• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دورِ حاضر میں مکان ودکان کے ہبہ کا مسئلہ (گزشتہ سے پیوستہ)

تفہیم المسائل

یہ تمام تفصیلات حکومت سے منظور شدہ اسٹامپ پیپر پر درج کرکے اُس کے دینے کو قبضہ سمجھاجائے، البتہ گھر کے ہبہ میں یہ بات اکثر وبیشتر پیش آتی ہے کہ واہب عموماً اپنے گھر سے الگ ہوئے بغیر ہبہ کردیتے ہیں اور اپنا سامان اُسی گھر میں رکھتے ہیں، اس بنا پر’’ مَشْغُول بِمِلْک الْوَاہِب‘‘لازم آتا ہے، جو قبضے کے لیے مانع ہے، جیسا کہ فقہائے اَحناف نے صراحت کی ہے۔

جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے، تو یہ مسئلہ شرعی، صریح منصوص نہیں ہے، بلکہ اُس زمانے کے فقہائےکرام کا اجتہاد ہے اور اُس وقت جائیداد پر قبضے کی یہی ایک شکل تھی، فی زمانہ اسے نظر انداز کرنے میں کوئی حرج لازم نہیں آتا، کیونکہ آج کل نت نئے طریقے کی کاغذی کارروائیاں اسٹامپ پیپر وغیرہ پر ہوجاتی ہیں۔ 

فقہ کی کتابوں میں اس موقع پر ودیعت کا جو حیلہ مکتوب ہے کہ واہب اپنا سامان موہوب لہٗ کے پاس ودیعت رکھے، پھر مکان ہبہ کرے، یہ تمام مسائل عوام کی علم سے دوری کی بناء پر پیش آرہے ہیں، اس لیے یہ حیلہ کارآمد نہیں ہوگا، ورنہ اگر فقۂ حنفی کی رُو سے عمل کیاجائے تو اس کی بہت سی شکلیں موجود ہیں،(ہبہ سے متعلق بعض مسائل، ص:309)‘‘۔

ہمارا عُرف یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی غیر منقولہ جائیداد اپنی بیوی یا بیٹے کو ہبہ کرتا ہے، جو اس کے ساتھ رہ رہے ہیں، تو وہ ملکی قانون (Law of The Land)کے تحت اس ہبہ کوسرکاری مقررہ ڈیوٹی دے کر باقاعدہ سرکاری رجسٹرار کے ہاں جاکر موہوب لہٗ کے نام رجسٹرڈ کراتا ہے یالیز (Lease)کراتا ہے۔

موہوب لہٗ سرکاری کاغذات میں اس ہبہ کو قبول کرتا ہے، یہ کام علیٰ رُوٗس الاَشہاد یعنی عَلانیہ ہوتا ہے، اس کے دیگر وارثوں کو بھی پتا ہوتا ہے اور کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا، پس فقہی قواعد کی روشنی میں ایسا ہبہ مکمل ہے اور شرعاً وقانوناً مؤثر ہے۔

قانونِ ہبہ ایسے ہبہ کو مؤثر مانتا ہے، جس میں ہبہ کنندہ اور جس کے نام ہبہ کیا جاتا ہے، دونوں ساتھ رہ رہے ہوں اور ہبہ کا اعلان کردیا گیا ہو ۔ قانون ہبہ1908ء وقانون رجسٹری 1908ء کے تحت جائیداد ہبہ ہونے کی صورت میں قبضے کی مندرجہ ذیل صورتیں بیان کی گئی ہیں:

(1) اگر جائیداد ہبہ کرنے والے کے اپنے قبضے میں ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ہبہ کے بعد جائیداد کا قبضہ اس شخص (موہوب لہٗ)کو منتقل کردے۔

(2) اگر ایسی جائیداد کرایہ داروں کے قبضہ میں ہو تو کرایہ داروں کو ہبہ کی اطلاع دے دینا اور جس کے حق میں ہبہ کیا گیا ہو اس کو کرایہ ادا کرنے کی ہدایت کردینا کافی ہے۔

(3) اگر دونوں فریق(واہب اور موہوب لہٗ) ایسی جائیداد میں رہ رہے ہوں تو ایسی جائیداد کے ہبہ کی تکمیل کے لیے ہبہ کرنے والے کا اعلان ہی کافی ہے، جس سے قبضہ کے انتقال اور جائیداد پرقبضہ چھوڑنے کی واضح نیت ظاہر ہو۔

الغرض اگر کوئی شخص اپنی دکان یا مکان کسی کے نام ہبہ کرکے حکومت کے مجاز رجسٹرار کے سامنے تمام قانونی تقاضے پورے کراتے ہوئے اُسے رجسٹرڈ کرادے تو وہ موہوب لہٗ قانوناً اس کا مالک بن جاتا ہے اور کوئی اُسے چیلنج نہیں کرسکتا۔ اس کے برعکس اگر کوئی اپنی دکان یا مکان خالی کرکے موہوب لہٗ کو قبضہ دیدے، مگر انتقالِ ملکیت کے قانونی تقاضے پورے نہ کرے یعنی رجسٹری نہ کرائے یا محکمۂ مالیات کے کھاتوں میں انتقال نہ کرائے، تو ہبہ کرنے والے کے انتقال کے بعد تمام شرعی ورثاء اس میں سے اپنے اپنے حصے کا مطالبہ کریں گے اور ریاست وحکومت قانون وعدالت اُس کا ساتھ دیں گے، لہٰذا ہمیں اب ہبہ کے مسئلے میں ریاست کے قانون کو تسلیم کرنا ہوگا، اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔

ہمارے مُتقدمین فقہائے کرام نے جو ہبہ شدہ چیز کو خالی کرکے موہوب لہٗ کے قبضے میں دینے کی شرط لگائی ہے، یہ اُن کا اجتہاد ہے، کوئی منصوص بات نھیں ہے، ہوسکتا ہے اُس دور میں غیر منقولہ جائیداد وں (مکان ودکان) کے قانونی انتقالِ ملکیت کے قوانین وضع نہ ہوئے ہوں، اس لیے نزاع سے بچنے کے لیے قبضے کو لازمی قرار دیا، مگر اب انتقالِ ملکیت کے لیے حکومتوں کا باقاعدہ قانونی طریقہ ٔ کار موجود ہے اور اس کے بغیر قبضے کے باوجود استحقاق ملکیت تسلیم نہیں کیا جاتا، پس ہمیں ملکی قانون کو تسلیم کرنے میں کوئی تردُّد نھیں ہونا چاہیے، جس سے قرآن وحدیث کی نصِّ صریح کی خلاف ورزی نہ لازم آتی ہو، اسے جدید دور کے قانون سا زاداروں کا اجماع یا اکثری اجتہاد تسلیم کرلینے میں ہمارے نزدیک کوئی شرعی قباحت نھیں ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شرعی اور قانونی تقاضوں کے مطابق آپ کا اپنی بیوی کے نام ہبہ درست ہوگیا اور مکان کی ملکیت آپ کی اہلیہ کے حق میں ثابت شدہ ہے، آپ کی اہلیہ مرحومہ کا ترکہ 84حصوں میں منقسم ہوگا اور اسلامی قانونِ وراثت کے مطابق شرعی ورثاء کے حصے حسبِ ذیل ہوں گے:

شوہر کو21حصے  والد کو14حصے، والدہ کو14حصے، تینوں بیٹوں کو 30حصے (فی کس10حصے) اور ایک بیٹی کو5حصے ملیں گے۔

اگر آپ نے اپنی اہلیہ کو مہر ادا نہیں کیا تھا، تو وہ مہر کی رقم بھی اب اُن کے ترکے میں شمار کی جائے گی، اِسی طرح وفات کے وقت اُن کی ملکیت میں جو کچھ تھا، وہ اُن کا ترکہ بنے گا ۔( واللہ اعلم بالصواب )