(گزشتہ سے پیوستہ)
دو رائے نہیں کہ عمران کے پاس غیر معمولی صلاحیتیں اور صفات ہیں ۔ پہلا وصف ،عمران نہ صرف دلیر ہے بلکہ دیدہ دلیری کا تڑکا بھی ہے ۔ بد قسمتی کہ سیاست میں نامساعد حالات یا بحرانی کیفیت سے نبردآزما ہونے کیلئے جو تدبر ، تدبیر ، فکر ، فہم چاہیے تھا ، وہ خانہ یکسر خالی ہے ۔ اگرچہ 25 اپریل 1996 میں ،ایجرٹن روڈ لاہور کے معروف ہوٹل میں ایک کنونشن نما پریس کانفرنس کے ذریعہ پاکستان تحریک انصاف کی باقاعدہ لانچنگ ہوئی۔ ہکا بکا کرنے کیلئے یہی کافی ہے کہ 26 اپریل تک جو افراد ملوث تھے ان میں سے ایک بندہ بھی آج تحریک انصاف سے وابستہ نہیں۔ تنظیمی ابتری کی ترتیب ، تنظیم سازی سے پہلے ہی اپنی دھاک بٹھا چکی تھی ۔ذکر ضروری کہ آج تحریک انصاف کا بڑا بحران تنظیمی ہے۔ ایسے میں کچھ حقائق و واقعات کا اجمالاً ذکر کئے بغیر مستقبل کا تعین کرنا ممکن نہیں ۔ یوم پیدائش سے پہلے چندماہ تک تو پارٹی کا جنرل سیکریٹری تک نہ بن سکا ۔ آنیوالے کئی سال تک جنرل سیکریٹری اور صوبائی تنظیموں کے اہم عہدوں پر نامزد گیاں ضرور ہوئیں ، فراوانی سے عہدیدار بدلتے رہے ۔ وجہ صاف ظاہر ، عمران کو ادراک ہی نہ تھا کہ سیاسی پارٹی کس بلا کا نام ہے؟ ۔
ایک انتہائی اہم بات ، آج 30 نومبرہے ، پچھلے 24 سال جب سے عمران کو نیا نیا سیاسی بخار چڑھا تھا،پورے سیاسی کیرئیر میں فقط ایک بھی ایسا سیاسی فیصلہ نہ کر پائے جو باعث ندامت یا ناکام نہ رہا ہو ۔ اپنے ہر سیاسی فیصلےپر غلطی کا اعتراف بھی کیا اور مانا کہ ’’ہاں ! مجھے یہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘ ، بعد از خرابی بسیار ، وطنی سیاست کو اپنی گرفت میں رکھنے والے عمران کے سیاسی فیصلے بد قسمتی سے اسکی اپنی سیاست کیلئے آج بھی سوہان روح ہیں ۔
دوسرا نتخابی دور ! تحریک انصاف کے پہلے باقاعدہ انتخاب 2002میں ہوئے ۔ لاہور کے ایک شادی ہال میں بمشکل 2/3سو افراد جمع ہوپائے، باقاعدہ ممبر شپ کا رواج تھا نہیں، جو کوئی بھی وہاں موجود تھا ، قومی اور صوبائی قیادت کا حقدار ٹھہرا۔ بد قسمتی 2002کے انتخابات کے نتیجہ میں بھی جو عہدیدار سامنے آئے ، ان میں آج شاید ہی کوئی قرب و جوار میں موجود ہو۔ البتہ آفرین ، حامد خان، پہلے سینئر وائس چیئرمین، نجیب ہارون ، فردوس نقوی آج بھی موجود ۔ پارٹی میں جب گنتی کے لوگ تھے تو بھی اندرونی تنظیمی لڑائیاں جھگڑے ، انتشار خلفشار پارٹی کی وجہ شہرت بنا ۔ الیکشن 2002 سے الیکشن 2008 کا زمانہ بہت ہی دلچسپ ، نواز شریف اور بینظیر غیر موجود ، افغانستان پر امریکی یلغار، عمران نے امریکہ مخالف مقبول موقف اپنایا تو میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا،سارا عرصہ ٹی وی پر چھائے رہے۔ بکھری یا بکھیڑوں میں پھنسی پارٹی تنظیم پر توجہ نہ پہلے دی تھی نہ اس دوران دے پائے ۔ بلکہ یوں کہیں کہ عمران کےاندر تنظیمی معاملات بارے ایک بے اعتنائی اور اکتاہٹ تھی ۔ 14 نومبر 2007 کو جب پہلی دفعہ گرفتار ہوئے تو پارٹی پر ایک کڑا امتحان آیا ۔ نبرد آزما ہونے میںناکام رہے۔اسی دوران ایک دلچسپ واقعہ ، 18 نومبر کو عمران کے گھر پورے پاکستان سے پارٹی قائدین کو اکٹھا کیا۔ میں نے ان تک عمران کا جیل سے لایا پیغام پہنچانا تھا ۔ دو درجن کے قریب چنیدہ رہنما تشریف لائے ۔ ابھی میٹنگ شروع ہوا چاہتی تھی کہ قائدین کی تُو تکار سے بات ہاتھا پائی تک جا پہنچی ۔ راولپنڈی سے عمران کے ایک قریبی ساتھی اور معتمدِ خاص نے تحریک انصاف کے ایک بہت بڑے لیڈر ( آجکل بہت بڑے حکومتی عہدے پر ہیں ) پر حملہ کر دیا ۔ بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کراکے میٹنگ برخاست کرنا پڑی ۔ اپنے تئیں عمران کی بیچارگی پر ترس آیا ۔
تیسرا انتخابی دور !تحریک انصاف جب انتہائی محدود اور مختصر تھی تو بھی منتشر تھی ۔ 2011میں جب پارٹی ایک نئی مقبولیت سے متعارف ہوئی ۔ عمران کو پارٹی منظم کرنے اور سنجیدہ تنظیم سازی کا پہلی دفعہ اُبال آیا ۔ 2012میں عجیب الخلقت الیکشن کرانے کی ٹھانی ، اس فیصلہ پر میری اور عمران کی ٹھن گئی ۔ بخوبی جانتا تھا جن خطوط پر انٹرا پارٹی الیکشن کروانا چاہتے تھے ، اس سے پارٹی نے مزید تتر بتر ہونا تھا ۔ تفصیل برطرف ، تباہی کا جو نقشہ کھینچا تھا ، من و عن وہی کچھ سامنے آیا ۔ 2013 کا انٹرا پارٹی الیکشن آج بھی انصافی سیاست کیلئے ایک ڈرائونا خواب ہے، 2013 کا ملکی الیکشن ہارنے کی بڑی وجہ ، پارٹی انتخابات ہی بنے ۔ 2013 کے الیکشن کو درست کرنے کیلئے، چند سال بعد دوبارہ پارٹی الیکشن کی ٹھانی تو وہ بھی سعی لاحاصل رہی ۔ بالآخر دوبارہ سے نامزدگیاں ہی کرنا پڑیں ۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی الیکشن کا سوچا تب بھی ناکام رہے ۔ تب سے راوی چین لکھ رہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے چین چھین لیا۔
چوتھا انتخابی دور !آج جبکہ پارٹی الیکشن میں جا رہی ہے، عمران خود جیل میں ہیں ۔ الیکشن لڑنے سے قاصر ہیں ۔ جیل جانے سے مہینوں پہلے، بجائے اسکے قیادت شاہ محمود قریشی سینئر وائس چیئرمین کو منتقل ہو جاتی۔ چند من پسند بندوں کو اجتماعی قیادت سونپی اور مراد سعید کو اپنا سیاسی وارث بنا نے کا عندیہ دے ڈالا۔
تنگ آمد بجنگ آمد، آج جب الیکشن کمیشن نے انتخاب کروانے پر مجبور کیا تو جن لوگوں کو قیادت کیلئے سامنے لایا گیا، انکی پارٹی اندر مدت ملازمت ڈیڑھ سال سے کم ہے۔ حامد خان، نجیب ہارون اور فردوس نقوی جیسے پرانے لوگ بھی دم بخود ہیں کہ ایسا بہیمانہ فیصلہ کیوں کر ڈالا۔ ستم ظریفی اسٹیبلشمنٹ نے جب چاہا اپنی شرائط پر عمران کو استعمال میں رکھا۔ آج نہ چاہتے ہوئے بھی پھر سے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ جو امیدوار سامنے لایا گیا اور جن کے ذریعے لایا گیا، قطع نظر یہ سارے افراد میں نووارد ہیں، پچھلی دہائیوں سے اسٹیبلشمنٹ کے منظور بھی ہیں (بعینہ عثمان بزدار) عمران سے وفاداری میں، استواری کی شرائط سے کوسوں دور۔ خدشہ ہے کہ آج کے پارٹی الیکشن، تحریک انصاف کے بکھرنے کا باقاعدہ رسمی آغاز ہی بنیں گے۔