• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور ان کا حل

سوال: حماس ،اسرائیل حالیہ جنگ اور اس پر مسلمان ملکوں کے رویے کی وجہ سے دل بہت افسردہ اور غمگین ہے، سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جائے؟موجودہ حالات میں مسلم امہ، علمائے کرام اور مسلم حکمرانوں کی کیا ذمے داری ہے؟ اس حوالے سے ازروئے قرآن و سنت رہنمائی فرمائیں۔(عبداللہ، کراچی)

جواب: فلسطین کے حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند ،صا ف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ ایک مومن تو اپنے دل میں درد، جگر میں سوز اور کلیجے میں جلن محسوس کرتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ اسلام نے جس درد ومحبت کے رشتے میں ہمیں پرودیا ہے ،اس کی رو سے مشرق میں کھڑے شخص کے پاؤں میں اگر کانٹابھی چبھے تو مغرب میں کھڑے شخص کو اپنے دل میں اس کی چبھن محسوس کرنی چاہیے۔

ایک کی مصیبت پر دوسرے کو تڑپ جاناچاہیے اور ایک کی چوٹ کی کسک دوسرے کو اپنے سینے میں محسوس ہونی چاہیے۔اس کیفیت میں شدت اس وقت آجاتی ہے ،جب وہ خودآگے بڑھ کر مظلوم کی مدد اور ظالم کا ہاتھ روکنا چاہ رہے ہوں، مگر بے بس ہوں اور جن کی اصل ذمہ داری ہو، وہ اس کا احساس نہ رکھتے ہوں ۔ایسے موقع پر ان کی حالت وہ ہوجاتی ہے جو امام سبکی علیہ الرحمہ پر گزری تھی اور اس حالت میں ان کے قلم سے یہ درد میں ڈوبے ہوئے الفاظ نکلے تھے کہ ہائے ،ہاتھوں کا کام فریاد کرنا نہیں ، بلکہ گریبان پکڑنا ہے، مگر افسوس کہ یہ ہاتھ ان تک پہنچ نہیں سکتے۔

جن کے ہاتھ ان تک پہنچ سکتے ہیں، جنہیں عالم اسلام اور ستاون اسلامی ملکوں سے یاد کیا جاتا ہے، ان کی زبانیں گنگ،ہاتھ شل،اعضاء مفلوج اورضمیر مردہ ہوچکے ہیں، چنانچہ عملی تعاون اور مدد تو کجا کہیں سے ان مظلوموں کی حمایت میں کوئی طاقت ور اور توانا آواز بھی نہیں اٹھ رہی ،اگر کہیں کسی گوشے سے کوئی نحیف و نزار صداسنائی بھی دیتی ہے تو رسمی جملوں تک محدود ہوتی ہے،حالانکہ انہیں آوازوں اورقراردادوں کی ضرورت نہیں، بلکہ ٹینکوں کے مقابلے میں ٹینکوں کی اور میزائلوں کے مقابلے میں میزائلوں کی ضرورت ہے۔اسرائیل کی حمایتی ریاستوں نے صرف اس کے حق میں آواز بلند نہیں کی ،بلکہ بحری بیڑے اور عسکری سازو سامان بھیجا ہے۔

عالم اسلام اگر فلسطینیوں کے ساتھ یہ رویہ رکھ کر سمجھتا ہے کہ ان کی افتاد ہے، ان پر پڑی ہے اور وہ جھیل لیں گے اور گزرجائے گی تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ مجھے میری عزّت وجَلال کی قسم! میں جلدی یا دیر میں ظالم سے بدلہ ضَرور لوں گا اور اُس سے بھی بدلہ لوں گا جو باوجُودِ قدرت مظلوم کی مدد نہیں کرتا۔ (معجم اوسط، ج1، ص20، حدیث:36 ) صحیح بخاری میں ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ،مسلمان نہ دوسرے بھائی پر زیادتی کرتا ہے اورنہ ہی اسے اوروں کے سپرد کرتا ہے۔ مسلم شریف میں ہے کہ اسے بے یارومددگار نہیں چھوڑتا۔

مسلمانوں کو اگر عالم اسلام سے امید ہے تو عالم اسلام کی نظریں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اگر اسرائیل کا کوئی حقیقی حریف اور اصل مدمقابل ہے تو وہ پاکستا ن ہے۔دونوں کی بنیا د مذہبی ہے اور دونوں کی عمریں تقریباً برابر ہیں اور دونوں ایٹمی قوتیں ہیں۔

پاکستان پر کسی اور سے زیادہ یہ ذمہ داری اس وجہ سے بھی عائد ہوتی ہے کہ ہمارے آئین کا آرٹیکل 40 عالمِ اسلام سے مضبوط رشتہ استوار کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ بانی پاکستان کے الفاظ ہیں کہ "پاکستان دنیا کی مظلوم اور کچلی ہوئی اقوام کو اخلاقی اور مادی امداد دینے سے کبھی بھی نہیں ہچکچائے گا اور اقوام متحدہ کے منشور میں درج شدہ اصولوں کا حامل ہے۔‘‘یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کئی اسلامی ملکوں کی آزادی کےلیے اَنتھک کوششیں کی ہیں اور ایشیا، افریقا، اور لاطینی امریکا کی مظلوم قوموں کا ساتھ دیا ہے۔

فلسطین کے ساتھ بانیانِ پاکستان کا رشتہ بطورِ خاص اسی طرح رہا ہے جیسے کشمیر کے ساتھ رہا ہے، انہوں نے کشمیر کی طرح فلسطین کے درد کو بھی اپنا درد سمجھا اور دونوں ہی تحریکوں میں بدل و جان حصہ لیا ہے، بلکہ ہمدردی کا یہ تعلق جانبین سے رہا ہے، فلسطین کے اکابر نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی تائید کی، خصوصاً قیامِ پاکستان کے زمانے میں مفتی اعظم فلسطین کے عہدے پر فائز مفتی امین حسینی نے 1951ء میں کشمیر کے حوالے سے کراچی میں منعقد ہونے والی کانفرس میں شرکت کی اور بذاتِ خود آزاد کشمیر جاکر کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی۔ 

حکیم الامت علامہ اقبال کی فلسطین کے بارے میں فکر مندی ان کے کلام اور خطبات سے واضح ہے اور بانی پاکستان کی موجودگی میں مسلم لیگ نے قرارداد پاس کی کہ عالمِ اسلام بیت المقدس کوغیر مسلموں سے آزاد کرانے کے لیے مشترکہ حکمت عملی وضع کرے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بانی پاکستان نے امریکا کے نام ایک خط میں اسرائیل کے قیام کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا اور امریکی صدر سے اپیل کی کہ وہ فلسطین کی تقسیم کو روکیں۔ بعد ازاں آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری اجلاس منعقدہ 14 اور 15 دسمبر 1947ء میں فلسطین کی تقسیم کو مسترد کیا گیا۔

ان ابتدائی گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل ایک ریاست ہے اور ریاست کا ہاتھ افراد نہیں، بلکہ ریاست روک سکتی ہے، اس لیے پاکستان سمیت تمام مسلمان ملکوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ان حالات میں مسلمان ملکوں اور عوام کو چاہیے کہ وہ درج ذیل امورکا اہتمام کریں:

سب سے پہلے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع اورانابت کرکے اسی سے مدد مانگیں اور خوب دعائیں کر یں، کیوں کہ وہی مسلمانوں کا حقیقی حامی وناصر اور معین ومددگار ہے۔ارشادخداوندی ہے: ’’فتح تو کسی اور کی طرف سے نہیں ،صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جو مکمل اقتدار کا بھی مالک ہے اورتمام تر حکمتوں کا بھی مالک‘‘۔(سورۂ آل عمران126) اسی سورت کی ایک سو پچاسویں آیت میں ہے : (یہ لوگ تمہارے خیرخواہ نہیں ہیں)بلکہ اللہ تمہاراحامی وناصر ہے اور وہ بہترین مددگار ہے۔ یہ بھی ارشاد ہے کہ: " اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔" (سورۂ آل عمران :160) تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان جب آسمانی طاقت ساتھ لے کر چلے ہیں تو بڑی بڑی طاقتیں ان کے سامنے خاک کے گھروندے ثابت ہوئے۔

اسرائیل طاقت ور سہی ،مگر خدا سے زیادہ طاقتور نہیں اور اس کی طاقت یہی ہے کہ مٹھی بھر جماعت نے اس کی دھاک خاک میں ملادی ہے، وہ شدید رسوا اور ذلیل ہوا ہے،اس کی ہیبت زائل ہوچکی ہے، اس پر لرزہ طاری ہے اور حواس باختہ ہوچکا ہے۔ چند دنوں کی جھڑپوں میں اس نے شدید جانی، مالی اور عسکری نقصان اٹھایا ہے ، اب وہ نہ سکونت کے لیے محفوظ رہاہے اورنہ ہی سرمایہ کاری کے لیے قابلِ اعتماد ٹھہرا ہے،اس کے ریڈاروں، کیمروں، سینسروں، مضبوط دیواروں، آہنی باڑوں اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود مجاہدین اسے ناکوں چنے چبوارہے ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے"اور تم ان کافر دشمنوں کا پیچھا کرنے میں کمزوری نہ دکھاؤ، اور تم ہی بلند (غالب) رہو گے اگر تم مؤمن ہو، اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو ان کو بھی اس طرح تکلیف پہنچی ہے جیسے تمہیں پہنچی ہے اور تم اللہ سے اس بات کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں اور اللہ علم کا بھی مالک ہے اور حکمت کا بھی مالک۔" (سورۂ نساء 104) (جاری ہے)