• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی وانتخابی بساط، شطرنج کی بساط ہی کی طرح گرم و تیز ہے لیکن انتخابی بساط پرکھیل زوروں پر ہونے کے باوصف بڑے تجزیہ نگاروں کے ہاں بھی یہ بساط دھندلا پن لئے ہوئے ہے۔ مائنس ون اور ٹو کے تجزئیے زیر بحث آنے سے آسمانِ سیاست پر مطلع صاف دکھائی نہیں دیتا، پھر بھی ایک بات جہاں یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور عمران خان کو عوام میں مقبولیت حاصل ہے، وہاں یہ امر بھی واضح ہو چکا ہے کہ عمران خان نے اپنی جماعت کو ہجوم سے نظریاتی جماعت بنانے کا نادر موقع کھو دیا ہے البتہ میاں صاحب کی بدولت ن لیگ آج ایک نظریاتی جماعت کے طور پر جانی جاتی ہے۔ دو اہم باتیں یہ ہیں کہ جب عمران خان کی جماعت پر ابتلا کا وقت آیا تو اس جماعت کے تارے جبرتلے نکھرنے کی بجائے ایسے بکھر گئے کہ پرانے ہندوستانی گیت کے بقول ’’اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے، کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا۔‘‘ جب کہ ن لیگ نے آزمائش کا دور استقامت سے گزارا، اور ہر عہدیدار مانند جبل کھڑا رہا۔ ہم نے ان سطور میں ایک مرتبہ مذہبی راہب اگوستین کا کہنا قلم بند کیا تھا، کہ ’’اصل تعجب طاقت اور حُسن میں نہیں، اُس استعداد میں ہے جو انسان کو کائنات کے تمام چرند پرند اور حیوانات میں ممتاز و اہم اور منفرد مقام و مرتبہ کا حامل بناتی ہے۔ اس استعداد کا نام’ فکر‘ ہے‘‘۔ مذہبی راہب اپنے مشاہدے میں کہتے ہیں کہ انسان آسمان کے کناروں، بہتے دریائوں اور بے سکوت وبے سکون سمندروں کو تو حیرت و استعجاب سے دیکھ رہا ہے، مگر ان سب سے زیادہ وہ خود لائق توجہ وتعجب مخلوق ہے۔ اس انسان کی حیرانی فقط اس کے اُٹھنے بیٹھنے نشست و برخاست میں نہیں اور نہ ہی اس کی قوتِ بازو، حُسن وجمال اور جلال میں مضمر و پو شیدہ ہے، کیونکہ یہ خواص یعنی حُسن و قوت پرند چرند اور حیوانات انسان سے زیادہ رکھتے ہیں۔ یہ انسان سے بھی زیادہ زور آور ہونے کے ساتھ حسین و جمیل بھی ہیں۔ مگر اصل قوت یہ خواص نہیں، وہ قوت ہے جو دیگر مخلوقات میں مفقود اور انسان اس کالا جواب گنجینہ رکھتا ہے اور وہ ہے فکر جس نےانسان کو تمام مخلوقات میں ارفع مقام پر فائز کر رکھا ہے، اسی کی بنیاد پر اس انسانی زندگی وعمل کی بنیاد استوار ہوتی ہے۔ اب انسان کو ممتاز بنانے والے فکر یعنی نظریہ کی اساس پر آپ پی ٹی آئی رہنمائوں کے نظریہ کا جائرہ لیں۔ کیا اس سے بھی زیادہ جبر کی داستانیں دیگر جماعتوں کی تاریخ میں محفوظ نہیں، اور شاذ و نادر ہی ایسی مثالیں ہونگی کہ ان جماعتوں کے رہنمااس شرمناک طریقے پر نو دو گیارہ ہو گئے ہوں، جس طرح پی ٹی آئی والے ہو گئے!!

خیر جہاں تک میاں صاحب کی راہ میں پھول یا کانٹوں کی بات ہے تو اس حوالے سے نامور تجزیہ نگار انصار عباسی کا کہنا ہے کہ نون لیگ اب بھی یہی سمجھتی ہے لیکن سپریم کورٹ کے ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘‘ کے متعلق تازہ ترین فیصلے کی وجہ سے نواز شریف کے الزامات کلیئر ہونے کے امکانات کم ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اگرچہ اس ایکٹ کو برقرار رکھا ہے لیکن عدالت نے سیکشن 5 کے ذیلی دفعہ (2) کی توثیق نہیں کی، جس میں اپیل کا حق دیا گیا تھا۔ مذکورہ ذیلی دفعہ کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔ ریٹرو اسپیکٹو اپیل کا حق ختم ہونے کے نتیجے میں نواز شریف اپنی تاحیات نا اہلی کیخلاف اپیل دائر نہیں کر پائیں گے۔ سیکشن 5 کے ذیلی سیکشن (2) کو عدالت عظمیٰ کی طرف سے ختم کیے جانے کے بعد نون لیگ اب ایک اور ’’الیکشن ایکٹ 2017‘‘ پر انحصار کر رہی ہے، اس قانون میں پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران ترمیم کی گئی تھی۔ نون لیگ اس بات پر اصرار کرے گی کہ نواز شریف کی تاحیات نا اہلی اب غیر متعلقہ ہو چکی ہے۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 232؍ میں ترمیم کی گئی تھی اور اس میں نا اہلی کا عرصہ پانچ سال مقرر کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔ آئین میں سزا کی مدت متعین نہ ہونے پر رکن پارلیمنٹ کی نااہلی پانچ سال کیلئے تصور کی جائے گی۔ مزید برآں ایک اور پٹیشن سے بھی توقعات وابستہ رکھی گئی ہیں۔ مستقبل کے رُخِ تاباں سے کون بوسہ زن ہو گا، اس سے قطع نظر از بس کہنا یہ ہےکہ میاں صاحب سمیت تمام سیاستدانوں کو انتخابات میں آزادانہ طور پر حصہ لینے کی آزادی ملنی چاہئے، پاکستان میاں صاحب کا وطن ہے، خدانہ کرے کہ وہ آئیں تو بقول حضرت منیر نیازی اُنہیں یہ کہنا پڑ جائے۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

تازہ ترین