا۔ راستے میں لوگ جوق درجوق کمپنی باغ کی طرف جاتے ہوئے ملے۔ جلسہ گاہ پہنچتے ہی آپ نے آداب مجلسی محفوظ رکھتے ہوئے تمباکو نوشی کا لامتناہی سلسلہ اس آخری سگریٹ کے ساتھ ختم کردیا۔
جلسہ گاہ کے دروازے پر کئی مقامی ممتاز شخصیتوں نے استقبال کیاہار پہنائے پھر آپ نیشنل گارڈز کی دو رویہ قطار کے درمیان، تلواروں اور نیزوں کے سائے میں ڈائس کی طرف خراماں خراماں چلے۔ لوگوں نے تالیوں کی گونج میں زندہ باد کے نعرے لگا کر اپنی بے پناہ عقیدت کا اظہار کیا۔ آپ ایک بڑی کرسی پر رونق افروز ہوئے۔ تلاوت کلام پاک سے جلسے کا آغاز ہوا۔ شیخ مسعود صادق چیئرمین بلدیہ راولپنڈی نے سپاس نامہ پڑھا۔ صدر مقامی مسلم لیگ محمد عمر صاحب نے اہالیان راولپنڈی کی طرف سے آپ کو خوش آمدید کہا اور یقین دلایا کہ پاکستان کی حفاظت و بقا نیز کشمیر کو آزاد کرانے کیلئے ہر طرح کی قربانی پیش کی جائے گی۔
پھر پاکستان کی تمنائوں اور آرزوئوں کا واحد سہارا، غریبوں مہاجروں کا اورآٹھ کروڑ مسلمانوں کا دلارا، قائداعظم کا دست راست اور صحیح جانشین، اتحاد، یقین محکم، تنظیم اور عزم کا مجسمہ اور صلح و آشتی کا علمبردار، نہایت وقار و متانت اور سکون و اطمینان کے ساتھ مائیک کی طرف بڑھا۔ تقریباً ایک لاکھ حاضرین نے تالیاں بجا کر اور لیاقت علی خان زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا کر مسرت کے پھول نچھاور کئے۔ مجمع ٹکٹکی باندھے خاموشی سے اپنے محبوب وزیراعظم کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ان کے لب ہلے اور برادران ملت کی اخوت انگیز شیریں آواز کانوں سے اچھی طرح ٹکرانے بھی نہ پائی تھی کہ یکے بعد دیگرے دو گولیوں نے سکوت شام اور ہمارا سکون پاش پاش کردیا۔
میں بے تابانہ ان کی طرف لپکا، دیکھا کہ جسم کے بائیں جانب کچھ جنبش سی ہوئی ۔میں نے تھامنے کی کوشش کی ،سر میرے سینے سے آلگا اور انہوں نے نہایت اطمینان اور بلند آواز سے کلمہ پڑھا۔ وہ گرتے جارہے تھے اور میں انہیں سنبھال رہا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے دوبارہ کلمہ طیبہ ادا کیا۔ میں اتنی دیر میں زمین پر بیٹھ گیا اور ان کا سر اپنے زانو پر رکھ لیا۔ جلسہ گاہ میں چاروں طرف سے اندھا دھند گولیاں چل رہی تھیں، لوگ جان بچانے کیلئے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے، کرسیوں اور صوفوں کے نیچے بھی جائے پناہ تلاش کررہے تھے۔
مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں کوئی گولی ان کا چہرہ زخمی نہ کردے چنانچہ میں نے اپنے دونوں بازو پھیلا کر انہیں ڈھانپ لیا لیکن ایک لمحے کیلئے بھی یہ خیال نہ آیا کہ میں خود زد میں ہوں بلکہ خواہش تھی تو یہ کہ میں نشانہ بن جاتا کہ خطرے سے بے نیاز جھک کر میں ان کا چہرہ تک رہا تھا کہ قائد ملت نے اپنی آنکھیں کھولیں اور میری طرف دیکھ کر فرمایا۔ مجھے گولی لگ گئی ہے۔ میں نے ڈھارس بندھائی۔ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ میرا یہ جملہ ختم نہ ہوا تھا کہ ڈوبتی آواز میں انہوں نے کہا ’’پاکستان کی خدا حفاظت کرے‘‘
یہ تھے آخری الفاظ اس شہید قوم کے جس کے دل و دماغ پر زندگی کے آخری لمحے میں بھی پاکستان چھایا ہوا تھا۔ اس وقت انہیں نہ اپنی بیگم کا خیال آیا، نہ معصوم بچوں کا! میں نے انہیں آرام پہنچانے کی خاطر شیروانی کے بٹن کھول دیئے اور ریشمی قمیض الٹ کر دیکھی تو بائیں طرف پسلیوں کے بیچ دو انچ قطر میں چنے برابر دو نشان اوپر نیچے ایک ہی سیدھ میں نظر آئے جن کے منہ پر خون چمک رہا تھا۔
طبی معائنے سے تصدیق ہوئی کہ پہلی گولی نے دل پاش پاش کردیا تھا اور دوسری اپنا رخ موڑ کرباہر نکل گئی۔ بتایا گیا کہ یہ اتنی خطرناک نہیں تھی۔ میں نے چلا کر پانی مانگا۔ راولپنڈی کے ایک ڈاکٹر چوہدری رفیق فوراًپانی لے کرآئے مگر صرف چند قطرے حلق میں اتر سکے باقی منہ کے دونوں طرف سے بہہ نکلا۔ اسی وقت میرے دکھی دل نے محسوس کرلیا کہ پاکستان کا درخشندہ ستارہ ڈوب گیا۔ ان کی بڑی بڑی نیم وا آنکھوں نے بھی بتا دیا کہ مسافر عدم کو سدھار گیا۔
ہم وزیراعظم کا نیم مردہ جسم ہاتھوں پر اٹھا کر کمبائنڈ ملٹری اسپتال لے جانے کیلئے جلسہ گاہ سے نکل رہے تھے کہ ایک کار آکر رکی اس میں سے نواب صاحب گورمانی باہرآئے۔ سواری تو آسانی سے میسر آگئی۔ نواب صاحب ڈرائیور کے پاس بیٹھ گئے۔ جنبش لب سے معلوم ہوتا تھا وہ کچھ ورد کررہے ہیں۔ میں نے کار کی پچھلی نشست میں اس قیمتی قومی سرمائے کو اپنے زانو پر رکھ لیا اور پروفیسر ملک عنایت اللہ وزیراعظم کے پیر تھام کر بیٹھ گئے۔ اسپتال کے صدر دروازے کے باہر کچھ فاصلے سے ایک موڑ پر میں نے کرنل سرور کو مخالف سمت موٹرسائیکل پر بہت تیز جاتے ہوئے دیکھ کر اشارہ کیا۔ اسپتال میں جیسے ہی ہماری کار رکی، وہ بھی پہنچ گئے اور ۔ وزیراعظم کو اسٹریچر پر ڈال کر آپریشن تھیٹر لے گئے تو صرف میں اور گورمانی صاحب ان کے ساتھ تھے۔
کرنل میاں نے فوراً اپنے دونوں ہاتھوں سے دل کی بہت مالش کی، جسم کو خوب ہلایا جلایا، پیر کی ایک رگ کاٹ کر تازہ خون جسم کے اندر پہنچانے کی بھی کوشش کی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آخر کرنل میاں نے اعلان کیا کہ وزیراعظم کی روح ان کے جسم کی رفاقت چھوڑ گئی ہے۔ یہ خبر سنتے ہی نواب گورمانی مجھے دلاسا دے کر فوراً اپنے دولت کدے چلے گئے۔ کرنل میاں نے جب اپنے جذبات پر پوری طرح قابو پا لیا تو دوسرے کمرے میں جہاں میں وزیراعظم کی روش کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تشریف لائے۔ مجھے پرسا دیا اور میت کو غسل دینے کی اجازت مانگی۔
میں اس وقت تنہا اور غم سے نڈھال تھا۔ عرض کیا بزرگوں کا قول ہے کہ شہید کو غسل میت اور کفن کی حاجت نہیں ہوتی لیکن بہتر یہ ہوگا کہ نواب گورمانی سے مشورہ کرلیا جائے۔ نواب صاحب کو ٹیلیفون کیا تو جواب ملا کہ انہیں اطلاع نہیں دی جاسکتی، وہ کانفرنس میں مصروف ہیں۔ دوبارہ میرے اصرار پر ٹیلیفون کیا گیا پھر وہی جواب آیا۔ کمرے میں کوئی نہیں جاسکتا، وہ غلام محمد صاحب کے ساتھ میٹنگ میں ہیں، بالآخر کرنل میاں صاحب نے فرمایا کہ میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن غسل دینا ضروری ہے کیونکہ جسم میں خون ٹھاٹھس بھرا ہوا ہے۔ ہم اسے نکال لیں گے تاکہ لاش خراب نہ ہونے پائے۔ چنانچہ شہید قوم کو غسل دیا گیا۔ اسپتال کے مریضٗ فوجیوں کی خواہش پر نو بجے کے قریب نماز جنازہ ادا کی گئی۔ اس کے بعداپنے اکابرین کی آمد کا گیارہ بجے رات تک انتظار کرتا رہا۔ وہ تشریف لائے تو ہم طیران گاہ روانہ ہوئے۔
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
ملک میں اک چراغ تھا نہ رہا
وزیراعظم کی شیروانی کی بائیں جیب سے جو دل کے قریب تھی، اس میں چھوٹی حمائل شریف سبز کپڑے میں سلی ہوئی تھی جس سے ان کا خدا پر توکل اور اسلام سے محبت ظاہر ہوتی ہے۔ ہم نے جب کبھی حفاظتی تدابیر کی بات کی، انہوں نے صاف صاف کہا کہ موت کی گھڑی اٹل ہے، جب وہ آئے گی تو کوئی نہ بچا سکے گا۔
وزیراعظم نے ایک مہاجر کی زندگی بسر کی اور کوئی اثاثہ چھوڑ کر نہ گئے۔ ان کا بینک بیلنس کچھ بھی نہ تھا۔ اس نیک، راست باز، انصاف پسند اور مخلص قائد کا دامن بے داغ رہا اور وہ دنیاوی اعتبار سے خالی ہاتھ ہی دنیا سے گیا۔
17؍اکتوبر کو وزیراعظم کے آخری دیدار کیلئے ہزاروں لوگ آتے جاتے رہے اور وقت تیزی سے گزرتا رہا ، کراچی میں اکتوبر کی گرمی تھی کہ الاماں، گولیوں کے زخم جسم کے اندر متواتر رس رہے تھے اور کچھ خون ناک کی راہ سے بہہ رہا تھا۔ عطر پاشی وقفے وقفے سے برابر کی جارہی تھی۔ ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک بجے کے قریب لاش منتقل کردی گئی اور کئی من برف کی سلیں نیچے اور آس پاس رکھ کر برقی پنکھے پوری رفتار سے کھول دیئے گئے۔ مشکل یہ تھی کہ کانفرنس جاری تھی اور کابینہ کے جاں نثار اور گورنر جنرل کے بغیر میت اٹھائی نہ جاسکتی تھی۔
آخرکار نواب زادہ صاحب کے خاص اور قریبی دوست کرنل جعفر نے جو صبح ہی سے لاش کے پاس بیٹھے تھے، بحیثیت ڈاکٹر تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد گورنمنٹ ہائوس میں آخری پیغام بھجوایا کہ اگر آپ لوگ فوراً نہیں آسکتے تو ہم میت کو لے کر روانہ ہوجائیں گے۔ اس کا اثر ہوا، بالآخر شہید ملت کا آخری جلوس ان کی آخری آرام گاہ کی طرف روانہ ہوا۔ شدت اندوہ سے لوگوں کے دماغ مائوف ہوگئے تھے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہوا مگر جب غم ذرا ہلکا ہوا اور سوچنے کی فرصت ملی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ شہید ملت کسی گہری سازش کے تحت قتل کئے گئے ہیں۔