چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے بحریہ ٹاؤن کراچی عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران عمل درآمد بینچز بنانے پر سوالات اٹھا دیے۔
سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کراچی عمل درآمد کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے آغاز میں بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ اقساط جمع کرانے میں سال کی رعایت دینے کی درخواست 2021ء میں دائر کی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ڈھائی سال سے درخواست مقرر کیوں نہیں ہوئی؟ کیا بحریہ ٹاؤن کی مقدمے میں دلچسپی ختم ہو گئی تھی؟ کیا کوئی جلد سماعت کی متفرق درخواست دائر کی تھی؟
بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے جواب دیا کہ جلد سماعت کی کوئی درخواست دائر نہیں کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا آپ تاخیر سے درخواست مقرر ہونے پر کارروائی کرنا چاہتے ہیں؟ آپ متعلقہ آفس پر الزام لگائیں ہم تحقیقات کریں گے۔
وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ مقدمات عدالت خود مقرر کرتی ہے، وکیل کا کوئی کردار نہیں ہوتا، مقدمات مقرر کرنا عدالت کا اندرونی معاملہ ہے کسی پر الزام نہیں لگانا چاہتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حیرت ہے آپ کارروائی ہی نہیں چاہتے۔
وکیل نے کہا کہ کسی پر الزام نہیں لگا سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، کیس مقرر نہ ہونے پر اپنے طور پر اندرونی کارروائی کریں گے۔
وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ قانونی طور پر بحریہ ٹاؤن کو 16896 ایکڑ زمین الاٹ ہونی تھی لیکن صرف 11 ہزار ایکڑ الاٹ ہوئی، بحریہ ٹاؤن کیس کے فیصلے کی تعمیل کے لیے عمل درآمد بینچ بنایا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ قانون میں عمل درآمد بینچ کا کوئی تصور ہے؟
وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ قانون میں عمل درآمد بینچ بنانے کا کوئی تصور نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ فاروق نائیک صاحب، بتائیں کیا سپریم کورٹ کے اپنے ہی فیصلے پر عملدرآمد بینچ بنایا جاسکتا ہے؟
وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ عملدرآمد بینچ کا کوئی قانونی جواز یا حوالہ نہیں ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے ججز ساتھی ججز کو اپنے ہی فیصلے پر عملدرآمد کرانے کا حکم دے سکتے ہیں؟ کیا عملدرآمد بینچ فیصلے پر عمل نہ کرا سکے تو ساتھی ججز کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی ہو گی؟ کیا سپریم کورٹ کا ایک بینچ دوسرے کو حکم دے سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل صاحب آپ بتائیں کیا عمل درآمد بینچز بنائے جا سکتے ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے عدالت کو بتایا کہ عمل درآمد بینچز کا تصور بھارتی پریکٹس سے اخذ کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حوالے نہ دیں پاکستان کا بتائیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کئی بار عملدرآمد بینچز بنتے رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے عامر رحمٰن سے پوچھا کہ آپ تو ہر حکومت کے دور میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل رہے ہیں، آپ اپنے تجربے سے بتائیں کب کب عمل درآمد بینچز بنتے رہے ہیں، جو بینچ حکم دیتا ہے وہی اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کرا سکتا؟
وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ عمل درآمد بینچ کا اراضی کی قیمت کا تعین کرنا غیرآئینی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کے سامنے آپ کی نظرِثانی اپیل نہیں ہے، عمل درآمد بینچ نے آپ کی رضامندی سے آرڈر پاس کیا۔
وکیل نے کہا کہ ایم ڈی اے نے کل اراضی میں سے 5 ہزار ایکڑ زمین دینے سے انکار کر دیا ہے، اتھارٹی کہتی ہے پبلک کی زمین بحریہ ٹاؤن کو نہیں دی جا سکتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ یہ بتائیں کس اختیار کے تحت یہ عدالت بیٹھی ہے؟
وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 184 تین میں کیس سن رہی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی متفرق درخواست کو سنا جا رہا ہے، زمین دستیاب ہے یا نہیں ہمیں نہیں معلوم۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کا مؤقف ہونا چاہیے کہ عدالتی فیصلے پر عمل کرائیں، عدالت کا بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے رقم کے تعین کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے، کیا آپ عدالت سے چاہتے ہیں کہ زمین نہ دینے پر توہینِ عدالت کی کارروائی کرے؟
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 8 نومبر تک ملتوی کر دی۔