سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کے اپنے حالیہ فیصلے کو معطل کردیا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بنچ نے 9مئی کے واقعات کے حوالے سے ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ایک ہی دن کیس سن کر نہ صرف 9مئی کے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا تھا بلکہ آرمی ایکٹ کی دہائیوں پرانی متعلقہ قانونی شقوں کو بھی اُڑا دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ شقیں غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں۔ اُس پانچ رکنی بنچ میں صرف ایک جج صاحب جسٹس یحییٰ آفریدی نے اگرچہ9مئی کے ملزمان کے ٹرائل کے خلاف فیصلہ دیا تھا لیکن اُنہوں نے قانون کی متعلقہ شقوں کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دینے کی مخالفت کی تھی۔اُس فیصلہ کو اگرچہ ایک طرف تحریک انصاف، سول سوسائٹی اور میڈیا کی طرف سے سراہا گیا لیکن وفاقی و صوبائی حکومتوں اوربالخصوص فوج کی طرف سے بہت منفی انداز میں دیکھا گیا اور اسی بنیاد پر اُس فیصلہ کے خلاف اپیلیں دائر کی گئیں، جنہیں بروز بدھ سپریم کورٹ میں سنا گیا۔ ایک عمومی اعتراض سپریم کورٹ کے پہلے فیصلےپریہ اُٹھایا گیا کہ ایک انتہائی اہم معاملہ کو ایک ہی دن بغیر متعلقہ پارٹیوں کو سنے سپریم کورٹ نے فیصلہ کرنےمیں بہت جلدی کر دی اوراگر 9مئی کے ملزمان کی حد تک کوئی فیصلہ بھی کر دیتے تو بہت سوں کو قابل قبول ہو سکتا تھا لیکن آرمی ایکٹ کی متعلقہ شقوں کو ہی ختم کرنے کے ،پاکستان کی سالمیت ،دفاع اور سیکورٹی کے متعلق سنگین نتائج تھے ،جنہیں عدالت نے نہ دیکھا۔ اُس فیصلہ کے مطابق کلبھوشن یادیو اور دہشت گردی میں ملوث اُس جیسے بھارتی جاسوسوں کا بھی ملٹری ٹرائل اب نہیں ہو سکتا۔ اس فیصلے کے مطابق کوئی بھی ملکی یا غیر ملکی دہشت گرد اگر فوج پر براہ راست حملہ کرتا ہے جیسا کہ گزشتہ روز ڈیرہ اسمعٰیل خان میں ایک دہشت گرد حملہ کیا گیا، جس کے نتیجہ میں 23 فوجی جوان شہید ہو گئے، اُن کا بھی مقدمہ فوجی عدالت میں نہیں چل سکتا۔یاد رہے کہ پشاور آرمی پبلک سکول سانحہ کے بعد آئین میں ترمیم کر کے پہلے دو اور پھر چار سال کیلئے فوجی عدالتوں کو اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ ایسے دہشت گردوں، جو سویلینز کو ٹارگٹ کرتے ہیں، کے مقدمات چلائیں کیوں کہ عمومی طور پر دیکھا گیا تھا کہ ہماری عام عدالتیں دہشت گردوں کو سزا دینے میں ناکام رہتی ہیں، یہ بھی کہا گیا تھا کہ کئی جج ڈر اور خوف کی وجہ سے دہشت گردوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور یوں دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ ملٹری کورٹس نے آئینی ترمیم کے مطابق فیصلے دئیے، بہت بڑی تعداد میں دہشت گردوں کو سزائیں دی گئیں جس سے پاکستان کے اندرونی حالات کافی بہتر ہو گئے جوکچھ عرصے سے پھر بگڑ رہے ہیں۔ 9 مئی کو جو ہوا وہ کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا ،جب تحریک انصاف کے مشتعل ورکرز نے عمران خان کی گرفتاری پر فوجی تنصیبات پر ہی حملے کر دئیے اور یوں تقریبا ًکوئی 102 سویلینز جو براہ راست ان حملوں میں ملوث تھے اُن کا معاملہ فوجی ٹرائل کے زمرے میں آ گیا۔ کوئی شک نہیں کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو ماضی میں کئی کیسوں میں غلط بھی استعمال کیا گیا لیکن جب ایسے معاملات ملک کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے آتے ہیں تو اُنہیں ایسے معاملات کے تمام پہلووں کو بھی دیکھنا چاہیے، کسی ایک پہلو کو اہمیت دے کے دوسرے کئی اہم پہلو نظر انداز کرنے سے ملک اور اداروں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ جو خرابیاں ہوں اُنہیں دور کیا جائے، اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو، قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔ ایک سوال بڑا متعلقہ ہے کہ اگر فوجی عدالتوں کو سویلینز کے ٹرائل سے روک دیا جائے تو کیا پاکستان کی عام عدالتیں اس قابل ہیں کہ وہ فوج، عوام اور پاکستان پر حملہ آوار ہونے والوں کے ٹرائل کے فیصلہ کریں۔ یہاں تو عام کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا، بڑے بڑے چور ڈاکو چھوٹ جاتے ہیں۔ آج جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 6رکنی لارجر بینچ نے 9 مئی کے ملزمان کے حوالے سے یہ فیصلہ کر دیا اور موجودہ اپیلوں پر فیصلے تک 102گرفتار افراد کے ٹرائل کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران گزشتہ روز پیش آئے 23 فوجیوں کی شہادت کے واقعے کا تذکرہ بھی ہوا۔جسٹس سردار طارق نے کہا کہ کل جو 23 بچے شہید ہوئے ان پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کیسے ہو گا؟انہوں نے کہا کہ فوجی جوانوں کو شہید کرنے والوں کا تو اب ٹرائل نہیں ہو سکے گا کیونکہ قانون کالعدم ہو چکا، جنہوں نے کل 23 جوان شہید کیے ان سویلینز کا ٹرائل اب کس قانون کے تحت ہو گا؟یہ وہ سوال ہے جو سپریم کورٹ کے پہلے بنچ کو سوچنا چاہیے تھا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)