• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاعرِ مشرق علامہ اقبال اور معاصر انسانی تناظر

اردو کے تنقیدی باب کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ جن زاویہ ہاے نگاہ، جیسے موضوعات اور جن تناظرات میں کلامِ اقبال کا مطالعہ کیا گیا ہے، بلاشبہ اردو کے کسی دوسرے شاعر کا نہیں ہوا۔ یقینا اس کا سبب اقبال کے حرفِ سخن اور اس کے معجزۂ فن کی نمود ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود آج بھی اگر کوئی اک ذرا توجہ سے شعر و فکرِ اقبال پر نگاہ ڈالے تو اُسے کچھ ایسے نکات بہرحال فراہم ہوجاتے ہیں جو اس کی تفہیم کے نئے پہلو اجاگر کرتے ہیں۔ اس میں کہیں عصرِ حاضر کے افکار و نظریات سیاق فراہم کرتے ہیں تو کہیں تہذیب و تمدن کے تصورات۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کی شاعری اور افکار آج بھی اپنے مطالعے کا جواز رکھتے ہیں۔

یوں تو اسے سخنِ اقبال کی بلند اقبالی ہی کہا جائے گا کہ مختلف نظریات اور خیالات سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے اپنے زاویہ ہاے نگاہ سے اس کا مطالعہ کرنے کے بعد نہ صرف شاد کام رہتے ہیں، بلکہ اپنے فکر و خیال کی تصدیق و تائید کے لیے انھیں یہاں سے حوالے اور مثالیں بھی میسر آجاتی ہیں۔ 

چناںچہ ہم دیکھتے ہیں، وہ اہلِ مذہب ہوں یا انقلابی، قوم پرست ہوں یا سماجی و معاشی مساوات کے داعی، تہذیب کے خوگر ہوں یا آزادیِ انساں کا نعرہ لگانے والے، فطرت پسند ہوں یا خودی کے پرستار، فلسفہ و حکمت کے جویا ہوں یا لطفِ زبان و بیاں کے رسیا اقبال کے یہاں سبھی کو تسکین و طمانیت کا سامان حسبِ مراد میسر آجاتا ہے۔ 

اب یہ ایک الگ موضوعِ مطالعہ ہے کہ نگاہِ غائر سے دیکھا جائے، اس سہولت کا اہتمام اقبال نے کیا ہے یا پھر ان شارحین نے جو اقبال کا مطالعہ ادراک و بصیرت کے لیے نہیں کرتے، بلکہ ان کے اشعار کی من مانی تشریح و تفسیر سے اپنا کام چلانے کی فکر میں رہتے ہیں۔

تاہم واقعہ یہ ہے کہ بڑے تخلیق کار کے مطالعے اور افکار کی تفہیم کے جو بنیادی اصول ہیں، اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ وقت کے بدلتے ہوئے تناظر میں پیدا ہونے والے سوالوں اور انسانی صورتِ حال کے سیاق میں اس کو دیکھا جائے۔ 

اس طرح نئے عہد اور اس کے انسانی تجربہ و احساس کی دنیا سے اُس کے تعلق کی نوعیت ہی واضح نہیں ہوتی، بلکہ تہذیب و سماج کے لیے بقا اور استحکام کے حوالے سے اُس کے نکتۂ نظر کو دیکھنے اور سمجھنے کا زاویہ بھی فراہم ہوتا ہے۔ اقبال اردو کی شعری تہذیب کے ایسے ہی بنیادی تخلیق کاروں اور اہلِ دانش میں اپنی ایک خاص وضع اور اہمیت رکھتے ہیں جنھیں اس دور کے تقاضوں اور حالات و مسائل کی روشنی میں ایک بار پھر اٹھا کر دیکھا جائے۔

یہ تقاضا کتنا برمحل ہے اور اس کی نوعیت و اہمیت کیا ہے، اس کا اندازہ محض ایک بات سے کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ کہ اقبال نے اپنے شعر و سخن میں جن سیاسی افکار اور تہذیبی تصورات کو زمان و مکاں کے بدلتے ہوئے دائروں میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور ان سے جس نوع کے نتائج مرتب کیے ہیں اُن کی روشنی میں اس اکیس ویں صدی کے اوّلین رُبع میں عالمی سطح پر پیدا ہونے والی سماجی، جغرافیائی، سیاسی اور حربی تبدیلیوں کے پس منظر میں کام کرنے والے محرکات کا نہ صرف تعین ہوتا ہے بلکہ اُن کی غایت اور حقیقت کا پردہ بھی چاک ہو جاتا ہے۔

مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ اقبال کے یہاں نظریات ہیں، افکار ہیں، زمان و مکاں، تہذیب و تمدن، بقا و ارتقا، انہدام و زوال کے تصورات ہیں، تشبیہات و استعارات کا ایک وسیع نگارخانہ ہے، اسلوبیات اور لفظیات کا نظام ہے، لہجہ ہے، انداز ہے، تیور ہیں— غرضے کہ وہ سب کچھ ہے جو ایک بڑے شاعر کے یہاں ملتا ہے یا اس کی اثر آفرینی اور فسوں کاری کو قائم کرنے کے لیے درکار ہوتا ہے۔ 

یہ سب چیزیں مختلف پڑھنے والوں پر اپنے اپنے انداز اور تناسب سے اثر کرتی ہیں۔ کوئی فکر و فلسفہ کی داد دیتا ہے تو کوئی زبان و بیاں کی، کوئی لہجے کا قتیل ہوتا ہے تو کوئی گھن گرج پر فریفتہ۔ تاہم اگر آپ نتیجہ مجموعی صورت میں دیکھنا چاہیں تو بس وہ یہ نکلتا ہے کہ پڑھنے یا سننے والا اقبال کا قائل ہے۔

چناںچہ اقبال کی شاعری کا سب سے نمایاں وصف یہ نکلا کہ وہ قائل کرلیتی ہے،اگر کوئی ان کے افکار و تصورات، اسلوب و آہنگ اور مزاج و احساس کو اس طرح سمجھنا چاہتا ہے کہ اُن کے تخلیقی عمل کی کنہ تک پہنچے اور اُن کے فکری نظام اور جمالیاتی تجربے کو تہ در تہ کھول کر دیکھ سکے تو اسے لامحالہ اُس مرکز تک پہنچنا ہوگا جہاں سے یہ اکھوا پھوٹتا اور سخنِ اقبال میں رنگ و نور کی شعاعوں کی صورت ظہور کرتا ہے۔

اب ایک بات تو یہ ہے کہ اقبال جیسے ایک بڑے شاعر کا مقام و مرتبہ اور اُس کے فن کی قدر و منزلت کا تعین اُن تصورات کی تشکیل اور سوالات کے جوابات پر منحصر ہوتا ہے جو اِس جہانِ رنگ و بو میں انسان کی حیثیت اور کائنات اور خالقِ کائنات سے اُس کے رشتے کی بابت تخلیقی سطح پر اس کے یہاں اظہار پاتے ہیں۔

یہ سوالات اُس شاعر کے یہاں انسانی وجود اور اس کی روح کے رشتے، کائنات میں اس کی زندگی کی معنویت اور اس کی تقدیر کی نوعیت اور حقیقت کا تعین کرتے ہیں۔ چوںکہ ہر بڑا شاعر اپنا ایک تہذیبی سیاق رکھتا ہے، اس لیے اُس کے فن کی صورت گری کرنے والے تصورات و سوالات اسی سیاق میں مرتب ہوتے ہیں۔

اس کے عہد تک تہذیب کے سفر، اسے پیش آنے والے حالات اور آئندہ کے امکانات کا نقشہ بھی اسی سیاق میں ترتیب پاتا اور اسی سے اپنے لیے معنی اخذ کرتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اسی معنویت کے تناظر میں شاعر کے پیش کردہ تصورات و سوالات اس کی تہذیب کو ایک نئے تاریخی تناظر میں استحکام فراہم کرتے ہیں اور اس کی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بنتے ہیں۔

دوسرے وہ پہلو بھی نہایت غور طلب ہیں جس کی طرف آغاز میں اشارہ کیا گیا کہ وقت کے تغیرات کے زیرِ اثر تہذیب، سماج اور ان کے سیاسی و اخلاقی منظرنامے میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، دیکھا جائے کہ بڑے تخلیق کار کے فن اور نگارشات میں ان کی بابت کیا کوئی اشارات میسر آتے ہیں اور اگر آتے ہیں تو اُن کی نوعیت کیا ہے، وہ انسانی احوال کو سمجھنے میں کیا مدد دیتے ہیں اور شعورِ عصر کی تفہیم کا کون سا رُخ سامنے لاتے ہیں۔ یہ سب پہلو اگرچہ بڑے تخلیق کار کے یہاں اپنی تہذیب اور مظاہر و احوال کی نسبت سے بیان ہوتے ہیں، لیکن ایک وسیع دائرے میں ان کا اطلاق پوری انسانی صورتِ حال پر ہوتا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے بادی النظر میں ان تصورات اور سوالات کا متن شاعر کے تخلیقی بیانیے میں سامنے آتا ہے، یعنی وہ بہ ظاہر انفرادی شعور و احساس کا زائیدہ ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساری انفرادیت کے باوجود بڑے شاعر کی آواز کو محض ایک ذاتی یا شخصی کلامیہ نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اُس کے تخلیقی بیانیے کے پس منظر میں روحِ عصر اور تہذیبی ضمیر کی گونج بھی لازماً موجود ہوتی ہے۔ 

لہٰذا وہ جن تصورات کی تشکیل اور جن سوالات کے جوابات کی جستجو کرتا ہے، وہ ایک طرف اُس کی اپنی تہذیب کی فی نفسہٖ نقش گری کا عمل ہے جو ایک زمانی دائرے میں اُس کے لیے سامانِ بقا کی صورت میں وقوع پذیر ہوتا ہے تو دوسری طرف اس میں انسانی احوال، مسائل اور حقائق کی وہ بازگشت بھی موجود ہوتی ہے جو پوری نوعِ انسانی کی روح کی کیفیت بیان کرتی ہے۔

بنیادی اصولوں، معیارات، حقائق اور ضوابط کے حوالے سے تو بے شک تبدل کا کوئی نشان نہیں ابھرتا، لیکن دیکھا گیا ہے کہ تہذیبوں پر گزرنے والے مختلف زمانوں میں یہ عمل نہ صرف یہ کہ اپنی بقا کے مختلف مراحل میں صوری و معنوی تغیرات سے ہم کنار ہوتا رہتا ہے، بلکہ زمانے کی تبدیلی کے ساتھ اس کا لحن، اسلوب اور منہاج بھی کسی حد تک بدل جاتا ہے۔ 

اس حقیقت کا مشاہدہ و مطالعہ فارسی شاعری میں سعدی، رومی، جامی، عراقی اور حافظ کے کلام میں اور اُدھر انگریزی میں چوسر، شیکسپیئر، ملٹن، جون ڈن، ورڈز ورتھ، بائرن، ییٹس، براؤننگ اور ایلیٹ وغیرہم کے تخلیقی بیانیے میں صراحت سے کیا جاسکتا ہے۔ اس نوع کے مطالعے کے لیے اردو کی ایسی ہائر آرکی میں جن شاعروں کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے گا ان میں اب تک آخری بڑا شاعر اقبال ہے۔

ایک بڑے شاعر کا مطالعہ کرتے ہوئے ذہن کو کشادہ اور غیر متعصب رکھنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ اُس کے خیالات یا نکاتِ سخن ذرا سہولت کے ساتھ اور وسیع تناظر میں روشن ہوسکیں، لیکن اقبال کے سلسلے میں یہ ضرورت کچھ سوا ہوجاتی ہے۔ 

اس کا سبب یہ ہے کہ اقبال کے ساتھ پہلے ہی سے بہت سے سابقے اور لاحقے جوڑ لیے گئے ہیں، مثلاً حکیم الامت، شاعرِ مشرق، مصورِ قوم، روایت و تہذیب کا نقیب، انسانی اقدار کا علم بردار، مفکرِ اسلام، ترجمانِ حقیقت، مردِ خود آگاہ، پیغمبرِ حیات وغیرہ۔ اِدھر آپ اقبال کا نام لیجیے، اور اُدھر یہ سابقے لاحقے آپ کے ذہن میں آنے لگتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اقبال کا ذکر کرتے ہوئے ہماری تنقید نے ان سب کو اس طرح اور اتنی بار دُہرایا ہے کہ اب یہ اُن کے ساتھ پیوست ہو کر رہ گئے ہیں۔ بات صرف یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔

مسئلہ اس کے بعد یہ پیش آتا ہے کہ ان عنوانات کے تحت اقبال پر جو مطالعات مرتب کیے جاتے ہیں، وہ حتمی اور فیصلہ کن بیانات سے لبالب چھلکتے ہوئے ملتے ہیں اور ساتھ ہی اُن میں حوالوں اور مثالوں کا انبار بھی ہوتا ہے۔ مسئلہ پھر یہ ہوتا ہے کہ بار بار کے دیے گئے حوالوں اور دُہرائی گئی مثالوں کو ان کے معروف اور مروّجہ سیاق و سباق سے نکال کر نئے تناظر میں رکھنا اور نئی جہت اور نئے مفہوم کا تعین کرنا سہل نہیں رہتا، لیکن اگر آپ اقبال جیسے شاعر کو معمول کے ڈھرے سے ہٹ کر دیکھنا، پڑھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں تو اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ آپ اپنا context خود بنائیں اور اس کے توسط سے مطالعے کا نیا پیراڈائم قائم کریں۔

مثال کے طور پر اس نئے منظرنامے میں جو اکیس ویں صدی ہمارے سامنے لاتی ہے، آپ محض دو چیزوں کو پیشِ نظر رکھ لیجیے۔ اقبال نے کہا تھا:

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات

اکیس ویں صدی میں ٹیکنولوجی کی بے حساب اور ہوش رُبا ترقی نے ہمیں یہ صورتِ حال واضح طور پر دکھا اور سمجھا دی ہے کہ اس ترقی کے اثرات نے انسانی احساس کی دنیا میں وہ تبدیلی پیدا کی ہے جس کا اس سے پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہر طرح کی پابندی سے آزاد اس ترقی نے ان سارے معاشروں کو جن میں روایت، تہذیب، اخلاق اور سماج کی قدریں مؤثر تھیں جو نقصان پہنچایا ہے، اس کا فی الوقت درست اندازہ تک نہیں لگایا جاسکتا۔

آج ایسے سب معاشروں کی کم و بیش کایا کلپ ہوچکی ہے، ان کی بنیادیں ہل گئی ہیں اور وہ ایک ایسے انہدام سے دوچار ہیں جس کے تحت زندگی، موت، انسانی رشتے، باہمی رواداری، حلال حرام، نیک بد، سچ جھوٹ اور صغریٰ کبریٰ جیسے بنیادی تصورات بدل کر رہ گئے ہیں یا بہت تیزی سے بدلتے چلے جارہے ہیں۔ 

یہ صورتِ حال صرف پس ماندہ یا ترقی پذیر اقوام اور تہذیبوں کو درپیش نہیں ہے، بلکہ اس کی زد میں آج چین، جاپان اور جرمنی جیسے ممالک اور معاشرے بھی آئے ہوئے ہیں جو کبھی اپنی تہذیب و اقدار کے سخت پابند اور اُن پر بہت نازاں رہے ہیں۔ آج اُن کا بھی سماجی و اخلاقی نقشہ کچھ سے کچھ ہوچکا ہے۔ باہمی انسانی صورتِ حال کی نوعیت اس درجہ بدل چکی ہے کہ آج اُن چیزوں کے بارے میں رویہ ہی کچھ اور ہے جو کل تک ربطِ انسانی کا لازمہ خیال کی جاتی تھیں۔ اقبال نے کہا تھا:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر

ذرا ایک لمحے کے لیے اس رُبع صدی میں افغانستان، عراق، ایران، مصر اور شام کے بعد اب کشمیر اور فلسطین کی صورتِ حال پر نظر ڈال کر سوچیے کہ یہ جو ایک ایک کرکے اسلامی ممالک کی تباہی اور رسوائی کا منظر ابھر رہا ہے، کیا اس کا سبب استعماری قوتوں کے صرف اور صرف جغرافیائی عزائم ہیں یا ان سب اقدامات کا بنیادی مقصد کچھ اور ہے؟ جی ہاں، یقینا کچھ اور ہے۔

جنگ و جدل، سفاکی، بربریت، بے حسی اور انسانی حسیت کی نفی کے یہ سب مناظر واشگاف الفاظ میں اس امر کا اعلان کرتے ہیں کہ یہ سب کچھ محض سیاسی اور جغرافیائی حاصلات کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کے عقب میں اصل محرکات اور اہداف کچھ اور ہیں۔ سادہ سے لفظوں میں بات کی وضاحت کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس سب کا ایک مقصد اس تصور کو ہی ختم کرنا ہے جو انسان کو دنیا کی مادی اشیا سے اٹھا کر غیر مادی، لافانی اور روحانی حقائق سے جوڑتا ہے اور انسانی زندگی کے کچھ اور معنی پر بھی اصرار کرتا ہے۔

اقبال نے جس حرم کی پاسبانی کے لیے کہا ہے، اس کے مفہوم و معنی میں حرم تو خیر شامل ہے ہی، لیکن اس کے معنی اس سے آگے بھی کچھ چیزوں کا احاطہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسان کی ہستی، اس کا وجود و عدم، اس کے لیے خیر و شر اور حیات و ممات کا تصور اور یہ تصور اس کی زندگی کی معنویت کا تعین کرتا ہے۔ اقبال کی مراد یہ ہے کہ حرم کے ساتھ ساتھ ان تصورات کی حفاظت اور بقا کا بھی سامان کیا جائے جو حرم سے وابستہ ہیں۔

بحث سے گریز کرتے ہوئے یہاں صرف اس امر کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اس نئے عالمی تناظر میں اگر ہم اپنی بقا کے خواہش مند ہیں اور استحکام کی آرزو رکھتے ہیں تو ہمیں اقبال اور اس نوع کے دوسرے تخلیق کاروں، دانش وروں اور اہلِ بصیرت کو ازسرِنو پڑھنا چاہیے اور اُن کی فکر و بصیرت کے سیاق میں اپنے عہد میں انسانی زندگی کی نوعیت، معنویت اور تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنا لائحۂ عمل مرتب کرنا چاہیے۔