گزشتہ چند دنوں سے عالمی میڈیا پر فلسطین کاایشو بھرپور انداز میں چھایا ہوا ہے، فلسطینی علاقے غزہ کے باسیوں پر طاقت کے بہیمانہ استعمال نے ہر دردمند انسان کو خون کے آنسو رُلا دیا ہے، تاہم سوشل میڈیا پر ایسی تمام قیاس آرائیا ںدم توڑ چکی ہیں کہ نائن الیون کی طرح اسرائیل نے ازخود حملے کا موقع فراہم کیا تھا تاکہ عالمی برادری کی ہمدردیاں سمیٹی جاسکیں اور پھرانتقامی کارروائی کی آڑ میں طاقت کو استعمال کرے۔وقت نے ثابت کیا ہے کہ اسرائیل کا مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصارانٹیلی جنس ناکامی کا باعث بنا، تاہم حماس کی طرف سے غزہ جیسے پسماندہ ترین علاقے سے کامیاب حملے کی صلاحیت کے پس پردہ عوامل پر تاحال پراسراریت کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں غزہ میںجنگ بندی کیلئے روس کی جانب سے پیش کردہ قرارداد امریکہ نے مسترد کردی ہے تو دوسری طرف اسرائیل نے پوری قوت کے ساتھ فلسطین کی سرزمین پر وسیع پیمانے پر حملہ کرنے کیلئے فلسطینیوں کو علاقہ خالی کرنے کا الٹی میٹم دے دیا ہے اور امریکی صدر جوبائیڈن اسرائیل کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کیلئے سرکاری دورہ کرنا چاہتے ہیں ۔میں گزشتہ چندسالوں سے تیزی سے بڑھتے ہوئے عالمی تنازعات کے تناظر میں اپنے کالموں میں اس خدشے کا اظہار متعدد مرتبہ کر چکا ہوں کہ آج اکیسویں صدی میںعالمی منظرنامے پر ایک مرتبہ پھر بلاکس کی سیاست کی جارہی ہے جسکی بنا پر دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکی ہے جبکہ گزشتہ صدی کی دونوں بڑی جنگوں نے انسانیت کو جو گھاؤ لگائے، اسکا درست تخمینہ آج بھی نہیں لگایا جاسکا ہے۔آج مشرق وسطیٰ کی بگڑتی صورتحال سے میری یہ پیشگوئی صحیح ثابت ہو رہی ہے کہ عالمی برادری اس وقت اپنے مفادات کے حصول کیلئے دو حصوں میں بٹ چکی ہے ، عمومی طور پرافریقی ممالک کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ وہ فلسطین کے عوام کے ساتھ دیرینہ ہمدردیاں رکھتے ہیں، تاہم حالیہ تنازع کے بعدیہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ افریقی ممالک بھی تقسیم ہوچکے ہیں،میڈیا رپورٹس کے مطابق کینیا، کانگو اور گھانا نے اسرائیل کی حمایت میں بیانات داغے ہیں جبکہ جنوبی افریقہ اور الجیریا نے اسرائیلی مظالم کو حالیہ تصادم کی وجہ قرار دیا ہے، افریقی یونین نے فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے اور دو ریاستی حل کی اہمیت اجاگر کی ہے۔حالیہ فلسطینی تصادم سے پہلے سابقہ سپرپاور روس یوکرائن کے ساتھ جنگ میں مصروف تھا جبکہ دوسری عالمی اقتصادی قوت چین کو تائیوان کے معاملے میںاُلجھایا جارہا تھا، تاہم غزہ تنازع کے بعد دونوں ممالک نے اسرائیل کے حوالے سے سخت موقف اپنایا ہے، چین نے چارنکاتی ترجیحات میں فوری طور پر جنگ بندی، عالمی انسانی حقوق قوانین کی پاسداری ، متعلقہ ممالک کی جانب سے صبروتحمل کا مظاہرہ اور اقوام متحدہ سے فلسطین ایشو کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو شامل کیا ہے۔ بھارت کو روایتی طور پر فلسطینیوں کا حامی سمجھا جاتا ہے، ایک دور تھا جب فلسطینی صدر یاسر عرفات بھارت کو اپنا دوسرا گھر سمجھا کرتے تھے لیکن اب مودی سرکار نے اپنے آپ کوفلسطینیوں سے بہت دور اورا سرائیل کے قریب کرلیا ہے،تاہم سرکاری موقف کو ردکرتے ہوئے بھارتی عوام فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیلئے مظاہرے کررہے ہیں۔ یہی صورتحال دیگرممالک میں بھی دیکھنے میں آ رہی ہے بلکہ کئی جگہوں پر تو عوام اور حکومتیں آمنے سامنے آچکےہیں، کچھ ممالک میں حکومتیں سرکاری سطح پر اسرائیل کو سپورٹ کر رہی ہیں لیکن ان ممالک کے عوام اور انسانی حقوق کی تنظیمیں غزہ کے باسیوں کے حقوق کی پامالی کیلئے آواز اٹھا رہی ہیں۔ اسی طرح اگر مسلمان اکثریتی ممالک کی طرف دیکھا جائے تو پہلے جو ممالک کھلم کھلا فلسطین کا ساتھ دیتے تھے لیکن اب انہی مسلمان ممالک میں بھی ایسی آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ حماس کی طرف سے اسرائیل کو نشانہ بنانا کوئی دانشمندانہ اقدام نہیں تھا بلکہ اس حملے نے اسرائیل کو یہ جواز فراہم کیا ہے کہ وہ اب غزہ کے خلاف طاقت کا بہیمانہ استعمال کرے ۔کچھ عرصہ قبل کئی مسلمان ممالک بشمول متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی، تجارتی اور اقتصادی روابط قائم کیے ہیں ، غزہ تصادم سے قبل ایسی خبریں بھی گردش میں تھیں کہ سعودی عرب بھی عنقریب اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والا ہے،یہی وجہ ہے کہ عالمی میڈیا نے سعودی عرب کی طرف سے غزہ حملے کے بعد او آئی سی کے بلائے گئے ہنگامی اجلاس کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ ماضی کے برعکس اب او آئی سی اس پوزیشن میں آگئی ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین تنازع کے دیرپا حل کیلئے ایک پُل کا کردار ادا کرے، جن مسلمان ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں، انکا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ جنگ بندی کیلئے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ثابت کریں کہ انہوں نے اگر اسرائیل کو تسلیم کیا ہے تو یہ خطے میں قیام ِ امن اور فلسطین کاز کو تقویت پہنچانے کے لیے کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ اقوام متحدہ کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ دنیا میںجاری متعدد تنازعات کے باوجود کسی حد تک دنیا کو تیسری عالمی جنگ سے روکا ہوا ہے لیکن اب میری نظر میں جنگ بندی کی قرار دادوں کا یوں مسترد ہو جانا باعث تشویش ہے ، اقوام متحدہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر فلسطین کے جنگ زدہ علاقوں میں امن قائم کرے بصورت دیگر غزہ کا تصادم اگر مزید بڑھ گیا توتیسری جنگ عظیم کی صورت میں ایک ہولناک تباہی ہو گی جسکی لپیٹ میں پوری دنیا کے آجانے کا سنگین خدشہ ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)