دوسری چیزاللہ پر یقین اوراعتماد ہے۔ یقین وہ ہتھیار ہے جوحالات کے دھارے کوبدل دیتا ہے، طوفانوں کا رخ موڑ لیتا ہے، مبصرین کے اندازوں کوغلط ثابت کردیتا ہے اور انقلاب برپا کردیتا ہے۔ تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔بنی اسرائیل کو سر کی آنکھوں سے نظر آرہا تھا کہ آگے سمندر اور اس کی طغیانی ہے اور پیچھے فرعون اور اس کالا ؤ لشکر ہے، اس لیے پکار اٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے ، مگر موسیٰ علیہ السلام نے پورے یقین سے کہا : ہر گز نہیں، میرا رب میرے ساتھ ہے جو مجھے ضرور راستہ دے گا۔" (سورۃالشعراء: 62) اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔
رسول اللہ ﷺاسی یقین کی بدولت کسی جتھے اور جماعت اور کسی مادی قوت اور منصب کے بغیر تن تنہا پوری دنیا کے باطل سے جاٹکرائے اور اسے پاش پاش کردیا۔ غزوۂ خندق میں ایسے موقع پر جب مسلمان فاقہ کشی کا شکار ہیں اور ایسے حالات میں کہ جب زندہ بچ جانے کی امیدیں کم ہیں ،آپ فرماتے ہیں کہ تم ایران اور شام کے محلات کو فتح کروگے۔حضرت صدیق اکبر ؓکا ولولہ وعزم اور عشق اور یقین تھا کہ لشکر اسامہ کو روانہ فرمایا،مرتدین سے قتال کیا اور دوبڑی سلطنتوں سے جہا دکیا، حالانکہ مہاجرین اور انصار کے سب بزرگوں کی رائے اس کے خلا ف تھی ۔
آج بھی عقل کا فتویٰ اور سیاست کا فیصلہ یہ ہے کہ جابر وقاہر اور سنگدل اور وحشی اسرائیل کے خلاف کسی مہم جوئی سے با زرہا جائے ، مگر جس خدا نے اس وقت مدد ونصرت کی اورمادی سوچ کو ناکام اور اندازوں کو غلط ثابت کیا، وہ خدا آج بھی اسی قدرت اورطاقت کے ساتھ موجود ہے، مگر ایسے یقین کے لیے شرط ہے کہ وہ کسی ضد اور نفسانیت یا بیرونی امداد اورطاقت کے سہارے کی بنا ء پر نہ ہو، ورنہ انجام وہ ہوتا ہے جو اکثر وں کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جو اقدام ہو وہ مشورے اور مناسب تدبیر کے ساتھ ہو۔ ان سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ یقین کی بنیاد حق اور صداقت ہو اورصاحبِ یقین مخلص اور عمل صالح کی دولت سے مالا مال ہو۔
اس کے بعد کا مرحلہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد واتفاق ہو۔ اسی مقصد کے لیے اسلام اجتماعیت کوضروری قراردیتا ہے، امیر کی اطاعت بھی اس لیے ضروری ہے کہ امارت قائم رہے اور امارت کی ضرورت مرکزیت کے لیے ہے اور مرکزیت کی ضرورت اجتماعیت کے لیے ہے۔ عالمِ اسلام جو جغرافیائی محل وقوع رکھتا ہے،اس کی بناء پر وہ بے پناہ عسکری، اقتصادی اورسیاسی اہمیت رکھتا ہے،ضرورت صرف ایک مقصد پر متفق ہونےکی ہے اور نقطہ اتحاد کوئی نسلی،لسانی،قومی اورجغرافیائی اشتراک نہ ہو،بلکہ صرف مذہبِ اسلام ہو۔
مسلمانوں کی تاریخ کافیصلہ ہے کہ جب کبھی ان کو آزادی ملی ہے یا ان کی کوئی بڑی تحریک کامیاب ہوئی ہے یا انہوں نے کوئی انقلاب برپا کیا ہے تو اس کے پسِ پشت مذہب کا عامل تھا، خود تحریک پاکستان کا جائز ہ لیجیے، قومیتوں کے اختلاف کے باوجود اس کی کامیابی بھی تب ہی ممکن ہوئی جب "پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ " کے نعرے کو بنیاد بنایا گیا ۔
ان اوصاف کے ساتھ ایک مزید وصف صبرواستقلال کا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مسلمان اپنے عزم کے پکے اور ارادوں میں پختہ ہوں اوروہ ایک جگہ جمے اور ڈٹے ہوئے ہوں اور حالات کی سنگینی کی وجہ سے نہ ان کے ارادے متزلزل ہوں اور نہ ہی پائے استقامت میں جنبش پیدا ہو۔جو لوگ اس طرح صبر واستقلال کا مظاہرہ کرتے ہیں پھر وہ محکوم ،مغلوب، مجبور اور مقہور نہیں رہتے ، بلکہ دنیا کی امامت وقیادت کاتاج ان کے سر سجادیاجاتا ہے۔
ارشاد خداوندی ہے: اورہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو ،جب انہوں نے صبر کیا، ایسے پیشوا بنادیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے اوروہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔" (سورۂ سجدہ آیت24)
اب تک مسلمانوں کی جن صفات کا بیان ہوا ،وہ سب شرعی صفات ہیں اور یہی مسلمانوں کی اصل طاقت ہیں ،اس طاقت کا جب کبھی بھی مادی طاقت سے تصادم ہوا ہے، غلبہ ان ہی کو حاصل رہا ہے۔ غزوۂ بدر اوراُحد اور بعد کے اسلامی معرکے ان ہی کی بنیاد پر لڑے گئے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ مادی وسائل جمع نہ کیے جائیں اور ان سے کام نہ لیاجائے۔نماز پانچ وقت ہے اور روزہ ایک مہینہ ہے اور حج ایک مرتبہ ہے ، مگردشمن کے مقابلے کے لیے تیاری کو قرآن کریم نے غیر محدود رکھا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ مسلمان وسائل کی کثرت اور اس میں برتری حاصل ہونے تک جہاد کے فریضے کو موقوف نہ رکھیں، کیوں کہ وسائل کے لحاظ سے عمومی معیار یہ ہے کہ کافر وں کو مسلمانوں سےدس گنا زیادہ وسائل میسر ہوں گے اور اگر مسلمان بہتر پوزیشن میں ہوئے تو پھر بھی مسلمانوں کو دوگنی تعداد اوروسائل کاسامنا ہوگا۔اگر وسائل اور دشمن جیسے وسائل یا ان کے برابر وسائل یا ان سے برتروسائل ضروری ہوتے تواسلامی غزوات کی کبھی نوبت ہی نہ آتی اور عہدِ حاضر اور قریب میں اسلامی تحریکات کامیاب نہ ہوتیں۔
بہرحال وسائل سے انکار نہیں، بلکہ ان کی ترغیب ہے اور ترغیب بعض صورتوں میں وجوب اورفرض کے درجے میں ہے ، مگر دشمن جیسے وسائل کی دستیابی تک جہاد کو موقوف رکھنا دوا کھانے کے لیے صحت کا انتظار کرنا ہے۔ (جاری ہے)