جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن صاحب سے پی ٹی آئی کے وفد کی ملاقات کو ”ایک پیغام“ قراردیا جارہاہے۔یہ ملاقات اس باعث بھی موضوع سخن بن گئی کہ جہاں ایک طرف پی ٹی آئی کے وفد میں شامل راہ نما اسے محض تعزیتی ملاقات قراردے رہے ہیں ،وہیں یہی رہنمانہ صرف زیر بحث نشست میں سیاسی تبادلہ خیال کا ذکر کرتے ہیں بلکہ اس سے بڑے سیاسی بریک تھرو کاتاثر بھی دے رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے راہ نما سینیٹرسیف کا کہنا ہےکہ جب سیاست دان ملتے ہیں تو وہ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ یہ دونوں جماعتوں کے درمیان پہلا رسمی رابطہ ہے، ان کا مزیدکہنایہ ہے کہ جے یو آئی(ف) کے سربراہ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ ”نامناسب“ ہے ۔یہ محاورہ تو سیاست کے دروبام نے بارہا سنا کہ کل کے حریف آج کے حلیف اور آج کے حلیف کل کے حریف ہوسکتے ہیں۔پھر پاکستانی سیاست کی ڈکشنری میں تودرحقیقت کوئی حرف آخر نہیں !!لیکن ایک عرصے سے جے یو آئی اور پی ٹی آئی میں بعدالمشرقین رہا ہےاورجس طرح کے ناپسندیدہ اور تحیرانگیزالزامات لگائے جاتے رہے ہیں تواس سبب اس سلسلہ جنبانی پرایک جہاں بقول غالب یہ کہنے پر مجبور ہے ”حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں“ ۔
مزید برآں جیوکے پروگرام میں سینیٹرسیف کا یہ کہنا کہ سیاست میں صرف مفادکو دیکھا جاتاہے ،اس امر کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ پاکستان میں جس اصولی سیاست کا حوالہ دیا جاتاہے وہ دراصل بے اصولی کا جامہ زیب تن کئے ہوئے ہے ۔اس ملاقات کا منشاومقصد سیاسی طور پر باہم مل جانا نظر نہیں آتا بلکہ کسی کو ”پیغام“دینا مقصودہے ،پی ٹی آئی جہاں جانتی ہے کہ اس ملاقات کا اصل فائدہ اُسے ملنے کے امکانات کم ترہیں توجے یو آئی بدرجہ اتم یہ سمجھتی ہے کہ اس سے کسی تک یہ پیغام جائیگا کہ اُنہیں نظراندازکرنے پر وہ کس حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ماضی کی طرح آج بھی ان جماعتوں کے تضادات نمایاں ہیں ،ملاقات کے چند روز بعد ہی جہاں یہ کہا گیا کہ مولانا صاحب کی امامت کو قبول کرلیا گیا، وہاں سینیٹر سیف نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ہم ایساکہنے والے ” نمونوں“ کو جواب دینا بھی اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں !!سوال یہ ہے کہ بالفرض محال اگر پی ٹی آئی حضرت مولانا کو امام قبول بھی کرلے تو کیا مولانا صاحب اُس جماعت پر دستِ شفقت رکھ لینگے جس کےمتعلق اُن کےدیگر فرمودات توتھے ہی،لیکن اس جماعت کے قائد جب بطور وزیراعظم امریکا گئے اور اس کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 ختم کیا،تو مولانا صاحب نے واشگاف اعلان کیا تھا کہ موصوف نے کشمیر بیچ دیا!
گمان یہ ہے کہ جے یو آئی کسی بھی طور پی ٹی آئی کو بیچ منجدھارسے نکالنے کی خواہاں نہیں ،حضرت مولاناپاکستانی سیاست کو جتناسمجھتے ہیں ،کوئی خال خال ہی سمجھتا ہوگا۔پاکستانی سیاست کے رزم وبزم عجائبات لئے ہوئے ہے۔
یہاں اگرجمہوریت روزاول تا ہنوز پابہ جولاں ہے ،تو اسکی بڑی وجہ یہاں جمہوریت کو اگر پنپنے نہ دینا ہے تو اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ قیام پاکستان تاامروز موقع پرست سیاست قومی وملی مفاد پر حاوی رہی ہے۔ جہاں اگر ق لیگ ،پیٹریاٹ جیسی جماعتیں تشکیل دیدی جاتی ہیں تو بڑی جماعتیں اقتدارکے سنگھاسن سے بوسہ زن ہونے کیلئے الکٹیبلز یعنی اُن لوٹوں کیلئے بھی اپنی جماعت کے در وا کردیتی ہیں جنہوں نے ان کی کمر میں چھرا گھونپا ہوتاہے ۔پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں مزے لوٹنے والے یہ جانتے ہوئے کہ پی ٹی آئی کی راہ سرِدست سیاہ ہے،اپنے روشن مستقبل کی خاطر اگر ایک طرف دوسری جماعتوں میں جارہے ہیں تودوسری طرف اُنہوں نے نئی جماعت بھی تخلیق کرلی ہے۔اس جماعت کے پلیٹ فارم سے وہ پس دیوارِ زندان عمران خان پر تبرا بھی بھیج رہے ہیں اور ایسے ایسے اعلان بھی کررہے ہیں کہ فہم وادراک جس کا احاطہ کرنے سے قاصرہے۔جہانگیرترین کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کیلئےبجلی مفت کردینگے !!گویا وہ آئی ایم ایف ،جس سے معاہدے پر پی ٹی آئی نے خود کو مجبورپایااور بجلی مہنگی کردی اور پی ڈی ایم نے معاہدے کی شرائط پر مِن وعن عمل کرتے ہوئے یہ قیمتیں آسمان پر پہنچادیں،اُس آئی ایم ایف کی ایسی تیسی کرکے جہانگیر ترین صاحب الہ دین کے کس چراغ کے طفیل ان سب مشکلات پر قابو پالیں گے ؟۔پاکستانی سیاسی آموزش گاہ اور ابن الوقت سیاستدانوں کے بدلتے رنگ وآہنگ سے متعلق ہی احسان دانش نے کہا تھا۔
نہ رہنمائوں کی مجلس میں لے چلو مجھ کو
میں بے ادب ہوں ہنسی آگئی تو کیا ہوگا!