اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کی جیل ٹرائل کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
سماعت کے آغاز میں وکیل صفائی علی بخاری نے کہا کہ جیل ٹرائل سیکیورٹی کے لیے ہوتا ہے، اہلِ خانہ کو ٹرائل سننے کی اجازت ہوتی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ پریکٹس ہے یا کوئی قانون بھی اس سے متعلق موجود ہے؟ ہم جیل ٹرائل اور ان کیمرا پروسیڈنگ کو آپس میں مکس کر رہے ہیں۔
وکیلِ صفائی علی بخاری نے کہا کہ ابھی اِن کیمرا پروسیڈنگ کا کوئی آرڈر نہیں ہوا، جیل ٹرائل میں پریذائیڈنگ افسر کے بہت اختیارات ہوتے ہیں، پریذائیڈنگ افسر جیل سپرنٹنڈنٹ کو ریکویسٹ نہیں، آرڈر کر سکتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ آپ نے جیل ٹرائل میں کوئی سماعت اٹینڈ کی ہے؟
وکیل علی بخاری نے بتایا کہ ایک چھوٹے سے کمرے میں ٹرائل کے لیے عدالت لگائی جاتی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا اڈیالہ جیل میں جگہ اتنی کم پڑ گئی ہے؟
عدالت نے کہا کہ کسی ملزم کو اپنے وکیل سے مشاورت کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، ملزم کو فردِ جرم سے قبل وکیل سے مشاورت کی اجازت ہونی چاہیے۔
وکیل نے کہا کہ ٹرائل کے لیے ایک پنجرہ نما کمرہ ہے جس میں زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ ٹرائل چلنا ہے اور اگر جیل میں چلنا ہے تو بہتر جگہ ہونی چاہیے، یہ ایک دن کی تو بات نہیں، ٹرائل چلنا ہے، شہادتیں ریکارڈ ہونی ہیں۔