مولانا نعمان نعیم
فلسطین کے مظلوم مسلمانوں ، حما س سے اظہار یکجہتی اور قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ سے تعلق تمام مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کا حصہ ہے۔اہل فلسطین کی جرأت و عزیمت کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ غزہ میں مسلسل بمباری جاری ہے جس میں ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے،تاحال لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں، لیکن نام نہاد امن پسند دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔
ایسی کسمپرسی کے عالم میں ’ہم کیا کریں، اس وقت ہمارے کرنے کے کئی کام ہیں۔ پہلا کام تو یہ ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان فلسطین کے نہتے مسلمانوں کے ساتھ اپنی ہم آہنگی اور تعاون کا اظہار کریں، تاکہ انہیں یہ محسوس ہو کہ اس مسئلے میں ہم اکیلے نہیں ہیں، بلکہ پورا عالم اسلام ہمارے ساتھ ہے۔ آج کی دنیا رائے عامہ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کی عادی ہے ،اس لیے تمام دنیا کے مسلمان اور خاص طور سے برصغیر اور خصوصاً پاکستان کے مسلمان فلسطین اور اہل فلسطین کی حمایت میں اپنی آواز کو بلند کریں اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کریں۔
سلامتی ہو غزہ کے ان مجاہدین پر ، جنہوں نے اپنے لہو سے اسلام کے شجر طوبیٰ کو سینچنے کا عزم کر رکھا ہے ، صد ہزار رحمتیں ہوں ان شہدائے راہِ حق پر ، جنھوں نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ دین حق کی سرخروئی کے لئے نچھاور کردیا ہے ، لاکھوں سلامِ شوق پہنچے ان معصوم نونہالوں پر جنھوں نے اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی معصوم جانوں کا نذرانہ پیش کردیا ہے ۔— بارِ الٰہا ! اپنے ان مظلوم بندوں پر رحم فرما ، جن سے مغرب و مشرق کی عداوت صرف اس لئے ہے کہ وہ تیرے پاک نام سے نسبت رکھتے ہیں ،اور پروردگار ! ہلاک و برباد فرما ، ان شقی و بدبخت قوتوں کو ، جو بے قصور انسانوں پر ظلم ڈھارہے ہیں ، یا اس میں مددگار ہیں !!
سوال یہ ہے کہ جو مسلمان اپنے ان مظلوم اور نہتے بھائیوں کی اخلاقی مدد کرنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتے ، انھیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے؟ رسول اللہ ﷺنے ایک اُصول بیان فرمادیا ہے ، جب تم میں سے کوئی شخص کسی برائی کو دیکھے تو اول اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے ، اگر اس پر قادر نہ ہو تو زبان سے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو دل سے ، یعنی دل سے برا سمجھے ، اور دل میں یہ ارادہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ جب بھی قدرت دے گا ، وہ اُسے روکنے کی کوشش کرے گا ، (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر: ۴۳۴) — ظلم و جور سے بڑھ کر کوئی منکَر اور بُرائی نہیں، یہ تو دنیا میں شرک سے بھی بڑھ کر ہے، کیوں کہ دنیوی احکام کی حد تک شرک کو گوارا کیا جاسکتا ہے ، لیکن ظلم ایسی بُرائی ہے، کہ وہ کسی طور پرقابل قبول نہیں ، کفر و شرک بھی ایسا جرم نہیں کہ جو شخص پہلے سے اس عقیدے پر ہو ، اُسے قتل کرنا جائز ہو ، لیکن اگر کوئی شخص کسی کا مال لے لے، کسی کی عزت و آبر وپر حملہ آور ہو ، یاکسی کو قتل کر دے تو وہ ضرور لائقِ سزا ہے ، پس ظلم سب سے بڑی بُرائی ہے اوراپنی طاقت وصلاحیت بھر اس کی مخالفت واجب ہے۔مخالفت اور ناراضی کے اظہار کا ایک طریقہ ترک تعلق بھی ہے اور ظالموں کے ساتھ ترک تعلق کی تعلیم خود قرآن مجید نے دی ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست رکھے گا ، وہ ان ہی میں سے ہوگا ، بے شک اللہ ظلم شعار لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔ (سورۃالمائدہ: ۵۱)
اس آیت میں ایک جامع لفظ ’’دوست نہ بنانے‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے ، یہ ایک معنی خیز تعبیر ہے ، جس میں قلب و نگاہ کی محبت ، فکر و نظر میں تاثر ، سماجی زندگی کی مماثلت اور مالی معاملات و تعلقات سب شامل ہیں ، یہ کوئی شدت پر مبنی حکم نہیں ہے ، بلکہ ظلم کے خلاف ناراضی کے اظہار کا ایک طریقہ ہے ، اس آیت کے اخیر میں ظالموں کا تذکرہ کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ جو یہود و نصاریٰ ظلم و جور پر کمر بستہ ہوں ، مسلمانوں کے لئے اپنی طاقت وقدرت کے مطابق ان سے بے تعلقی برتنا اور ان کا مقاطعہ کرنا واجب ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع پر اس حکم کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، ارشاد ہے : بے شک، اللہ تم لوگوں کو ا ن لوگوں سے تعلق رکھنے سے منع فرماتا ہے ، جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ، تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی اور جو ان سے تعلق رکھیں ، وہ بھی ظالم ہیں ۔ (سورۃالممتحنہ: ۹)
گھروں سے نکالنا ، محض دین کی بناءپر آمادۂ قتل وقتال ہونا اور جو لوگ مسلمانوں کے شہروں اور آبادیوں کو ویران کرنے پر تلے ہوئے ہوں ، ان کو مدد پہنچا نا ، یہ وہ اوصاف ہیں جن کے حامل بد طینت یہودیوں اور نصرانیوں سے بے تعلقی برتنے کا حکم دیا گیا ہے ، غور کیجئے کہ کیا آج غیرمسلم طاقتیں ان جرائم کی مرتکب نہیں ہیں ؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان ممالک کی جفا کاریوں اور ستم انگیزیوں کی وجہ سے افغانستان کے مسلمان بڑی ابتلاؤں سے گزرے۔
کیا یہ اس ظالم اسرائیل کے ناصر و مددگار نہیں ہیں ، جو آئے دن بے قصور فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کرتے ہیں ؟ اور جنھوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے مادر وطن میں رہنے کے حق سے بھی محروم کر دیا ہے ؟ قرآن نے جن یہود و نصاریٰ سے بے تعلق ہونے اور رشتۂ محبت کاٹ لینے کا حکم دیا ہے ، ان مغربی طاقتوں میں ان میں سے کون سی بات نہیں پائی جاتی ؟ پھر کیا ایسے اعدائے دین سے بے تعلقی واجب نہ ہوگی ؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ تعالیٰ تمہیں ان غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف سے نہیں روکتا ، جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہ کی ہو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو ، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (سورۃالممتحنہ:)
جو غیر مسلم انصاف کی روش پر قائم ہوں ، وہ ہمارے انسانی بھائی ہیں اورہمارے برادرانہ سلوک اور حسن اخلاق کے مستحق ہیں اوران کے ساتھ زیادتی کسی طور جائز نہیں — بے تعلقی کاحکم ان لوگوں سے ہے ، جنھوں نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جارحانہ اور نامنصفانہ روش اختیار کر رکھی ہو ، یہ سمجھنا کہ کسی خاص شخص کی حوالگی یا کسی خاص مطالبے کی تکمیل مغربی طاقتوں کو مطمئن کر دے گی اور اسلام کے خلاف بغض و عناد کی جو آگ ان کے سینوں میں سلگی ہوئی ہے، اسے بجھانے میں کامیاب ہوجائے گی ، محض ایک طفلانہ خیال ہے ، اس عناد کا اصل نشانہ اسلامی فکر و عقیدہ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور مسلمانوں کا قبلۂ اول مسجد ِاقصیٰ ہے، قرآن نے یہود و نصاریٰ کی نفسیات اور ان کے اندرونی جذبات کی خوب ترجمانی کی ہے اور یہ بات جس قدر رسول اللہ ﷺکے عہد میں مبنی بر واقعہ تھی ، اسی قدر آج بھی ہے :یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک راضی ہو ہی نہیں سکتے ، جب تک آپ ان کے دین کے پیرو نہ ہو جائیں ، آپ کہہ دیجئے کہ ہدایت تو وہ ہے جو اللہ کی ہے ، اگر آپ علم حاصل ہونے کے بعد بھی ان کی خواہشات کی پیروی کرنے لگیں تو آپ کے لئے اللہ کے مقابلے میں کوئی حامی و مددگار نہ ہوگا ۔(سورۃالبقرہ: ۱۲۰)
قرآن نے اس میں یہود و نصاریٰ کے اندرونی جذبات کو کھول کر رکھ دیا ہے اورخلافت ِعثمانیہ کے سقوط سے اب تک عالم اسلام میں جو جنگیں ہوئی ہیں ، وہ سب اس کے واضح شواہد ہیں ، اس لئے جب تک (نعوذباللہ)مسلمان اپنے مذہبی تشخص اور اپنے ثقافتی امتیازات کو خیر باد نہ کہہ دیں ، مسجد ِاقصیٰ سے اور اپنے مقدسات سے دستبردار نہ ہوجائیں ، اور پوری طرح مغربی فکر اور مغربی ثقافت کے سامنے جبین تسلیم خم نہ کردیں ، ان کی تشفی نہیں ہو سکتی اور انشاء اللہ مسلمان کبھی اس کے لئے تیار نہیں ہوں گے ؛ اس لئے کہ وہ دین کے لئے سب کچھ کھونے کو ’’پانا‘‘ اور اللہ کی راہ میں رگِ گلو کٹانے کو ’’جینا‘‘ تصور کرتے ہیں اور یہ ان کے ایمان وعقیدہ کا حصہ ہے !
اس پس منظر میں ہم مسلمان قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ ملک کی رائے عامہ کو حقیقت پسند بنائیں اور انھیں حقیقی صورتِ حال کا ادراک کرنے میں مدد دیں ،اس کے ساتھ ساتھ ہم غارت گر غیر مسلموں کی تجارتی اشیاء کا بائیکاٹ کریں ، یہ منکَر پر ناراضی کے اظہار اور ظالم سے بے تعلقی برتنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے اور شرعاً بہ حیثیت مسلمان ہم اس بات کے مکلف ہیں کہ اس سلسلے میں جو طریقہ اختیار کرنا ہمارے لئے ممکن ہو ، ہم اس سے دریغ نہ کریں ، بعض حضرات کہتے ہیں کہ صرف مسلمانوں کے بائیکاٹ کرنے سے ان کا کیا نقصان ہوگا ؟ یہ درست نہیں ہے ، اول تو اگر مسلم ممالک بھی اس بائیکاٹ میں شامل ہوجائیں تو اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے ، دوسرے : مسئلہ ان کو نقصان پہنچنے اور پہنچنے کا نہیں ہے ، بلکہ اپنی طرف سے اظہار ِناراضی کا ہے۔
غرض کہ یہ انسانی فریضہ ہے ، یہ شرعی ذمہ داری ہے اور حمیت ِایمانی اورغیرت اسلامی للکار کر ہم سے پوچھ رہی ہے کہ کیا ہم اس کے لئے بھی تیار نہیں ہیں ؟ اسی کے ساتھ ساتھ ہم سب کے سب مل کر بارگاہ الٰہی میں دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ قدس کے باشندوں کی حفاظت فرمائے، انہیں ان کا چھینا ہوا وقار واپس دلائے، مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے نرغے سے نکلنے کے اسباب پیدا فرمائے۔