• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سونے کے نرخ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں سُن کر ہی عام آدمی کی نیند اُڑ جاتی ہے۔ تادمِ تحریر ملک میں چوبیس قیراط کےفی تولہ سونےکابھاؤ دو لاکھ سترہ ہزار چار سو روپے اور دس گرام سونےکا ایک لاکھ چھیاسی ہزار 385روپے تک جا پہنچا ہے۔دنیا بھر میں پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے سونے میں سرمایہ کاری کا رجحان بڑھا ہے۔ پاکستان میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ان ہی حالات کی وجہ سے کچھ عرصے سے اس دھات کے نرخوں میں کافی اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آرہا ہے۔

منافع بخش سرمایہ کاری

چند برسوں میں اس قیمتی دھات کے نرخوں میں بہت تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ برس کے دوسرے نصف میں فی تولہ سونے کی قیمت 135000 سے 140000 روپے تھی جو دسمبر میں 165000 تک پہنچ گئی تھی۔ سونے کی قیمت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ اس کی طلب میں اضافہ ہے اور اس کے ساتھ روپے کی قدر میں کمی نے بھی قیمت میں اضافہ کیا۔ سونے کی قیمت عالمی سطح پر بین الاقوامی مارکیٹ اور ڈالر کے ریٹ سے منسلک ہے۔ اس وقت ملک میں سونے کی قیمت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ڈالر کی شرح تبادلہ ہے۔

کچھ عرصہ قبل ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے سبب سونے کی قیمت پینتالیس دنوں کے مختصر عرصے میں40ہزار روپے فی تولہ اضافے سے جنوری 2023کے آخر تک دو لاکھ ساڑھے 10ہزار روپے تک پہنچ گئی تھی۔پاکستانی کرنسی کی قدر کو گرتا دیکھ کر پہلے لوگوں نے ڈالر میں سرمایہ کاری شروع کی،پھر جب غیرملکی کرنسی مارکیٹ سے غائب ہوئی تو سونا خریدنے لگے۔ تاہم عالمی مارکیٹ میں 2022 کے دوران سونے کی قیمت کم و بیش مستحکم رہی۔

ایک تحقیق کے مطابق 2022 کے دوران سونے میں سرمایہ کاری دیگر تمام شعبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ منافع بخش ثابت ہوئی۔ 2022میں سونے کی قیمت41فی صد اضافے کے ساتھ ایک لاکھ 8 ہزار 200 روپے فی 10 گرام سے بڑھ کر ایک لاکھ52ہزار700 ہوگئی تھی۔ 2021 میں سونے کی قیمت میں 11فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔بلیک مارکیٹ میں ڈالر کے بڑھتے ہوئے نرخ کے مطابق مقامی صرافہ مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ ہو۔ان حالات میں ملک میں سونا سرکاری قیمت کے بجائے بلیک مارکیٹ کے نرخوں کے مطابق فروخت ہوتارہا۔

تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان میں گزشتہ برس جولائی سے ستمبر کے مہینوں میں سونے کی طلب میں تیس فی صد سے زاید اضافہ دیکھا گیا۔ملک میں منہگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے سونے کے زیورات کی طلب میں کمی دیکھی گئی ہے، تاہم دوسری جانب سونے کے بسکٹوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے ملک میں سونے کی قیمت میں حالیہ مہینوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیاجو ملکی تاریخ میں سونے کی قیمت کی بلند ترین سطح ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں سونا اسٹاک مارکیٹ، فارن کرنسی اور جائیدادکے ساتھ سرمایہ کاری کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور سونے کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ اس میں زیادہ سرمایہ کاری ہے جسےمحفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتاہے۔ اس وقت اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہے اور زمین کی قیمتیں بھی جمود کا شکار ہیں۔ ملک کو اس وقت فارن کرنسی یعنی ڈالر کی شدید قلت کا سامنا ہے اور ملکی درآمدات کے لیے بھی اس وقت ڈالرز دست یاب نہیں۔ دوسری جانب حکومت کی جانب سے فارن کرنسی کی خریداری پر سختی کر دی گئی ہے اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری پر حد بھی مقرر کر دی گئی ہے۔ ایسے میں سونے میں سرمایہ کاری بڑھ گئی ہے۔

دست یاب اقسام

سونے کا شمار قیمتی دھاتوں میں ہوتا ہے ۔ بنیادی طور پر سونے کی ایک ہی قسم ہوتی جسے انگریزی میں 24 کیرٹ اور عربی میں24 قیراط کہا جاتا ہے۔ اردو میں اسے خالص سونا یا پانسے کا سونا کہا جاتا ہے۔ضرورت کے مطابق اس میں ملاوٹ کرکے اس کاکیرٹ کم کردیا جاتا ہے جس سے اس کی مختلف اقسام وجود میں آجاتی ہیں۔ پاکستان اور دنیا کے بیش تر ممالک کی منڈیوں میں خالص سونادو شکلوں میں دست یاب ہے۔

1- بسکٹ یا پیس والا سونا

جب یہ قیمتی دھات بسکٹ کی شکل میں ڈھال دی جاتی ہے تو اسےعرف عام میں پیس یا بسکٹ کا سونا کہا جاتا ہے۔ یہ وہ سونا ہے جو کان سے نکلنے کے بعد کسی ریفائنری میں صفائی کے بعد مارکیٹ میں بھیجا جاتا ہے یا بڑی بڑی نام ور کمپنیز پرانے سونے کو صاف کرکے اپنی مخصوص مہر کے ساتھ مارکیٹ میں بیچتی ہیں۔ ان میں ملکہ الزبتھ کی تصویر والا پیس سوئس گولڈ سب سے زیادہ مشہور اور قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ 

یہ صرف مخصوص اوزان میں ہی دست یاب ہوتا ہے(جن میں ایک اونس، پچاس گرام اور دس تولے والے بسکٹ زیادہ معروف ہیں)۔ ان پر متعلقہ کمپنی کی جانب سے سیریل نمبر بھی کندہ کیا جاتا ہے۔اس مہر کو مٹا دیا جائے یا اس کے ٹکڑے کردیئے جائیں تو یہ سونا سونے کی دوسری قسم(جسے تیزابی یا پٹھور کہا جاتاہے) میں چلا جاتا ہے۔ سونے کی اس قسم کا استعمال سونے کوبہ طور اثاثہ محفوظ کرنے یا بین الاقوامی زرتبادلہ اور زرمبادلہ کےلیے کیا جاتاہے۔ ٹی وی، اخبار اور خبروں میں آپ سونے کاجو بھاؤ سنتے ہیں وہ اسی سونے کا ہوتا ہے۔

2-پٹھور یا تیزابی سونا

سونے کی دوسری قسم کو پٹھور یا تیزابی سونا کہا جاتا ہے۔یہ بھی خالص سونا ہی ہوتا ہے لیکن نہ تو یہ کسی مخصوص وزن کی ڈلی ہوتی ہے اور نہ ہی اس پہ کسی بڑی کمپنی یا عالمی ادارے کی مہر ہوتی ہے۔ یہ ایسا سونا ہوتا ہے جو سنار پرانے زیورات کو پگھلا کر اس کا نکھار کرنے کے بعد اس میں سے خالص سونا اور ملاوٹ الگ کردیتے ہیں۔ عموما یہی سونا زیورات بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یہ سونا بسکٹ والے سونے سے سستا ہوتا ہے۔

کیرٹ یا قیراط

سونے اور چاندی کے خالص ہونے کو قیراط کے پیمانے سے ناپتے ہیں۔ خالص ترین سونا اور چاندی 24 قیراط ہوتے ہے۔سونے کے قیراط کم کرنے کا سادہ سا طریقہ مثال کے ساتھ درج ذیل ہے:

گیارہ ماشے خالص سونا+ایک ماشہ ملاوٹ=ایک تولہ سونا 22 کیرٹ/قیراط۔

ساڑھےدس ماشے خالص سونا+ ڈیڑھ ماشہ ملاوٹ=ایک تولہ سونا 21 کیرٹ/قیراط۔

دس ماشے خالص سونا+دوماشہ ملاوٹ= ایک تولہ سونا 20 کیرٹ/قیراط۔

نو ماشے خالص سونا+تین ماشے ملاوٹ=ایک تولہ سونا 18 کیرٹ/قیراط۔

ملاوٹ کے لیے تانبہ، چاندی یا کسی دوسری دھات یا مختلف دھاتوں کے مرکب کا ضرورت کے مطابق استعمال کیا جاتا ہے۔چاندی کے کیرٹ کم کرنے کا بھی یہی کلیہ ہے۔

قیراط، کمیت (وزن) کے پیمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھروں کا وزن عام طور پر قیراط میں ناپا جاتا ہے۔ ایک قیراط 200 ملی گرام یعنی 0.007,055 اونس یا 3.086 گرین کےبرابر ہوتا ہے۔ بیرونی ممالک میں سونے پرکیرٹ نمبر لکھے ہوتے ہیں، جبکہ یہاں ایسا نہیں ہوتا، سنار جتنے کیرٹ کا کہہ کرفروخت کرنا چاہیں، فروخت کرتے ہیں۔

دنیا میں کُل کتنا سونا ہے؟

سونا چھ ہزار برسوں سے نکالا جا رہا ہے۔ذرا تصور کریں کہ آپ کسی طریقے سے دنیا میں موجود تمام سونا حاصل کر کے اسے پگھلا کر ایک مکعب کی شکل دینا چاہتے ہیں۔ اس مکعب کے اطراف کی لمبائی کتنی ہو گی؟ سیکڑوں میٹر؟ ہزاروں؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مکعب کا حجم آپ کے اندازے سے کہیں کم ہوگا۔ وارن بفٹ کا شمار دنیا کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں تمام سونا اکٹھا کرنے سے ایسا مکعب بنے گا جس کے اطراف صرف 20 میٹر لمبے ہوں گے۔ 

یعنی یہ ایک کنال سے کم رقبے میں سما جائے گا۔لیکن بفٹ کو اس تمام سونے کی مقدار کیسے معلوم ہوئی؟ایسا ٹامسن روئٹرز جی ایف ایم ایس نامی ادارے کی مدد سے ممکن ہوسکا۔ یہ ادارہ دنیا بھر کے سونے کا حساب رکھتا ہے۔بعض اندازوں کے مطابق یہ مقدار 155,244 سے لے کر 25 لاکھ ٹن تک ہو سکتی ہے۔ موخرالذکر مقدار سے بنایا گیا مکعب فٹ بال کےنصف میدان کو مکمل طور پر ڈھانپ لے گا۔

چھ ہزار برس قدیم تاریخ

سونے کو بہت طویل عرصے سے زمین سے نکالا جا رہا ہے۔سونے کے تاریخ دان ٹموتھی گرین کے مطابق یہ سلسلہ چھ ہزار برس سے جاری ہے۔دنیا میں سونے کے سکّے سب سے پہلے 550 قبل مسیح میں موجودہ ترکی کے بادشاہ کروئسوس کے دور میں ڈھالے گئے تھے۔ بہت جلد بحیرۂ روم کے گرد و نواح میں تاجروں اور کرائے کے سپاہیوں کے لیے سونا معاوضے کی ادائیگی کا تسلیم شدہ ذریعہ بن گیا۔

جی ایف ایم ایس کا تخمینہ ہے کہ 1492 تک دنیا بھر میں 12780 ٹن سونا نکالا جا چکا تھا۔ تاہم سونے کے سرمایہ کار جیمز ٹرک کا خیال ہے کہ پرانے زمانے میں کان کنی کے طریقے زیادہ ترقی یافتہ نہیں تھے۔ ان کا خیال ہے کہ اصل میں اس وقت تک صرف 297 ٹن سونا ہی نکالا گیا تھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا میں155244ٹن سے زاید سونا موجود ہے ۔ تاہم ایسے ماہرین بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ اندازے غلط ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ فرعون، توتخ آمن کا تابوت ڈیڑھ ٹن سونے سے بنا ہوا تھا۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ ان دوسرے مقبروں میں کتنا سونا ہوگا جنہیں لوگوں نے دریافت ہونے سے پہلے ہی لوٹ لیا تھا۔ ایک خیال یہ ہے کہ چین اس بات کا اعلان نہیں کرتا کہ وہ کتنا سونا نکال رہا ہے۔ اسی طرح کولمبیا اور اس طرح کے دیگر ممالک میں غیرقانونی کھدائی بھی ہوتی ہے۔

ایک اور ادارہ گولڈ اسٹینڈرڈ انسٹی ٹیوٹ ہے جو سونے کی مقدار کا تخمینہ پیش کرتا ہے۔ اس ادارے کے ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے بینک لاکر اور جیولری بکس خالی کر دیں، توکُل حاصل ہونے والے سونے کی مقدار 25 لاکھ ٹن سے کم نہیں ہو گی۔ تاہم ادارہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کے پاس ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں۔ تو پھر کون صحیح ہے اور کون غلط؟ اصل میں یہ سب محض اندازے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ سب غلط ہوں۔

وہ تمام سونا جو تاریخ کی ابتدا سے اب تک نکالا گیا ہے وہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ کے پاس سونے کی گھڑی ہے تو ممکن ہے کہ اس کے اندر موجود سونے کو دو ہزار سال قبل رومیوں نے زمین سے نکالا ہو۔ لیکن اچھی خبر یہ ہے کہ زمین میں سے سونا جلد ختم ہونے والا نہیں ہے۔ امریکی ارضیاتی سروے کا خیال ہے کہ اب بھی زمین میں 52000 ٹن سونا موجود ہے جسے دریافت کیا جا سکتا ہے۔ تاہم بری خبر یہ ہے کہ ہم جس طرح سونے کو استعمال کرتے آئے ہیں وہ طریقہ بدل رہا ہے۔ اس سے پہلے جو سونا نکالا جاتا تھا وہ شکلیں بدلتا رہتا تھا،لیکن کبھی ضائع نہیں ہوتا تھا۔

جیمز ٹرک کہتے ہیں کہ وہ تمام سونا جو تاریخ کی ابتدا سے اب تک نکالا گیا ہے آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ تاہم جدید دور میں سونے کو صنعت میں مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانوی ارضیاتی سروے کے مطابق حالیہ سونے کی کل پیداوار کا 12 فی صد صنعت میں کھپ جاتا ہے، جہاں اسے مختلف مصنوعات میں اس قدر قلیل مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے کہ اسے دوبارہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے کہ تاریخ میں پہلی بار سوناخرچ ہو رہا ہے۔

سونا اور بھارت

کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے مقابلے میں بھارت میں سب سے زیادہ سونا استعمال کیا جاتا ہے۔بھارت میں ہندو دیوی، لکشمی کی سونے کی مورت کو مبارک سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندو دیوی دیوتاؤں اور مندروں کو سونے سے سجایا جاتا ہے اور شادی بیاہ میں تحفے میں دیا جاتا ہے۔

سونے کے ایک بھارتی تاجر مہتا کا کہنا ہے کہ بھارت میں 18 ہزار ٹن سونا ہے اور اس کا دو تہائی حصہ گاؤں میں ہے۔ ایسے لاکھوں افراد جن کے پاس کسی بینک میں اکاؤنٹ نہیں ہیں، ان کے لیے سونے میں سرمایہ کاری ایک اچھا راستہ ہے۔ بھارت میں عام خیال یہ ہے کہ سونا سونا ہوتا ہے اور اس کا کوئی بدل نہیں۔ اسی لیے منہگائی کے باوجود لوگ قطاروں میں لگ کر اسے خریدتے ہیں۔

دی ورلڈ کولڈ کاؤنسل کے تخمینے کے مطابق بھارت میں شادیوں کے سبب دنیا بھر میں سونے کی آدھی مانگ اس ملک میں ہوتی ہے۔یہ روایتی کشش ہی لوگوں کے سونے میں سرمایہ کاری کرنے کا سبب ہے اور شہری و دیہی حلقوں کے تمام طبقے کے لوگ اپنی بساط کے مطابق اس میں پیسہ لگاتےہیں۔

دنیا کے ایک تہائی زیوارت کی مانگ بھارت میں ہے اور یہی اسے دنیا کا سونے کا سب سے بڑا بازار بناتا ہے۔ زیورات کے ساتھ بہت سے لوگ سونے کے سکے اور اینٹیں خریدتے ہیں کیوں کہ نیکلس اور چوڑیوں کے مقابلے میں انہیں فروخت کرنا آ‎سان ہوتا ہے۔

سائنسی حقائق

دوری جدول (پیریاڈک ٹیبل) میں سونا واحد عنصر ہے جسے انسان نے ہمیشہ کرنسی کے طور پر استعمال کرنے کو ترجیح دی ہے۔ انسان کی سونے سے رغبت بہت عجیب و غریب ہے۔ کیمیائی طور پر یہ بہت غیر دل چسپ دھات ہے اور دوسرے عنصر کے ساتھ کم ہی ردِعمل دکھاتی ہے ۔ مگر ایسا کیوں ہے؟ دیگر عناصر، مثلاً اوسموسیم، کرومیم یا ہیلیم یا سیبورگیم کی اتنی قدر کیوں نہیں ہے؟ سونے کی کام یابی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ناقابلِ یقین حد تک خوب صورت ہے۔

سونا اور چاندی، دونوں دھاتیں کم پائی جاتی ہیں مگر انتہائی کم یاب نہیں ہیں اور دونوں کا پگھلنے کا درجۂ حرارت کم ہے، اس لیے انہیں آسانی سے زیورات اور سکّوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم چاندی ہوا میں سلفر کے ساتھ تعامل کرتی ہے جس کی وجہ سے اسے زنگ لگ جاتا ہے۔ اب باقی بچا سونا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سونا اس لیے قیمتی ہے کیوں کہ یہ کیمیائی طور پر انتہائی غیر دل چسپ دھات ہے۔ سونے کا کمال یہ ہے کہ اگر آپ اس سے کوئی شئے بنائیں توایک ہزار سال بعد بھی وہ بہترین حالت میں مل سکتی ہے۔

مگر سونے کو یہ تمام خصوصیات ہی ممتاز نہیں کرتیں، بلکہ اس میں ایک اور خصوصیت ہے جو اسے دوسرے عناصر سے ممتاز بناتی ہے۔ وہ ہے اس کا سنہرا رنگ۔ پھر بھی سونے کو اب کیوں کرنسی کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا؟سونے میں یہ خوبی ہے کہ اس کا پگھلاؤ کا نقطہ بہت کم ہے جس سے اسے زیورات اور سکّوں میں ڈھالا جا سکتا ہے۔1973میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے امریکی ڈالر کا سونے سے تعلق ختم کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔ نکسن کے اس فیصلے کے پیچھے ایک ہی سادہ وجہ کارفرما تھی ۔وہ یہ تھی کہ امریکا کے پاس ضروری سونا ختم ہونا شروع ہو گیا تھا جو اسے ڈالر چھاپنے کے لیے زرِ ضمانت کے طور پر رکھنا ہوتا تھا۔

سولہویں صدی میں جنوبی افریقا کی دریافت اور پھر جنوبی افریقا میں سونے کے وسیع ذخائر کی دریافت سے سونے کی مالیت میں بہت کمی واقع ہوئی اور ہر دوسری چیز منہگی ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ اتار چڑھاؤ کسی مثالی کرنسی کی نشانی نہیں ہے۔شاید اسی لیے سر ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ تمام عناصر میں سے سونا بدترین کرنسی ہے۔

پاکستان میں سونے کے ذخائر

پاکستان کے اس وقت کے وزیر پیٹرولیم سید نوید قمر نے 2013میں ایوان بالا سینیٹ کو بتایا تھا کہ پاکستان میں تیرہ سو انتالیس اعشاریہ پچیس ٹن سونے اور ستّرٹن سے زیادہ چاندی کے ذخائر موجود ہیں۔وقفہ سوالات کے دوران نجمہ حمید کے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا تھاکہ بلوچستان کے شمال مغربی ضلع چاغی میں سیندک اور رِیکو دِک فیلڈز میں یہ ذخائر موجود ہیں۔ لیکن یہ معلوم نہیں کہ سب سے بڑی فیلڈ ریکو دک میں چاندی کے ذخائر ہیں یا نہیں۔ سیندک کی کان میں ساڑھے تریسٹھ ٹن سونا اور ستر اعشاریہ انسٹھ ٹن چاندی کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ جبکہ ریکو دک کی کان میں بارہ سو پچھہتر ٹن سونے کے ذخائر ہیں۔

انہوں نے بتایاتھا کہ دو ہزار پانچ سے دو ہزار نو تک پانچ برسوں میں پونے آٹھ ٹن سے زیادہ سونا اور سوا گیارہ ٹن سے زیادہ چاندی نکالی جا چکی تھی اور ریکو دک کی کان سے ابھی پیداوار شروع نہیں ہوئی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ریکو ڈک سے چھپن برس تک چھ لاکھ ٹن سالانہ نکالے جانے والے مواد سے دو لاکھ ٹن تانبا اور ڈھائی لاکھ اونس سونا نکلنے کی امید ہے۔

سونے کے کچھ اعداد و شمار

دنیا بھر میں سونے کی سالانہ کھپت 3722 ٹن ہے۔پہلے بھارت سونے کا سب سے بڑا خریدار بتایاجاتا تھا اور دنیا بھر کی سالانہ پیداوار کا 35 فیصد خرید لیتا تھا۔لیکن اب چین سب سے بڑا خریدار ہے کیوں کہ چینی عوام پر سونا رکھنے کے ضمن میں 1950 میں لگائی گئی پابندی2003میں ختم کر دی گئی تھی۔2011میں چین نے اس سے پہلے والے سال کے مقابلے میں20فی صد زیادہ یعنی 769.8 ٹن سونا خریدا تھاجب کہ بھارت نے 7 فی صد کم، یعنی 933.4 ٹن سونا خریدا تھا۔

دنیا میں سب سے زیادہ سونا چین کی کانوں سے نکلتا ہے۔دنیا بھر کی سالانہ پیداوار کا 63 فی صدحصہ زیورات بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ 2011تک مجموعی طور پر 165,000 ٹن سونا انسان بازیاب کر چکا تھا جس کی کل قیمت 9150 ارب ڈالر (بہ حساب 1725 ڈالر فی اونس) تھی۔

سالانہ پیداوار کی وجہ سے ہر سال سونے کے عالمی ذخیرے میں1.5فی صد کا اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر گھنٹے میں بننے والے اسٹیل کی مقدار دنیا بھر میں موجود سونے کی مقدار سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس سارے سونے کا 85 فی صد 1900 کے بعد اور 50 فی صد 1950 کے بعد بازیاب کیا گیا۔ دنیا کا سارا سونا اگر دنیا کی کل آبادی میں تقسیم کیا جائے تو ہر آدمی کو 24 گرام (یعنی دو تولے سے زیادہ) سوناملےگا۔دنیا کا سارا سونا صرف 20 مکعب میٹر کی جگہ میں سما سکتا ہے۔ اگر یہ سارا سونا ایک ہزار گز کے پلاٹ پر رکھا جائے تو بننے والے مکعب نما کی بلندی 33.5 فیٹ ہو گی۔

دنیا بھر کی حکومتوں کی تحویل میں 2011تک مجموعی طور پر30ہزار ٹن سونا تھا۔ امریکی حکومت کے پاس8133 ٹن، آئی ایم ایف کے پاس 3005ٹن اوربھارت کی حکومت کے پاس557.7ٹن سونا تھا ۔2009میں بھارت کی حکومت نے آئی ایم ایف سے 200ٹن سونا6.7ارب ڈالرز میں خریدا تھا۔2011 میں میکسیکو کی حکومت نے 100 ٹن سونا چار ارب ڈالر میں خریدا۔ نومبر 2012میں جنوبی کوریا کے مرکزی بینک نے 14 ٹن سونا 78 کروڑ ڈالر میں خریدا تھا۔ اب اس کے پاس 84.4 ٹن سونا ہے جسکی مالیت پونے چار ارب ڈالر ہے۔ صرف دیڑھ سال میں جنوبی کوریا نے اپنے سونے کے ذخیرے کو 6 گنا کر لیا تھا۔

کہاجاتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ سونا بھارت کے لوگوں کے پاس ہے۔ ایک اندازےکے مطابق بھارتی عوام کے پاس16000ٹن سےزایدسونا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی حکومت کے پاس 64ٹن سے زاید سونا ہے۔ 2001 میں پاکستان کے عوام نے 119 ٹن سونا خریداتھا۔ بھارتی اوسطاً 22 ارب ڈالر کا سونا سالانہ خریدتے ہیں۔ عوام میں طلب بڑھنے کی وجہ سے صرف مئی 2011 میں بھارتیوں نے 9 ارب ڈالر کا سونا خریداتھا۔ چین نے اکتوبر 2011 میں ہانگ کانگ کے ذریعے 85.7 ٹن سونا خریدا تھا۔ 

یہ مقدار اس سے پچھلے سال کے اکتوبر کےمہینے سے 40 گنا زیادہ تھی۔ نومبر میں چین نے مزید 102.8 ٹن سونا خریداتھا۔ امریکی ریاست اٹاہ نے2011میں ایک نیا قانون منظور کیا تھا جس کے مطابق سونا اور چاندی موجودہ قیمت پر لین دین کے لیے رقم کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ 

یہ ڈالر پر عدم اعتماد کا مظہر تھا۔2012میں دنیا بھر کے مرکزی بینکس نے534.6ٹن سونا خریدا۔ ان کی طرف سے اتنا سوناپچھلے58برسوں میں نہیں خریدا گیا تھا ۔اس میں چین کے مرکزی بینک کی خریداری شامل نہیں ہے۔ روس کے مرکزی بینک نے دس برسوں میں570 ٹن سونا خریدا۔2012تک پونے تین سالوں میں سینٹرل بینکس نے 1100 ٹن سونا خریدا۔اس سے پہلے کے تین سالوں میں انہوں نے 1143 ٹن سونا بیچا تھا۔ 2012تک چین کے عوام نےپانچ سالوں میں 4800ٹن سونا سکّوں اور بسکٹس کی شکل میں خریداتھا۔

دنیا بھر میں سونے میں سرمایہ کاری کا لگ بھگ 80 فی صد حقیقی سونے کی شکل میں ہےاور20فی صد کاغذی سونے، یعنی ای ٹی ایف کی شکل میں ہے۔ 2012 میں الیکٹرانک انڈسٹری نے 428.2 ٹن سونا استعمال کیا تھا۔ 2011میں بھارت نے 969 ٹن سونا درآمد اور 2012 میں 860 ٹن برآمد کیا تھا۔

دنیا کے مختلف ملکوں کے پاس سونے کے ذخائر کے لحاظ سے امریکا سر فہرست ہے جس کے پاس 8000 ٹن سے زاید سونے کے ذخائر ہیں۔ورلڈ گولڈ کونسل کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے دس سب سے زیادہ سونے کے ذخائر رکھنے والوں کے پاس دنیا بھر کے سونے کا تین چوتھائی حصہ ہے۔پاکستان کے پاس سونے کے ذخائر 64 ٹن ہیں ۔ اس کے مقابلے میں پڑوسی ملک بھارت کے پاس 703 ٹن سونے کے ذخائر ہیں جو کسی ملک کے سینٹرل یاا سٹیٹ بینک کے ذخائر کا حصہ ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے سینٹرل بینکس کے ریزروز کئی اقسام کے ہوتے ہیں جن میں سونے کے علاوہ دیگر غیر ملکی کرنسیاں وغیرہ بھی شامل ہوتی ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کی سونے سے رغبت بہت عجیب و غریب ہے۔ پیریاڈک ٹیبل میں سونا واحد عنصر ہے جسے ہم انسانوں نے طویل عرصے تک کرنسی کے طور پر استعمال کرنے کو ترجیح دی ہے۔اگرچہ آج اسے کرنسی کا درجہ حاصل نہیں، پھر بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں اسے بیچ کرمقامی کرنسی اور ڈالرز، پونڈز وغیرہ حاصل کیے جا سکتے ہیں۔