صلاح الدین ایوبی سے پوچھا گیا آپ کو کبھی ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ، سلطان نے تاریخی جواب دیاـ فرمایا ڈرتا ہوں کہ روز قیامت ’’اللہ تعالی‘‘ پوچھے گا بیت المقدس غیروں کے قبضے میں تھا اور تم مسکرا رہے تھے... !اللہ اکبر
وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہو ئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر ،شام ، یمن، عراق، حجازاور دیار باکر پر حکومت کی۔صلاح الدین ایوبی کو بہادری،فیاضی،حسن اخلاق،سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے۔جنہوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروالیا تھا۔یہ تاریخ کا وہ منظر ہے ،جب جولائی 1187ء میں حطین کے میدان میں سات صلیبی حکمرانوں کی متحدہ فوج کو جو مکہ اور مدینے پرقبضہ کرنے آئی تھی،ایوبی سپاہ نے عبرتناک شکست دے کر مکہ اور مدینہ کی جانب بری نظر سے دیکھنے کا انتقام لیا تھا اور اب وہ حطین سے پچیس میل دور عکرہ پر حملہ آور تھا،صلاح الدین ایوبی نے یہ فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ عکرہ صلیبیوں کا مکہ تھا ، سلطان اُسے تہہ تیغ کر کے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کا انتقام لینا چاہتاتھا، دوسرے بیت المقدس سے پہلے سلطان عکرہ پر اس لیے بھی قبضہ چاہتاتھا کہ صلیبیوں کے حوصلے پست ہو جا ئیں اور وہ جلد ہتھیار ڈال دیں ، چنانچہ اس نے مضبوط دفاع کے باوجود عکرہ پر حملہ کردیا۔اور8جولائی 1187ء کو عکرہ ایوبی افواج کے قبضے میں تھا، اس معرکے میں صلیبی انٹیلی جنس کا سربراہ ہر من بھی گرفتار ہوا،جسے فرار ہوتے ہوئے ایک کمانڈر نے گرفتار کیاتھا۔حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا۔ ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔بیت المقدس پورے 91سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا اور تمام فلسطین سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کار نامہ تھا۔اس نے مسجد اقصی میں داخل ہو کر نور الدین زنگی کا تیار کردہ منبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا۔اس طرح نور الدین کی خواہش اس کے ہاتھوں پوری ہوئی۔ صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس میں داخل ہو کر وہ مظالم نہیں کئے جواس شہر پر قبضے کے وقت عیسائی افواج نے کئے تھے ۔ صلاح الدین ایو بی ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس ہوا ۔ اس نے زر فدیہ لے کر ہر عیسائی کو امان دے دی اور جو غریب فدیہ نہیں ادا کر سکے ان کے فدیے کی رقم صلاح الدین اور اس کے بھائی ملک عادل نے خودادا کی۔بیت المقدس پر قبضہ کے ساتھ یروشلم کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوگئی جو فلسطین میں 1099ء سے قائم تھی اسکے بعد جلد ہی سارافلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔
جب بیت المقدس پر قبضہ کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جرمنی ،اٹلی ، فرانس اور انگلستان سے فوجوں پر فوجین فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ جو اپنی بہادری کی وجہ سے شیردل مشہور تھااور فرانس کا بادشاہ فلپ اپنی اپنی فوجین لے کر فلسطین پہنچے۔یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد 6لاکھ تھی یہ لشکریورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندر گاہ کا محاصرہ کر لیااگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہاعکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ایک معر کے میں دس ہزار عیسائی قتل ہوئے مگرصلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھالیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بند ی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیااور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچاسکا۔تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو عیسائیوں کے حوالے کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا ، جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا صلیب اعظم 500 عیسائی قیدیوں کی واپسی کی شرائط طے کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی۔ وہ تمام مال و اسباب لے کر شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈنے بد عہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا ۔ عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔عسقلان پہنچنے تک عیسائیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔سلطان نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔لہٰذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کردیااور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹو ں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔اس دوران سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لائو لشکر کا بڑی جرا ت اور حو صلہ سے مقابلہ کیا۔جب فتح کی کوئی امیدباقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔ اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے عیسائیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل،سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا۔جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیااور تقریباً چھ لاکھ عیسائی ان جنگوں میں کام آئے۔تیسری صلیبی جنگ میں سلطان صلاح الدین نے ثابت کردیاکہ وہ دنیا کا سب سے طاقتور ترین حکمران ہے۔مسیحیوں سے صلح ہوجانے کے بعد صلاح الدین نےعیسائیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دے دی۔
589ء میں صلاح الدین انتقال کرگیا۔ اسے شام کے موجود دارالحکومت دمشق کی مشہور زمانہ اموی مسجد کے نواح میں سپردخاک کیا گیا۔ صلاح الدین نے کل 20سال حکومت کی۔موجودہ دورکے ایک انگریز مورخ لین پول نے بھی سلطان کی تعریف کی اور لکھتاہے کہ’’اس کے ہم عصر بادشاہوں اور اس میں ایک عجیب فرق تھا۔ بادشاہوں نے اپنے جاہ جلال کے سبب عزت پائی فی زمانہ امت مسلمہ میں دور دور تک ایسے حکمران کی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔فلسطین کے موجود حالات کو دیکھتے ہوئے ایک اور ایوبی کی اشد ضرورت ہے۔