• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نبوی ﷺ سیاست و سفارت امن، عدل اور حکمت کا آفاقی درس

دلشاد عالم

دنیا کی تاریخ میں اگر کسی شخصیت کی سیرت کو جامعیت اور آفاقیت کے ساتھ دیکھا جائے تو وہ صرف نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ آپ ﷺ کی زندگی کا ہر گوشہ انسانیت کے لیے رہنمائی اور ہر دور کے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ دینِ اسلام میں سیاست اور سفارت کو الگ تھلگ نہیں رکھا گیا، بلکہ انہیں اخلاقیات اور عدل کے ساتھ جوڑ کر معاشرتی نظام کی بنیاد بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں جب دنیا طاقت کی کشمکش اور انتشار میں گھری ہوئی ہے، سیرتِ نبوی ﷺ کی یہ جہت اور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔

مدینے کی ریاست کا قیام اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کی سیاسی و سفارتی حکمت عملی کس قدر بصیرت افروز تھی۔ آپ ﷺ نے میثاقِ مدینہ کے نام سے ایک ایسا تحریری معاہدہ تشکیل دیا جو مختلف مذاہب اور قبائل کو ایک ریاستی ڈھانچے میں جمع کرتا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ریاست کے تمام شہری یکساں حقوق رکھتے تھے، سب کو مذہبی آزادی حاصل تھی اور مدینے کی سلامتی سب کی مشترکہ ذمہ داری قرار دی گئی۔ 

یہ انسانی تاریخ کا پہلا ایسا معاہدہ تھا جس نے کثیر المذاہب معاشرت کو قانونی اور اخلاقی تحفظ دیا۔یہودی قبائل اور دیگر غیر مسلم گروہوں کے ساتھ تعلقات میں بھی آپ ﷺ نے رواداری اور معاہدات کی پاس داری کو ترجیح دی۔ جب تک یہ قبائل معاہدوں پر قائم رہے، آپ ﷺ نے ان سے حسنِ سلوک کیا۔ لیکن جب انہوں نے بدعہدی کی اور جنگ مسلط کی تو آپ ﷺ نے دفاعی حکمت عملی اپنائی۔ اس رویے نے یہ واضح کیا کہ اسلامی سیاست طاقت کے بے جا استعمال کی نہیں، بلکہ انصاف اور عہد کی پاس داری کی ضامن ہے۔آپ ﷺ نے قیصرِ روم ہرقل کو خط بھیجا۔ 

یہ عیسائی حکمران تھا، اس لیے آپ ﷺ نے خط کی ابتدا عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا ذکر کر کے کی، تاکہ اس کے مذہبی جذبات سے ہم آہنگی پیدا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰؑ اللہ کے نبی اور بندے ہیں، اور اللہ کی طرف سے وہی پیغام لائے جو پہلے انبیاء لاتے رہے۔ اس میں یہ حکمت تھی کہ ہرقل کو یہ بات باور کرائی جائے کہ اسلام دین کی تکمیل ہے۔ اس خط میں مکالمے کی زبان تھی، ٹکراؤ کی نہیں، تاکہ عیسائی دنیا کو اسلام کے قریب لایا جا سکے۔ کسریٰ ،فارس، نوشیرواں کو بھیجے گئے خط میں آپ ﷺ نے اسلام کی طرف دعوت دی۔ 

فارس چونکہ مجوسیت (آتش پرستی) کا مرکز تھا اور اپنی سلطنت و طاقت پر نازاں تھا، اس لیے آپ ﷺ نے خط میں سیدھی دعوتی بات کی کہ ’’اسلام قبول کرو تو دنیا و آخرت میں کامیابی پاؤ گے۔‘‘ اس میں یہ حکمت تھی کہ غرور میں ڈوبا ہوا بادشاہ براہِ راست کلام کو سن سکے۔ لیکن اس نے خط چاک کر دیا، اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ اس کی سلطنت بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا‘‘ اور ایسا ہی ہوا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سفارت میں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر فریق کے مزاج کے مطابق خطاب کیا جائے۔

شاہِ حبشہ کو بھی خط لکھا گیا۔ نجاشی پہلے ہی مسلمانوں کو پناہ دے چکا تھا اور وہ مسیحی علما کے قریب تھا۔ اس لیے آپ ﷺ نے خط میں قرآن کی آیات شامل کیں جن میں عیسیٰ علیہ السلام اور سیدہ مریم علیہا السلام کا ذکر تھا۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ اسے قرآن کے اس پیغام سے روشناس کرایا جائے جو اس کے دل کے قریب ہو۔ نجاشی نے وہ خط پڑھ کر آنسو بہائے اور فوراً اسلام قبول کر لیا۔مصر کے حاکم مقوقس کو خط لکھا گیا۔ وہ بھی عیسائی دنیا سے تعلق رکھتا تھا۔ آپ ﷺ نے نرم لہجے میں دعوت دی۔ 

اگرچہ اس نے اسلام قبول نہ کیا، لیکن اس نے خط کی عزت کی، سفیر کو خوش دلی سے رخصت کیا اور نبی ﷺ کو تحائف بھیجے۔ اس کی حکمت یہ تھی کہ اگر اسلام قبول نہ بھی کرے تو کم از کم مسلمانوں کے ساتھ خیر سگالی کا تعلق قائم ہو۔ اسی طرح بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی اور عمان کے حکمران جیفر و عبد جیسے لوگوں کو بھی خطوط بھیجے گئے۔ ان خطوط میں براہِ راست، سادہ اور واضح دعوت تھی کیونکہ یہ لوگ مذہبی بحث سے زیادہ تجارتی اور سیاسی تعلقات میں دلچسپی رکھتے تھے۔

ان سب خطوط کا مشترکہ نکتہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ہر ایک سے اس کے مذہب، مزاج اور سیاسی پس منظر کے مطابق خطاب کیا۔ یہ سفارت کاری کا وہ اعلیٰ معیار ہے جو آج کے دور میں بھی خارجہ پالیسی کا رہنما اصول بن سکتا ہے۔ آج جب دنیا کے مختلف ممالک باہمی تعلقات میں صرف مفاد اور طاقت کو دیکھتے ہیں، سیرتِ نبوی ﷺ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اصل کامیابی تعلقات میں مکالمہ، حکمت اور دوسروں کی نفسیات کو سمجھنے میں ہے۔امن اور جنگ کے معاملات میں بھی آپ ﷺ نے ایسے اصول طے کیے جو آج بھی عالمی قوانین سے بلند تر ہیں۔

جنگ میں کبھی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کھیتوں، درختوں اور عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانے کی ہدایت کی گئی۔ اس طرزِ عمل نے یہ ثابت کیا کہ حتیٰ کہ جنگ جیسے سخت موقع پر بھی اسلام انسانیت اور عدل کو مقدم رکھتا ہے۔ تجارت اور معاشی تعلقات کے ذریعے بھی آپ ﷺ نے سفارت کو فروغ دیا۔ تجارتی قافلوں، معاہدوں اور نمائندوں کے ذریعے مختلف قوموں اور قبائل سے تعلقات قائم کیے گئے۔ یہ تعلقات نہ صرف معیشت کو مستحکم کرتے تھے، بلکہ سفارتی پل کا کردار بھی ادا کرتے تھے۔ 

اس کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ دشمن کو بھی دوست میں بدلا جا سکے اور اختلاف کو مفاہمت میں تبدیل کیا جا سکے۔ اگر ہم جدید سیاسی فلسفوں پر نظر ڈالیں تو ہمیں لبرل ازم، ریئل ازم، سوشل کنٹریکٹ تھیوری اور کثیر المذاہب معاشرت جیسے نظریات دکھائی دیتے ہیں۔ لبرل ازم انسانی حقوق اور جمہوری آزادی پر زور دیتا ہے، یہ اصول نبی اکرم ﷺ نے اس وقت نافذ کیے جب دنیا غلامی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ 

ریئل ازم طاقت اور مفاد کی سیاست کو مرکزی حیثیت دیتا ہے، مگر آپ ﷺ نے طاقت کو بھی عدل اور اخلاق کے تابع بنایا۔ سوشل کنٹریکٹ تھیوری شہریوں اور ریاست کے درمیان معاہدے کی بات کرتی ہے، لیکن میثاقِ مدینہ اس سے صدیوں پہلے اس تصور کو عملی شکل دے چکا تھا۔ اسی طرح کثیر المذاہب معاشرت کا جو فلسفہ آج دیا جا رہا ہے، وہ دراصل مدینے کی ریاست میں سب سے پہلے عملی صورت میں سامنے آیا۔ ان تمام پہلوؤں کا تقابلی جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبوی تعلیمات کئی حوالوں سے ان سے بلند تر ہیں۔ 

عدل و مساوات، مذہبی آزادی، معاہدات کی پاس داری، اور امن و جنگ کے اصول سب ہی ایسے ہیں جنہوں نے انسانی تاریخ میں ایک منفرد معیار قائم کیا۔آج کے دور میں جب دنیا بدامنی، جنگوں اور طاقت کی سیاست میں گھری ہوئی ہے، نبی اکرم ﷺ کی سیرت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ ﷺ کی حکمت عملی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ امن قائم کرنے کا سب سے بہترین طریقہ انصاف، رواداری اور مکالمہ ہے۔ مسلم دنیا اگر ان اصولوں کو اپنائے تو نہ صرف اپنے داخلی مسائل حل کر سکتی ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی امن و بھائی چارے کے قیام میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔یہ سفارتِ نبوی ﷺ آج بھی زندہ ہے۔ 

فلسطین کے بچے جب پتھروں سے ظلم کا مقابلہ کرتے ہیں، کشمیر کے جوان جب قید کی دیواروں کے پیچھے بھی امید کے چراغ جلاتے ہیں، تو وہ دراصل اسی پیغام کو زندہ کرتے ہیں کہ حق پر ڈٹے رہنے والوں کو وقت کے کسریٰ اور قیصر شکست نہیں دے سکتے۔اسلام کی اصل حکمتِ عملی یہی ہے کہ طاقت کو انصاف کے تابع رکھا جائے، دشمن کو نفرت سے نہیں بلکہ مکالمے اور حکمت سے قریب کیا جائے، اور تعلقات کو تصادم کے بجائے خیر سگالی پر قائم کیا جائے۔ 

یہی وہ روشنی ہے جو صحرائے عرب سے اٹھی اور آج بھی دنیا کے ہر اندھیرے کو اجالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔آخر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سیرتِ نبوی ﷺ کا پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ یہ ایک ایسا رہنما ماڈل ہے جو ہر زمانے اور ہر خطے میں انسانیت کو امن، عدل اور فلاح کی راہ دکھاتا ہے۔

نعتِ رسولِ مقبولﷺ

(جمال احمد جمال)

کرم پہ نازشِ افلاک کے ہے، انحصار اپنا

اُنؐ ہی کی ذات سے ہے، شہرِدل میں اعتبار اپنا

وہ جامِ کوثر و تسنیم دیتے ہیں، بدستِ خود

تصور سے ہی اُس کے ہوگیا افزوں،خمار اپنا

ہیں گردش میں ہر اک نقش قدم کے کہکشاں سارے

بڑھانے کو محض اک لمس ہے، حُسنِ وقار اپنا

صبا کا ہے خرامِ ناز پہ، بے جا نہ اترانا

کہ شہرِ عشق سے لائی ہے ،نقشِ افتخار اپنا

بہاروں کے جلو میں خوشبوؤں کا سیلِ پیہم ہے

دکھانے کو نبیؐ کے شہر سے حاصل نگار اپنا

عیاں ہے حُسن جن کا، پیکرِ رشک تجلی سے

فدا ہوتا ہے دل اُس حُسن پر بے اختیار اپنا

جمال، اُن ؐ کے تصور میں بھی تابِ دید ہے پنہاں

چھپا سکتا نہیں کوئی بھی کیفِ انتظار اپنا