• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلام کا پیغام قرآن کریم کی روشنی میں

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

ارشادِ ربانی ہے:اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا ان ہی الفاظ کو لوٹا دو، بلا شبہ ،اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔(سورۃالنساء: ۸۶) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سلام اور جوابِ سلام کے آداب بتائے ہیں۔ 

مسلمانوں کو ہدایت دی جارہی ہے کہ تم باہم ملو، تب بھی شائستہ انداز ہونا چاہیے، پیار ومحبت کا برتاوٴ ہونا چاہیے اور دوسروں سے ملو ،تب بھی تہذیب واخلاق کے دائرے میں رہنا چاہیے، دوسرے احترام سے پیش آئیں تو تم بھی اس کے جواب میں زیادہ احترام سے پیش آوٴ، شائستگی کا جواب، شائستگی ہو، ترش روئی تمہارے منصب کے خلاف ہے، مسلمان دنیا کے لیے داعی ہیں، انہیں تو دوسروں سے بڑھ کر مہذب وشائستہ ہونا چاہیے، سخت کلامی اور دُرشتی سے نفس کی تسکین بھلے ہوجائے۔ آیت میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کا حکم ہے، اور حسنِ اخلاق ومعاشرت کی اس اصل پر زور دیا ہے کہ جب کبھی کوئی شخص تمہیں سلام کرے، تو چاہیے کہ اس نے جو کچھ کہا ہے، اس سے بہتر طور پر اس کا جواب دو، اور اگر بہتر طور پر نہ دو تو کم از کم اسی کی بات اس پر لوٹا دو، یہ حکم یہاں اس مناسبت سے آیا کہ جنگ کی حالت ہو یا امن کی، منافق ہو یا ایمان دار، لیکن جو کوئی بھی تم پر سلامتی بھیجے، تمہیں بھی اس کا ویسا ہی جواب دینا چاہیے، اس کے دل کا حال خدا جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:اے ایمان والو! تم اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل مت ہو، جب تک اجازت حاصل نہ کرلو(اور اجازت لینے سے پہلے) ان کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو۔(سورۃالنور: ۲۷)یعنی اول باہر سے سلام کر کے پھر ان سے پوچھو کہ کیا ہمیں اندر آنے کی اجازت ہے اور بغیر اجازت لیے ایسے ہی مت داخل ہو، یعنی کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے دو کام کرنا ضروری ہیں اول کام استیناس یعنی اجازت لینا اور دوسرا گھر والوں کو سلام کرنا۔

قرآن کریم میں فرمایا گیا:(ترجمہ)جب تم گھروں میں جانے لگو تو اپنے لوگوں کو (یعنی وہاں جو مسلمان ہوں ان کو) سلام کر لیا کرو(جوکہ) دعا کے طور پر (ہے) اور جو اللہ کی طرف سے متعین ہے۔(سورۃالنور: ۶۱)نیز فرمایا گیا (ترجمہ) اور یہ لوگ جب آپ کے پاس آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ انہیں سلام علیکم کہیے۔ (سورۃالانعام: ۵۴)یعنی انہیں سلام کر کے یا ان کے سلام کا جواب دے کر ان کی تکریم اور قدر افزائی کریں۔یہاں السلام علیکم کے دو معنی ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ ان کو اللہ جل شانہ کا سلام پہنچا دیجیے، جن میں ان لوگوں کا انتہائی اعز از واکرام ہے،اس صورت میں ان غریب مسلمانوں کی دل شکنی کا بہترین تدارُک ہوگیا،جن کے بارے میں روٴسائے قریش نے مجلس سے ہٹا دینے کی تجویز پیش کی تھی اور یہ بھی مراد ہوسکتی ہے کہ آپﷺ ان لوگوں کو سلامتی کی خوش خبری سنا دیجیے کہ اگر ان لوگوں سے عمل میں کوتاہی یا غلطی بھی ہوئی ہے تو وہ معاف کردی جائے گی، اور یہ ہر قسم کی آفات سے سلامت رہیں گے۔

(ترجمہ) اور (کوئی)تم سے سلام کہے تو اسے یہ مت کہو کہ تو ایمان والانہیں۔(سورۃالنساء: ۹۳)

حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓسے مروی ہے: مسلمانوں کادستہ بنو سُلیم کے ایک آدمی سے ملا، تو اس آدمی نے مسلمانوں کو ”السلام علیکم“ کہا، مسلمانوں نے کہا: اس نے جان بچانے کے لیے مسلمانوں والا سلام کیا ہے، چناں چہ اسے قتل کر کے اس کی بکریاں ساتھ لے آئے، تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔اس سے معلوم ہوا کہ سلام، اسلام کی نشانی ہے اور جوشخص اسلامی سلام کرے، اسے قتل کرنا جائز نہیں، بلکہ اسے مسلمان تصور کیا جائے گا، اس کے دل کا حال خدا جانتا ہے، ہم نہیں جانتے۔

سورۂ واقعہ کی ابتدائی آیات میں، میدانِ حشر میں حاضرین کی جو تین قسمیں ہوں گی، ان میں سے ”سابقین“کے لیے بہت ساری نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ وہ لوگ ہر طرف سلام کے ترانے سنیں گے، جو رحمت اور محبت کی نشانی ہے اور غالباً اسی وجہ سے جنت کا ایک نام ”دارالسلام“ بھی ہے۔

سورۂ رعد کی آیات ۲۰ تا ۲۴ میں اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار بندوں کی نو صفات کا تذکرہ ہے، اس کے بعد ان کی جزاء کا بیان ہے، اخیر میں، دارِ آخرت میں ان کی فلاح وکامیابی کا مزید بیان یہ ہے کہ فرشتے ہر دروازے سے ان کو سلام کرتے ہوئے داخل ہوں گے اور کہیں گے: تمہارے صبر کی وجہ سے تمام تکلیفوں سے سلامتی ہے اور کیسا اچھا انجام ہے دار آخرت کا۔اور ان کو (اہل جنت) پروردگار مہربان کی طرف سے سلام فرمایا جائے گا(یعنی حق تعالیٰ فرمائیں گے السلام علیکم یا أہل الجنۃ۔( ابن ماجہ) (پھرجب (اہل جنت) ایک دوسرے کو دیکھیں گے تو ان کا باہمی سلام یہ ہوگا السلام علیکم(سورۂ یونس: ۱۰)اللہ جلَّ شانہ کی طرف سے یا فرشتوں کی طرف سے اہل جنت کا تحیہ لفظ سلام سے ہوگا، یعنی یہ خوش خبری کہ تم ہر تکلیف اور ناگوار چیز سے سلامت رہو گے، یہ سلام خود حق تعالیٰ کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے۔

جب متقی لوگ جنت میں پہنچ جائیں گے تومحافظ فرشتے ان سے کہیں گے السلام علیکم تم پر سلامتی ہو، تم مزے میں رہو، پس جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہوجاؤ! یعنی ان جنتی مہمانوں کے سرپر عزت وشرافت کا یہ زریں تاج لا محدود زمانے تک کے لیے باندھ دیا جائے گا اور اہل جنت کا یہ استقبال ایک تاریخ ساز استقبال ہوگا، اس آیت میں قابل غور بات یہ ہے کہ ایسے مرحلے پر خطبہٴ استقبالیہ کے قائم مقام یہ الفاظِ سلام ہی قابلِ ترجیح سمجھے گئے، آخر کیوں؟ یقیناً اس میں کوئی خصوصی تاثیراور معنویت کا عنصر چھپا ہوا ہے۔

حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ نے فرمایا: ”السلام“ اللہ جل شانہ کا نام ہے اور دارالسلام کے معنی ہیں اللہ کا گھر اور ظاہر ہے کہ اللہ کا گھر امن وسلامتی کی جگہ ہوتی ہے، اس لیے حاصل معنی پھر یہی ہوگئے کہ وہ گھر جس میں ہر طرح کا امن وسکون اور سلامتی واطمینان ہو، جنت کو دارالسلام فرما کر اس طرف اشارہ کردیا کہ جنت ہی صرف وہ جگہ ہے، جہاں انسان کو ہر قسم کی تکلیف، پریشانی اور اذیت اور ہر خلافِ طبع چیز سے مکمل اور دائمی سلامتی حاصل ہوتی ہے، جو دنیا میں نہ کسی بڑے بادشاہ کو کبھی حاصل ہوئی اور نہ بڑے سے بڑے نبی ورسول کو کیوں کہ دنیائے فانی کا یہ عالم ایسی مکمل اور دائمی راحت کا مقام ہی نہیں۔

لفظ ”سلام“ راحت اور سلامتی کے حوالے سے ایک بحربیکراں ہے، جس کی گہرائی وگیرائی اللہ کو ہی معلوم ہے اور اسی لیے یہ دعا اتنی اہم اور با عظمت سمجھی گئی، اس کے باوجود اگر کوئی سلام سے بے رخی برتے یا سلام کی اصلی شکل کو مسخ کر کے غیروں کی رَوِش اپنائے یا سلام کو جوں کا توں رکھے، مگر اس کے تقاضوں سے نابلد رہے تو یہ قابلِ افسوس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک لمحہٴ فکریہ ہے، جس کی اصلاح ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اہل ایمان کوباہم سلام پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)

اقراء سے مزید