• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطین جل رہا ہے۔ صہیونی بربریت کے نتیجے میں فلسطینی مسلمانوں کا قتلِ عام جاری ہے۔ ہر طرف معصوم، بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں کا خون، جسموں کے ٹکڑے، تباہی و بربادی اور بارود کی بو ہے۔ امریکہ اور دیگر کئی مغربی ممالک قاتل اسرائیل کے سہولت کار ہیں۔ وہ نہ صرف اسرائیل کو تھپکی دے رہے ہیں بلکہ ہر قسم کی مدد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ امریکہ نے اسرائیل کی طرف سے غزہ اور دیگر فلسطینی شہروں پر حملے بند کرنے کی قرارداد جو برازیل نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل اجلاس میں پیش کی تھی ویٹو کر دی۔ اس سے پہلے بھی روس اور برازیل کی طرف سے پیش کی جانے والی قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ گزشتہ دنوں میں دو بار اسرائیل کا دورہ اور اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے لئے تل ابیب جاچکے ہیں۔ امریکی جنگی سازوسامان کی بطور امداداسرائیل کو ترسیل جاری ہے۔ امریکی، برطانوی اور بعض دیگر مغربی ممالک کی حمایت اور پشت پناہی سے اسرائیل کھلے عام نہتے اور بے یار و مددگار فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ گزشتہ روز صہیونیوں نے غزہ کے واحد اسپتال پر بھی بمباری کرکے پانچ سو کے قریب مریضوں، زخمیوں، معصوم فلسطینی بچوں اور خواتین کو شہید کیا۔ جس کے دوسرے دن امریکی صدر جوبائیڈن اسرائیل پہنچ گئے اور صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کرکے نہ صرف شاباش دی بلکہ ہر طرح کی مدد و حمایت کی تسلی بھی دی۔

ادھر سعودی عرب کی دعوت پر او آئی سی جو مسلم ممالک کی نام نہاد آرگنائزیشن ہے کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کی ’’شدید مذمت‘‘ کی گئی۔ یہ بہت بڑا کام ہوا کیونکہ مسلمان ملکوں کی طرف سے جاری مذمتی بیانات اور او آئی سی کی مذمتی قرارداد سے نہ صرف فلسطینیوں کو ’’بڑی مدد ملی بلکہ اسرائیل نے فوراً غزہ پر جاری حملے بھی بند کر دیئے اور وہاں مکمل امن قائم ہوا واہ جی واہ۔ کیا بات ہے مسلمان ملکوں کی۔ ‘‘یہ بھی معلوم نہیں کہ خطہ عرب میں موجود اسلامی افواج کا کیا مقصد ہے۔ امریکی صدر نے گزشتہ روز دورہ اسرائیل کے موقع پر غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بمباری کو حماس کی ہی غلطی قرار دیا لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کی کہ دوسرے ممالک اور جہادی تنظیمیں فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف کسی بھی اقدام سے باز رہیں۔ یہ ایک کھلی دھمکی اور صہیونیوں کی کھلی حمایت ہے۔ کسی کو اور کیا ثبوت چاہئے۔ حالانکہ امریکی صدر کو ایسی دھمکی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اسلامی ممالک تو اسرائیلی بربریت پر ویسے بھی بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں۔ اسرائیلی حملوں کی شروعات میں اگر کسی اسلامی ملک نے تیز و تند بیانات دیئے بھی تھے وہ بھی خاموش ہے۔ اس تمام صورتحال کے باوجود دنیا بھر کے علماء کرام بھی خاموش ہیں، سوائے مظاہروں ،جن میں چند سو افراد کتبے اٹھائے اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگا کر اپنے گھروں کو لوٹ کر جانے کے اور کوئی کردار نہیںہے۔ پاکستان میں اس طرح کے مظاہرے کرکے یعنی انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کا رجحان اور رواج عام ہے۔ ترکیہ کے شہر استنبول اور اردن میں اسرائیلی سفارت خانوں پر دھاوا بولنے اور امریکی سفارت خانوں کے سامنے شدید مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اردن کے بادشاہ نے اور فلسطینی وزیراعظم نے گزشتہ روز اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے امریکی صدر سے ملاقات سے انکار کیا۔ جو بڑی بات ہے کیونکہ شیڈول میں شامل ان ملاقاتوں سے انکار سے امریکہ کی بڑی سبکی ہوئی۔ کولمبیا کی حکومت نے اسرائیلی سفیر کو ملک سے نکل جانے کا کہا ہے۔ مغربی ممالک میں مسلمان مظاہرے کر رہے ہیں۔ کئی مظاہرین کو وہاں کی پولیس نے گرفتار بھی کیا ہے لیکن اسرائیل مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ذرائع کے مطابق اسرائیل میں صہیونی وزیراعظم کی مخالفت کی جارہی ہے اور وہاں بڑی بے چینی اور خوف کا عالم طاری ہے۔

اسرائیل ،حزب اللہ کے خلاف لبنان پر بھی بڑے حملوں کی تیاری کر رہا ہے۔ سعودی عرب سمیت کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو لبنان سے فوری نکل جانے کی ہدایت کی ہے۔ اسرائیل نے اردن کی سرحد سے ملحقہ آباد اسرائیلیوں کو وہاں سے نکل جانے کا کہا ہے۔ ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ اسرائیل سے اردن پر حملوں کا بھی خطرہ ہے۔ مصر کی مسلمان حکومت نے گزشتہ روز فلسطین سے چھ سو امریکیوں کے نکلنے کے لئے چند گھنٹے اپنی سرحد کو کھول دیا لیکن امریکیوں کو محفوظ راستہ دینے کے فوراً بعد دوبارہ بند کردیا۔ اس کے باوجود کہ وہاں ہزاروں ٹرک فلسطینیوں کیلئے امدادی سامان لے کر مصر فلسطین سرحد کھلنے کیلئے کئی دنوں سے انتظار میں کھڑے ہیں۔ تو جناب یہ ہیں اسلامی ممالک اور ان کا جذبہ ایمانی۔ اب دو صورتیں نظر آرہی ہیں ایک یہ کہ اسرائیل یا تو فلسطینیوں کو شہید کرتے کرتے ان کا نام و نشان مٹا دےگا اور اس کے بعد دوسرے ’’مسلمان‘‘ ملکوں کی باری آئے گی۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فلسطین اسرائیل کے ناپاک جسم سے آزاد اور پاک ہو جائے گا۔ دوسری صورت کی امید نظر نہیں آتی کیونکہ اب مسلمانوں میں کوئی صلاح الدین ایوبی نہیں ہے البتہ بچے کچھے فلسطینی اسرائیلی غلام بن سکتے ہیں۔ تیسری جنگ عظیم کا بھی وہاں سے شروع ہونے کا امکان نہیں ہے کیونکہ اسرائیل اور امریکہ وغیرہ کا مخالف کوئی ملک ہے ہی نہیں ہے، سب دوست ہیں۔

تازہ ترین