• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر اسلامی رسومات، سفید پوش والدین پر بھاری بوجھ

ہوش رُبا منہگائی کے اس دَور میں ایک عام آدمی کے لیے باعزّت انداز سے اپنے اہلِ خانہ کی ضروریات پوری کرنا کس قدر دشوار ہوچُکا ہے، اس کا اندازہ صرف وہی افراد لگا سکتے ہیں، جو ان حالات سے گزر رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب افراطِ زر پر قابو پانا حکومت کے بس سے بھی باہر دکھائی دیتا ہے۔ 

لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے غیر ضروری اخراجات کنٹرول کرکے اپنی اور مُلک کی مشکلات کم کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک طویل عرصے تک ہندوئوں کے ساتھ رہنے کے سبب مسلمانوں کی بُودوباش اور رسومات میں بھی ہندووانہ رنگ وانداز شامل ہو گئے ہیں، جن میں سرفہرست شادی کی مختلف رسومات ہیں، جن پر بے دریغ رقم خرچ کر کے ہم خود اپنے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے خاندان اور معاشرتی دبائو کی وجہ سے ہم انفرادی طور پر ان رسومات سے نجات حاصل کر سکے اور نہ ہی ان کے خاتمے کے لیے اجتماعی طور پر کوئی مؤثر اقدامات کیے گئے۔

دینِ اسلام زندگی کے دیگر معاملات کی طرح شادی بیاہ کے ضمن میں بھی سادگی کا درس دیتا ہے، جب کہ آج نمودونمایش اور ریاکاری کے سبب متوسّط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کے لیے اپنی بچّیوں کو باعزّت طریقے سے رُخصت کرنا دُوبھر ہو گیا ہے۔ 

دَورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق ایک لڑکی کی شادی کے لیےعموماً 20سے 25لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں اور اس رقم کا بندوبست کرتے کرتے بے چارے والدین کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور اگر کسی کی دوتین بیٹیا ں ہوں ،تو پھر وہ تو عُمر بھر گھن چکر ہی بنے رہتے ہیں ، جب کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کا جمِ غفیر بارات کی صُورت شادی میں شرکت کرتا ہے، کھاتا پیتا ہے اور باتیں بنا کر رخصت ہو جاتا ہے اور لڑکی کے والدین کو اپنی عزّت ووقار کی خاطر کسی اچّھے سے شادی لان یا بینکوئٹ میں سیکڑوں افراد کے لیے مختلف النّوع ڈِشز پر مشتمل کھانے پینے کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اس مَد میں لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، جس کا بندوبست عام طور پر لڑکی کے والدین اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لُٹاکے یا بھاری قرض لے کر کرتے ہیں۔ 

حالاں کہ اسلامی تعلیمات کی رُو سے شادی کے تمام اخراجات کی ذمّے داری لڑکے اور اُس کے والدین پر عاید ہوتی ہے، کیوں کہ شادی کے نتیجے میں اُن کا گھر آباد ہوتا ہے، جب کہ لڑکی کے والدین تو صرف اپنے فرض سے سُبک دوش ہوتے ہیں، لیکن اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں لڑکی کے والدین کو بیٹی کے جُدائی کے غم کے ساتھ جہیز، کھانے وغیرہ کے اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔

سُنّت ِ نبوی ؐکی رُو سے نکاح مسجد میں ہونا چاہیے، مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہم نے یہ عمل بھی تقریباً ترک کر دیا ہے۔ پھر اگر کچھ لوگ اپنے بچّوں کے نکاح مساجد میں کرواتے بھی ہیں، تو شادی کی دیگر رسومات میں ساری کسر نکال دیتے ہیں۔لہٰذا، ہوش رُبا منہگائی کے اس دَور میں حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ عام افراد کو شادی بیاہ کی غیر ضروری رسومات اور مالی بوجھ سے نجات دلانے کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز احکامات کی صورت فوری طور پر نافذ العمل کرے:

1۔ بارات اور ولیمے کی تقریب میں ایک سو سے زاید افراد شرکت نہ کریں۔

2۔ بارات اور ولیمے کی تقریب میں ایک نمکین اور ایک میٹھی ڈِش رکھی جائے۔

3۔ منہدی کی تقریب شادی ہال کی بہ جائے گھر کے اندر منعقد کی جائے۔

مذکورہ بالا احکامات کے نفاذ سے حکومت پر تو کوئی مالی بوجھ نہیں پڑے گا، لیکن اپنی بیٹیوں کی شادی کے سلسلے میں پریشان سفید پوش والدین کو ضرور تسکین ملے گی اور حُکم رانوں کو اللہ کی طرف سے اس کا اجر بھی ملے گا۔ ہمیں یاد ہے کہ سابق صدر، ایّوب خان کے دَورِ حکومت میں بھی شادی کی تقریب میں 100سے زاید افراد کی شرکت اور کھانے پر پابندی عاید تھی۔ علاوہ ازیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ مذکورہ بالا احکامات پر عمل نہ کرنے والے افراد کے لیے سخت سزائیں مقرّر کرے۔ 

اس ضمن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں پر کڑی نظر رکھی جائے اور اگر کوئی سرکاری عُہدے دار اس سلسلے میں کسی قسم کی رعایت برتے، تو اس کے خلاف بھی سخت ایکشن لیا جائے۔ اُمید ہے کہ ہمارے حُکم ران، بالخصوص سندھ کی نگراں حکومت ہماری ان گزارشات پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور فوری و انقلابی اقدامات اُٹھا کر عام افراد کی عزتِ نفس کا تحفّط یقینی بنائے گی، جو منہگائی کے مارے والدین کے لیے حکومت کی طرف سے ایک ’’ اَن مول تحفہ ‘‘ہوگا۔ (مضمون نگار،سابق سربراہ، کے ڈی اے ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید