سپریم کورٹ نے 34 سال بعد ماموں سے بھانجی کو وراثت میں حق دلوا دیا۔
عدالت نے محکمۂ مال ڈیرہ غازی خان کو سارہ اختر کو 5 مربع زمین کا فوری قبضہ دینے کا حکم دے دیا اور ساتھ ماموں سردار منصور کو قانونی چارہ جوئی کے تمام اخراجات بھی بھانجی کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے 3 رکنی بینچ کی سربراہی میں کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین کے حقوق کو غیر آئینی اور غیر شرعی طریقے سے سلب کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے کہا کہ شرافت سے زمین بھانجی کے حوالے کر دیں۔
عدالت میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ کیا عدالت کہتی ہے کہ خواتین جو بھی کہیں وہ درست مانا جائے گا؟
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ خواتین کو کوئی خصوصی رعایت نہیں دے رہے، وہی آبزرویشن دی ہے جو بد قسمتی سے معاشرے میں ہو رہا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ لازمی نہیں ہمیشہ مرد ہی عورت کا حق مارے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ابھی تک ایسا کوئی کیس نہیں آیا جس میں عورت نے مرد کا حق مارا ہو۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ بھانجی نے اپنی زمین 1989ء میں ماموں سردار منصور کو فروخت کی، فروخت کے 20 سال بعد زمین کی ملکیت کا دعویٰ کیا اور اپنے دستخط سے انکاری ہو گئی۔
عدالت میں جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ زمین کی خریداری ثابت کرنا خریدار کا کام تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ 3 عدالتوں نے درخواست گزار کے خلاف فیصلہ دیا۔
وکیل یاسین بھٹی نے کہا کہ زمین کی مبینہ فروخت کے وقت سارہ اختر نابالغ تھی، سارہ کے ماموں سردار منصور سابق چیئرمین ضلع کونسل ہیں جنہوں نے زمین اپنے کمسن بچوں، اہلیہ، ساس اور سالے کے نام منتقل کرائی۔