• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

(گزشتہ سے پیوستہ)

موجودہ حالات میں مسلمان ممالک جب تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتے ، اس وقت تک ایک عام مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مؤمنانہ صفا ت سے اپنے آپ کو موصوف رکھے، تمام گناہوں خصوصاً ان گناہوں سے اجتناب کرے جن کی وجہ سے نہ صرف نصرتِ الٰہی رک جاتی ہے، بلکہ خدا کا عذا ب نازل ہوتا ہے۔

دعا کا ہتھیار ہر مسلمان کے پاس ہے اور اس کے لیے فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ،مؤمن کی آہ سحرگاہی اور نالۂ نیم شبی میں خدا تعالیٰ نے بڑی تاثیر رکھی ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے دشمنوں (کے ظلم و ستم) سے تمہیں نجات دے اور تمہیں بھرپور روزی دلائے، وہ عمل یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دن رات دعا کیا کرو، کیوں کہ دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔" ( مسند ابی یعلیٰ،مسند جابر ، حدیث نمبر 1812)

حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "دعا ان حوادثات اور مصائب سے بھی چھٹکارا دلاتی ہے جو حوادثات اور مصائب نازل ہوچکے ہیں اور ان سے بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہٰذا اللہ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو۔" (مستدرک حاکم ، کتاب الدعاء ، حدیث نمبر 1815)

پھر وہ دعا جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں کی جائے وہ تو جلد قبول ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:"بے شک جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو غائب کی غائب کے لیے ہو۔" یعنی کسی کی غیر موجودگی میں اس کے حق میں دعا کی جائے۔(سنن ابی داؤد،باب الدعاء بظھر الغیب، حدیث نمبر1537)

دعا کے ساتھ ان کی مالی اوراخلاقی مدد کرنا ہے۔اصل اعانت تو وہ ہے جس کانقشہ مسلمان سپہ سالار طارق بن زیاد نے پیش کیا تھا کہ جب ایک عیسائی حکمران راڈرک نے اپنے گورنر کی معصوم بچی سے زیادتی کی اور اس گورنر نے اپنے ہمسایہ اور ہم منصب مسلمان گورنر موسیٰ بن نصیر کو مدد کے لیے خط لکھا اور جواب میں طارق بن زیاد نے اسپین کو فتح کرکے اسے امن کا گہوارہ بنادیا،اصل اعانت وہ ہے جس کا مظاہرہ حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمدبن قاسم کو یہاں بھیج کرکیاتھا۔

آج مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے ترجمان اسی کی دہائیاں دے رہے ہیں اور اللہ کا کلام مسلمانوں سے اسی کا طالب ہے۔ارشاد ہوتا ہے: "اور اے مسلمانو، تمہارے پاس کیاجواز ہےکہ اللہ کے راستے میں اوران بے بس مردوں،عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کررہے ہیں کہ :اے ہمارے پروردگار!ہمیں اس بستی سے نکال لائیے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیداکردیجیے، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجیے۔" (سورۂ نساء آیت 75)مدد کاحق اسی طریقے سے اداہوسکتا ہے ،لیکن اگراس طرح ممکن نہیں ہے تو ان کی مالی مدد واعانت ضرور کرنی چاہیے، مسلمان اہلِ ثروت کے پاس یہ جہاد بالمال کا سنہرا موقع ہے۔

اس کے ساتھ ان حالات میں چند اور امور کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔اہل علم کو چاہیے کہ عام مسلمانوں کو فلسطین کی تاریخی، مذہبی اور سیاسی اہمیت سے آگاہ کریں۔ فلسطین کا قضیہ حقیقت میں کیا ہے اور مسلمانوں کواس بارے میں حساس ہونے کی ضرورت کیوں ہے، اس بارے میں نوجوان نسل کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے۔ یہود کے جرائم اورنفسیات کیا ہیں اور قرآنِ کریم کی سب سے بڑی سورت میں ان کو کیوں برائی کا منبع، اس کا مصدر اورموجد قرار دیا گیا ہے ،موجودہ دور میں اسرائیل،امریکا اور یورپ کا گٹھ جوڑکیوں ہے۔ جنگ اور جہاد میں کیا فرق ہے اورحماس اپنی موجودہ روش میں کیوں حق پر ہے۔ ان حقائق سے نئی نسل کو روشناس کرانا چاہیے۔

جو لوگ میڈیا سے وابستہ ہیں یا کم از کم سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جھوٹی خبروں اور غیر مصدقہ اطلاعات کوآگے نہ بڑھائیں، بلکہ دشمن کے پروپیگنڈے کو بے نقاب کریں۔زمانہ جنگ میں دشمن کا وطیرہ رہا ہے کہ افواہوں کا بازار گرم کردیتا ہے،ا س لیے چوکنا اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے،منافقین نے تہمت کے لیے زمانہ جنگ ہی کا انتخاب کیا تھا اور بعد کی تاریخ میں بھی زمانہ جنگ میں ہی مسلمانوں کی طرف بے سروپا باتیں منسوب کی گئی ہیں۔

آخر میں اپنے مسلمان رہنماؤں سے کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا بھر کے مسلمان عوام میں ایمان وخلوص اور جوش وجذبہ پایا جاتا ہے، یہ جذبات ہماری طاقت ہیں اور برسر اقتدار طبقہ چاہے تو ان جذبات کو درست موقع پر درست انداز سے کام میں لاسکتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ محیرالعقول کارنامے انجام دیے جاسکتے ہیں جن سے دیگر قومیں محروم ہوچکی ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی وناصر ہو!