ظاہر ہے1973کے آئین کا آغاز آرٹیکل نمبر 1 سے ہی ہوتا ہے۔ اسی آرٹیکل کے ضمن اول میں ملک کو وفاقی ری پبلک قرار دیا گیا ہے جس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علاقے بیان کئے گئے اور وفاق کے زیرِ اہتمام قبائلی علاقہ جات کو پاکستان کا تیسرا اہم حصہ بنایاگیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج فاٹا کے علاقے قومی ترجیحات کے ایجنڈے پر کہاں ہیں...؟
پاکستان میں رائج طرز حکمرانی تقریباً ایسٹ انڈیا کمپنی سے ملتا جلتا ہے۔ گورننس کا یہ اسٹائل اہم کاروباری مراکز، ضروری بندرگاہوں، معیشت کی رسدگاہوں کے علاوہ اور کسی بھی شہر، نگری یا عام آدمی پر نظر ڈالنا اپنی شان کی توہین سمجھتا تھا۔ فرنگی کے دور کا گورا صاحب تو چلا گیا مگر جاتے جاتے اُس کی بدروحیں ابھی تک ہمارے اختیار کے مراکز اور اقتدار کی غلام گردشوں میں بھٹک رہی ہیں۔ گورے صاحب کی جگہ آنے والے کالے صاحب ڈبل کالے ہیں کیونکہ گورا صاحب تو صرف اندر سے کالا تھا جبکہ اُسے اپنی کالک چھپانے کے لئے قدرت نے گورے رنگ کا ہتھیار دے رکھا تھا۔ آج پاکستان کے موجودہ نظام ریاست پر ہر طرف سے بے عملی اور بدعملی کے ڈونگرے برس رہے ہیں۔ میں خود اس نظام سے قطعی طور پر متفق نہیں ہوں۔ اس کے باوجود چاہتا ہوں کہ ملک آئین کے تحت چلے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کیا جمہوریت، جمہوریت، جمہوریت کا وظیفہ دہرانے سے پاکستان کے عوام اس نظام سے فیضیاب ہو سکتے ہیں...؟ اور کیا 122 خاندانوں اور 2000 پارلیمانی VIP خواتین و حضرات کے مفادات کا تحفظ کرنے یا ان کی خدمات کی ڈیوٹی دینے والے نیٹ ورک کو جمہوریت کہا جا سکتا ہے ...؟ اس کا جواب ہے نہیں ،نہیں، بلکہ بالکل نہیں اور ہرگز نہیں۔ اس نظام کو جانچنے کے لئے فاٹا میں بسنے والا پاکستان ایک بہترین ٹیسٹ کیس ہے۔ آئیے اس پر ایک سنجیدہ نظر ڈالیں۔
قبائلی علاقے آئینی طور پر وفاق کے ماتحت ہیں۔ کے پی کے کا صوبہ نہ فاٹا کا ذمہ دار ہے اور نہ ہی فاٹا کا کنٹرول اس کے پاس ہے۔ آئین کے مطابق فاٹا وزیرِاعظم کی ایڈوائس پر صدرِ پاکستان کے احکام کے ماتحت ہے۔ وہ صدرِ پاکستان کا عہدہ جس پر بیٹھنے والے یہ ہمت بھی نہیں کر سکتے کہ وہ قبائلی علاقے کی رعایا کے پاس جا سکیں۔ میں وفاقی کابینہ کے رُکن کی حیثیت سے اس دردناک اور شرمناک حقیقت کا گواہ ہوں کہ جب بھی فاٹا کے علاقوں کو صوبے کا درجہ دینے یا اُسے گلگت بلتستان کی طرز پر self rule کی حکومت قائم کرنے کی طرف چلایا گیا تو اُس کی سب سے زیادہ مخالفت اُن مفاد پرست درباری گروہوں نے کی جو فاٹا نہیں جا سکتے ۔مگر اسلام آباد کی بیورو کریسی فاٹا کے نام پر سودے بازی اور بندر بانٹ ان کے ساتھ مِل کر ہی کرتی آئی ہے۔ اسی لئے قبائلی علاقہ جات کو سیاسی جماعتوں کے ایکٹ کے دائرے میں لانے کے لئے اتنے عشرے ضائع ہو گئے۔ جس دوران فاٹا میں نہ کوئی حکومت، نہ کوئی ریلیف، نہ کوئی سرکار اور نہ ہی کوئی سرکاری ادارے یا پھر ریاستی رِٹ کا ڈھانچہ بن سکا۔
میرے نزدیک ریاستی رِٹ پولیس، ملیشیا، پہریدار یا چوکیدار بھرتی کرنے سے شروع نہیں ہوتی۔ ماڈرن ریاستوں کی تاریخ گواہ ہے، ریاست کی اصل طاقت اُس کے ادارے ہوتے ہیں جن کا کام اپنے عوام کی دن رات خدمت کرنا اور عوام کی سہولت اور آسانیوں کے لئے منصوبہ بندی کرنا ہے اور قانون کی قوتِ نافذہ اِن ریاستی اداروں کے ذریعے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کا فرض ادا کرتی ہے۔ فاٹا کا اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ وہاں نہ تو کوئی گورنر ہے، نہ کوئی وزیرِ اعلیٰ ، نہ کوئی علاقائی قانون ساز اسمبلی اور نہ ہی مقامی حکومتوں کے ادارے، اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ فاٹا میں ریاست کے انتظامی اداروں کے خلاء کو طاقتور گروپوں نے پُر کرکے مقامی حکومتوں کا متوازی نظام قائم کر لیا ہے۔ ان زمینی حقائق کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی فاٹا کے غریب نادار اور سیاسی طور پر لاچار عوام نے اس متوازی نظام ِ ریاست کو اپنا مقدر سمجھنا شروع کر دیا ہے پھر یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جب متوازی نظام بن جائے بلکہ بزورِ بازو نافذ بھی ہو جائے تو پھر ایسا انتظام ایک متوازی معیشت کو بھی جنم دیتا ہے۔ اب فاٹاکی متوازی معیشت پروان چڑھ چکی۔ کسی بھی غیر ریاستی متوازی نظام کو گرانے کے لئے ریاست کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی بچتا ہے اور وہ یہ کہ ریاست علاقے کے عوام کی خدمت ، حفاظت اور سہولت کے لئے فوری طور پر ایسے ادارے تشکیل دے جن کے وسائل عوام کے پاس ہوں۔ اس طرح عوام اُسے اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل سمجھ کر اداروں کو قائم رکھنے کے لئے اکٹھے کھڑے ہو جائیں۔
جس رعایا کا آئینی سربراہ اور جس علاقے کا گورنر اپنے اختیار و اقتدار والے ایریا میں جانے کے لئے تیار تک نہ ہو وہاں ریاست کی رِٹ قائم اور بحال ہو گی یا عوام کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ اس سوال کا جواب دیوار پر لکھا ہے۔ اگر اب بھی اقتدار کی اندھی آنکھ اُسے پڑھنے کے لئے تیار نہیں تو مستقبل کا نقشہ کیسا ہو گا ...؟ جو سرکاری ہرکارے اسلام آباد اور لاہور کے میڈیا میں بیٹھ کر جنگ کے موضوع پر دلیرانہ بڑھک بازی کرتے ہیں ۔ قوم کو اُن سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہئے کہ آپ نے اپنی عملداری میں واقع فاٹا کے کس علاقے کا دورہ کیا ہے...؟وزیرستان کہاں واقع ہے...؟ شلمان کے پہاڑ کیسے ہیں...؟ باڑہ سے شروع ہونے والی ریل کی پٹڑی کہاں تک جاتی ہے...؟ اس پر کتنے پل سلامت ہیں اور کتنے گِر چکے...؟ اِن محصور جانبازوں کو تو یہ بھی پتہ نہیں کہ فاٹا میں کچے گھروں سے بھی زیادہ نالوں کے کناروں اور پہاڑوں کی غاروں میں عوام کی اکثریت آباد ہے۔ جہاں ڈرون گرائے جاتے ہیں وہاں 100 ارب روپے کے سرکاری’’ لون یا قرض‘‘ کی بھاری رقم کا ایک دھیلا بھی نہیں پہنچا۔ فاٹا خوش بخت عوام کا وہ بدقسمت علاقہ ہے جس کے نام پر ساری دُنیا سے ڈالروں کی بارش بھی برس چکی ہے مگر یہاں کے آدھے عوام پاکستان کے مختلف نواحی علاقوں کی کچی بستیوں میں پناہ گزین ہیں اور آدھے خوف، آگ، بارود اور بھوک کے سائے میں جی رہے ہیں۔ اُن کے لئے آنے والے ڈالر کہاں ہیں...؟ یہ کوئی ڈالرمین بتا سکتا ہے۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ شاعر نے فاٹا کے لئے ہی کہا تھا
وہ میرے نصیب کی بارشیں
کسی اور چھت پہ برس گئیں
میں قبائلی علاقوں میں صرف تین بار گیا ہوں۔ دو دفعہ زمانہِ طالب علمی کے دوران اور آخری دفعہ 2007ء کی انتخابی مہم کے لئے۔ پشاور کے ٹائون ناظم حاجی ملک شریف ، ایوب شاہ ایڈووکیٹ اور زلمے خان میرے ساتھ تھے۔ قبائلی علاقوں میں فوج کے ذریعے بننے والے منصوبوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ نہ اسلام آباد جیسی سڑکیں، نہ کراچی جیسی فیکٹریاں، نہ لاہور جیسے محل ،نہ پشاور جیسے رِنگ روڈ، نہ کوئٹہ جیسے کاروباری علاقے۔ فاٹا توجہ مانگتا ہے۔ وسائل کی مساوات اور مسائل کا حل چاہتا ہے۔ فاٹا کو میدانِ جنگ کس نے بنایا اس کا فیصلہ تاریخ کو کرنے دیں۔ مگر فاٹا کو پاکستان بنانا وفاق کا کام ہے۔ پیارے وفاق تُم فاٹا کو بھول گئے کیا...؟