• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

ہم تحصیل بازار نزد حضرت سید مٹھاؒ کے مزار مبارک کے قریب واقعے جس قدیم عمارت کا ذکر کر رہے ہیں اس تاریخی عمارت کو ہم بچپن سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ہمارا تعلق بھاٹی گیٹ میں بازار حکیماں سے ہے اور بازار حکیماں ٹبی گلی اور ہیرا منڈی کے بہت نزدیک کا علاقہ ہے چنانچہ ہمیں شاہی محلہ/ بازار حسن/ ہیرا منڈی/ چکلہ جو نام بھی دے لیں اس کی تہذیب، ثقافت، روایت اور یہاں کی تاریخی عمارات کو بہت مرتبہ قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس بازار کی تہذیب، ثقافت اور کچھ روایات سے ہم بھی آشنا ہیں۔ جو شاید کبھی بھی تحریر میں بیان کرنا ممکن نہ ہو۔دوسرے ہم بعد میں بریڈلا ہال ریٹی گن/ ٹیپ روڈ پر منتقل ہوگئے تھے۔ چنانچہ وہاں کی تمام تاریخی اور قدیم عمارات میں ہم ایک مدت تک ایسے پھرتے رہے جیسے اپنا گھر ہو۔ چنانچہ خوش قسمتی سے ہمیں لاہور کی مٹتی ہوئی تہذیب، ثقافت، روایات اور ٹوٹتی ہوئی تاریخی و قدیم عمارات کو بہت ہی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ہم جس دربار دھیان سنگھ/ مغل حویلی اور ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت والی عمارت کا ذکر کر رہے ہیں یقین کریں یہ کبھی بہت خوبصورت عمارت تھی ہم نے تو اس عمارت میں بچوں کو پڑھتے ہوئے بھی دیکھا ہے، یہ بڑا معیاری اسکول تھا۔ اندرون شہر کے بچے اس اسکول میں پڑھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اس عمارت میں 2005ء تک گورنمنٹ سٹی مسلم لیگ ہائی اسکول کی کلاسیں ہو رہی تھیں اور آج یہ عمارت بھوت بنگلہ بن چکی ہے۔ آخر کیوں ہم اس عمارت کو گرانے کے درپے ہیں۔ اس عمارت سے اورینٹل کالج کا آغاز ہوا اور یہی کالج پنجاب یونیورسٹی کے قیام کا باعث بنا۔ کچھ تاریخی حوالوں سے اس کو کبھی نیشنل اسکول/ اورینٹل اسکول بھی پہلے کہا جاتا تھا۔ بہرحال اورینٹل اسکول سےپھر اس کا نام اورینٹل کالج رکھاگیا۔ یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی، دیال سنگھ ہائی اسکول کی ابتدائی کلاسوں کا آغاز ہیرا منڈی کے علاقے میں دربار دھیان سنگھ کی حویلی سے ہوا تھا اور یہیں پر انجمن پنجاب نے ڈاکٹر لانٹنز کی رہنمائی میں اورینٹل اسکول بعد میں کالج کی تحریک شروع کی تھی۔ لاہور میں 1863ء میں ہیرا منڈی میں ایک باٹھ شالہ میں ہندی اور سنسکرت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس باٹھ شالہ کو انجمن پنجاب نے حاصل کرکے یہاں پر اردو، عربی اور فارسی کی تعلیم بھی شروع کرا دی تھی۔ یہ مدرسہ لاہور شہر کے شہریوں کی مالی امداد سے کام چلتارہا۔ پھر 1866ء میں اس مدرسہ میں کالج کی سطح پر جماعتوں کا اجرا ہوا تھا۔ اکتوبر 1866ء کو بھاٹی گیٹ ہی میں محلہ وچھووالی میں ایک ہندو مدرسے میں یہ اسکول اور کالج قائم کیا گیا۔ اسکول تو 1867ء میں بند کردیا گیا البتہ کالج کو جاری رکھا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اورینٹل کالج کی یہ ابتدائی جماعتیں بھی 1868ء میں مالی مشکلات کی بنیاد پر بند کرنا پڑیں۔ پھر 1870ء میں مشرقی علوم کے لئے اس کالج کا دوبارہ اجرا کردیا گیا۔ یہ بڑا تاریخی کالج ہے ہم کوئی چالیس برس بعد اورینٹل کالج جو کہ پنجاب یونیورسٹی کا ایک قدیم کالج ہے۔ (بلکہ اورینٹل کالج کے قیام ہی سے پنجاب یونیورسٹی کو قائم کرنے کی تحریک پیدا ہوئی تھی) وہاں گئے تو یقین کریں اس تاریخی عمارت کی شکستہ حالی اور ماضی کے مقابلے میں موجودہ تباہ حالی دیکھ کر دل بہت دکھی ہوا۔ یہ تاریخی عمارت جو مٹی گارے کی چنائی سے تعمیر کی گئی ہے ،جس کو دو سو سال یا اس سے بھی زیادہ ہونے کو آ ئے ہیں، آج سے چند برس قبل تک بہت اچھی حالت میں تھی۔ اب جگہ جگہ سے دیواروں سے مٹی نظر آ رہی تھی پلستر اکھڑ چکا تھا، وہ اورینٹل کالج جہاں پر انگریز، ہندو اور کئی نامور مسلمان پرنسپل اور اساتذہ رہے، آج زبوں حالی کا شکار ہو چکا ہے ہم بڑی دیر تک کالج کی عمارت میں رہے ایسا لگ رہا تھا کہ ہم جنگ عظیم دوم کے بعد کی کسی تباہ حال عمارت میں ہوں۔ دروازوں پر چکیں پڑی ہوئی تھیں، اندھیری راہداریاں ہیں، دروازوں کے شیشوں پر کاغذ چڑھے ہوئے ہیں،لان کے گرائونڈ میں ایک درخت ایک عرصہ سے ٹوٹا ہوا پڑا ہے۔ کمروں اور برآمدوں میں اندھیرا اور ایک عجیب قسم کا ڈپریشن والا ماحول ہے۔ جو اس کالج کی عمارت میں لال اور گرے سیمنٹ کے فرش گوروں نے بنائے تھے وہ آج بھی بہتر حال میں ہیں۔ موجودہ دور میں جو ٹائلیں لگائی گئی ہیں انتہائی بدنما اور بدصورت ہیں۔ اورینٹل کالج یا پھر پنجاب یونیورسٹی کی کسی ماضی کی انتظامیہ نے جی بھر کر عمارت کو تباہ کیا ہے۔ پوری عمارت میں کہیں بھی اس تاریخی کالج کی تاریخ یعنی ہسٹری درج نہیں۔ پھر ظلم یہ کہ اورینٹل کالج کو لا کالج یونیورسٹی کی عمارت بھی مل گئی تھی ۔ ویسے ان دونوں عمارات کا فن تعمیر ایک جیسا ہے۔ لال بڑی اینٹ کی اس عمارت کا فن تعمیر بہت ہی شاندار اور خوبصورت ہے اور لا کالج کی عمارت کا حلیہ بھی بگاڑ دیا گیا ہے۔ کسی بدذوق پرنسپل یا پھر کسی انتظامی آفیسر نے خوبصورت پالش والے دروازوں پر پینٹ کروا دیا ہے۔ آف وائٹ پینٹ نے اس تاریخی عمارت کا حسن تباہ و برباد کردیا ہے۔ آفس ریکارڈ راہداریوں میں پڑا ہے کوئی ریکارڈ کہیں پڑا ہے اور کوئی کہیں۔ کیا پنجاب یونیورسٹی اور اورینٹل کالج کی انتظامیہ کسی غیر ملکی وفد کو اپنا یہ تاریخی کالج دکھاسکتی ہے؟ عزیز قارئین! سچ پوچھیے تو اس کالج کی اس تاریخی عمارت کو دیکھ کر بہت دکھ اور افسوس ہوا۔ لگتا ہے کہ کالج کے پرنسپل اور پنجاب یونیورسٹی کے کسی وائس چانسلر نے بھول کر بھی اس تاریخی عمارت کا دورہ نہیں کیا حالانکہ اس ادارے کے پرنسپل تو روزانہ ہی آتے ہیں پھر ایسی کوتاہی سمجھ سے باہر ہے۔ ہم جس وقت اس قدیم اور تاریخی کالج میں پہنچے غالباً اس وقت وہاں کسی تقریب کے بعد کھانا دیا جا رہا تھا، طلبا اور اساتذہ کو بھی جس انداز میں کھانا کھاتے دیکھا ایسا لگتا تھا کہ کسی میلے میں بھنڈارہ تقسیم ہو رہا ہو۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین