• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرزمینِ فلسطین نہایت مبارک اور محترم ہے ، یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے ، اس سرزمین پر اکثر انبیا ءؑاور رسل آئے ہیں ، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہاہوئی ، یہ آسمان کا دروازہ ہے ، یہ سرزمین محشر بھی ہے ۔۱للہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرما یا ہے ۔حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ جس سرزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے ’’بَارَکْنَا حَوْلَہُ‘‘  (سورۃالاسراء: ۱) اس سے مراد ملک شام ہے۔ 

سریانی زبان میں ’’شام ‘‘ کے معنی پاک اور سر سبز زمین کے آتے ہیں ، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کو مبارک اس لیے کہا گیا کہ یہ انبیاءؑ کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزول ملائکہ اور وحی کا مقام رہا ہے ، یہیں لوگ روزِ محشر میں جمع کیے جائیں گے ، حضرت حسن ؓاور حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے عبد اللہ بن شوذب کہتے ہیں ، اس سے مراد سرزمین فلسطین ہے ۔سرزمین فلسطین کو قرآن کریم میں پانچ مواقع پر بابرکت زمین سے مخاطب کیا گیا ہے :(ترجمہ)پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ،تاکہ ہم انھیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں ۔ بےشک، وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔(سورۂ اسراء)

(ترجمہ) اور جن لوگوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا، ہم نے انھیں اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جس پر ہم نے برکتیں نازل کی تھیں ۔اور بنی اسرائیل کے حق میں تمہارے رب کا کلمہ خیر پورا ہوا، کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا ، فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بناتی چڑھاتی رہی تھی، ،ان سب کو ہم نے ملیا میٹ کردیا۔(سورۃ الاعراف: ۱۳۷)

(ترجمہ)اور ہم نے نجات دی اسے اور لوط کواس زمین کی طرف جو (کہ) ہم نے برکت رکھی اس میں تمام جہان والوں کے لیے ۔ (سورۃالانبیاء: ۷۱)اور ہم نے تیز چلتی ہوئی ہوا کو سلیمانؑ کے تابع کردیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں اور ہمیں ہر ہر بات کا پورا پورا علم ہے۔ (سورۃ الانبیاء: ۸۱)

(ترجمہ) اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں ، ایسی بستیاں بسا رکھی تھیں جو دور سے نظر آتی تھیں ، اور ان میں سفر کو نپے تلے مرحلوں میں بانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ ان (بستیوں ) کے درمیان راتیں ہوں یا دن، امن و امان کے ساتھ سفر کرو۔( سورۃالسبا: ۱۸)

ارض مقدس سے مراد ’’ارضِ مطہر‘‘ (پاک وصاف سرزمین ) ہے ، راغب کہتے ہیں : بیت المقدس : یعنی یہ شرک وکفر کی نجاست سے پاک ہے ، زجاج کہتے ہیں : ارض مقدس سے مراد دمشق، فلسطین اور اردن کے بعض حصے ہیں، حضرت قتادہ ؓسے مروی ہے: اس سے ملک شام مراد ہے ، ابن عساکر نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کی ہے کہ ارض مقدس عریش سے فرات تک کی سرزمین کو کہتے ہیں۔ سرزمین فلسطین کو ’’ارض مقدس‘‘ صرف قرآن مجید میں ایک جگہ پر کہا گیا ہے ، اللہ عز وجل کا ارشاد گرامی ہے :اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجا ؤجو اللہ نے تمہارے واسطے لکھ دی ہے،اور اپنی پشت کے بل پیچھے نہ لوٹو، ورنہ پلٹ کر نامراد ہوجائوگے۔(سورۃ المائدہ: ۲۱)

اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو ’’سرزمین محشر‘‘ بھی فرمایا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافر لوگوں کو ان کے گھروں سے پہلے اجتماع کے موقع پر نکال دیا۔(سورۃالحشر:۲) یہاں ’’ اول حشر‘‘ سے مراد یعنی ان یہودیوں کا ملک شام میں اکٹھا ہونا ہے ، جس وقت نبی کریم ﷺ نے بنو نضیر کو سرزمین مدینہ سے جلاوطن کردیا تھا، زہری سے مروی ہے کہتے ہیں ، اول حشر کے طور پر ان کی دنیا میں جلا وطنی سرزمین شام میں ہوئی تھی، ابن زید کہتے ہیں : ’’اول حشر‘‘ سے مراد سرزمین شام ہے ۔

قرآن کریم میں کئی جگہوں پر بغیر کسی صفت کے تذکرہ کے سرزمین فلسطین کا ذکر موجود ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:اور ہم نے فیصلہ سنادیا بنی اسرائیل کو کتاب میں کہ بلا شبہ ضرور تم فساد کرو گے زمین میں دو مرتبہ اور ضرور بالضرور تم چڑھائی کرو گے بہت بڑی چڑھائی۔(سورۃالاسراء: ۴)

قرآن کریم نے بعض سرزمین فلسطین کے علاقوں کا بھی تذکرہ کیا ہے :اور مریم کے بیٹے کو اور ان کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا، اور ان دونوں کو ایک ایسی بلندی پر پناہ دی جو ایک پرسکون جگہ تھی اور جہاں صاف ستھرا پانی بہتا تھا۔(سورۃالمؤمنون:۵۰)

ابن جریر نے مرہ نہزی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہاں ’’الربوۃ‘‘ سے مراد ’’ الرملۃ‘‘ ہے ۔ ابن عساکر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں : ’ ’ ربوۃ‘‘ سے فلسطین کا علاقہ مراد ہے۔ قتادہ، کعب اور ابو العالیہ فرماتے ہیں : اس سے مراد بیت المقدس ہے۔

(ترجمہ)چنانچہ جب طالوت لشکر کے ساتھ روانہ ہوا تو اس نے (لشکر والوں سے) کہا کہ اللہ ایک دریا کے ذریعے تمہارا امتحان لینے والا ہے۔(سورۃ البقرہ : ۲۴۹)قتادہ نے ذکر کیا ہے کہ یہاں نہر سے مراد اردن اور فلسطین کے درمیان کی نہر ہے ، شوکانی نے ابن عباس ؓسے روایت کیا ہے کہ یہ نہر اردن ہے ، ابن عباسؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ اس سے مراد نہر فلسطین ہے ۔(ترجمہ) یہاں تک کہ جب وہ آئے چیونٹیوں کی وادی پر کہا ایک چیونٹی نے اے چیونٹیو تم داخل ہو جاؤ، اپنے گھروں (بلوں )میں (کہیں )ہرگزکچل نہ دیں ، تمہیں سلیمان اور اس کا لشکراس حال میں کہ وہ شعور نہ رکھتے ہوں ۔(سورۃ النمل : ۱۸)

امام رازی کہتے ہیں : اس ’’وادی النمل‘‘ سے مراد ’’وادی شام ‘‘ ہے ، جہاں چیونٹیوں کی کثرت ہوتی ہے ، یہ وادی ’’عسقلان‘‘ کے پڑوس میں واقع ہے ۔یہ سرزمین جس کے تقدس اور تبرک کا تذکرہ قرآن کریم میں بار بار آیا ہے ، جس کے مسلمانوں کے بطور وارث ہونے کا تذکرہ قرآن مجید نے کیا ہے ، یہ سرزمین مسلمانوں کے یہاں نہایت متبرک اور مقدس گردانی جاتی ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ اس مقدس اور پاک سرزمین پر ناپاک یہودی اپنے قدم جمانے اور اسے ملک اسرائیل کا دار الحکومت بنانے کے ناپاک عزائم بناچکے ہیں اور منصوبے پر عمل در آمد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، مسلمانوں کو اس کے تقدس کو سمجھنا اور اس بیت المقدس کی بازیابی کے لیے ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔

اسی کے ساتھ ساتھ ہم سب مل کر بارگاہ الٰہی میں دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ قدس کے باشندوں کی حفاظت فرمائے، انہیں ان کا چھینا ہوا وقار واپس دلائے، مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے نرغے سے نکلنے کے اسباب پیدا فرمائے۔اے اللہ، اپنے فضل و کرم سے فلسطین کے مسلمانوں کی حفاظت فرما، مسجد اقصیٰ کی حفاظت فرما، ظالموں کو ان کے ظلم سے روک دے،انہیں کیفر کردار تک پہنچا، مظلوموں کی حمایت فرما، پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کے ضمیروں کو بیدار فرمااور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی انہیں توفیق عطا فرما ۔(آمین)