• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کو دہشت گردی کے عالمی پھیلائو کا سامنا ہے۔ دہشت گردی ایک ناسور ہے جو تیزی سے پھیل رہا ہے۔پاکستان پوری دنیا میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہے۔ پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہر دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں۔ لیکن صوبہ خیبرپختونخوا کا دارالحکومت تو ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے۔ دشمن ریاستوں کی سرپرستی میں سیاسی علیحدگی پسند، فرقہ وارانہ، نسلی اور مذہبی بنیاد پرستوں کی وجہ سے پاکستانی شہری دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ پاکستان میں ہونیوالے دہشت گرد حملوں میں 70000سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو مجموعی طور پر 150بلین ڈالرز سے زیادہ کا مالی نقصان ہواہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کرانے میں بھارت کے ملوث ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ پاکستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی کے بارے میں پاکستان کی طرف سے پہلے ہی ایک ڈوزیئر جاری کیا جا چکا ہے جس میں انتہائی مخصوص معلومات جیسے بینک اکائونٹس اور اس میں ملوث بھارتی شہریوں کے شواہد موجود ہیں جو دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس ڈوزیئر میں ٹی ٹی پی، بلوچ شرپسندوں اور دیگر گروپوں کے تربیتی کیمپوں کی تعداد اور مقامات بھی شامل ہیں۔

انتہائی مستند ذرائع کے مطابق حال ہی میں بھارتی بدنام زمانہ انٹلیجنس ادار ے ’’را‘‘ نے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے لئے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چار دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ انضمام کے لئے 10لاکھ ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کی ہے۔ بھارت افغانستان میں تھنک ٹینکس اور دیگر ذرائع سے بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی رقم فراہم کرکے ان کی مالی اعانت کرتا رہا ہے اور اب بھی کر رہا ہے۔ بھارتی انٹلیجنس ایجنسی ’’را‘‘ مختلف جی پی ایس کے ذریعے سی پیک CPECکے منصوبوں پر حملے کروا کے ان منصوبوں کی پیش رفت رکوانے کے لئے بھارتی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کا بزدلانہ حملہ پاکستان کا 9/11سمجھا جاتا ہے۔ ان بے قصور اور معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کی شہادتوں نے پوری قوم کو جو اس وقت سوگوار غم زدہ اور نم دیدہ کیا تھا ،وہ زخم اب بھی اسی طرح تازہ ہے۔ قوم آج بھی ان معصوم شہیدوں، ان کے اساتذہ اور اسکول کے دیگر شہید عملہ کے غم میں ان کے والدین اور اہل خانہ کے ساتھ برابر کی شریک ہے۔ریاست پاکستان کی جانب سے اس ہولناک اور دردناک واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان تیار کیا گیا۔ پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے آپریشن شروع کرنے اور ان کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں بے شماردہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا اور کئی کو گرفتار کیا گیا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاک فوج کے افسران اور جوان اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے اور ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے دن رات برسرپیکار ہیں اور اس میں اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر رہے ہیں گزشتہ روز ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے 27جوانوں نے ملک و قوم کی حفاظت کا فریضہ نبھاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور حملہ آوروں کو جہنم رسید کیا۔ پاک فوج نے ضرب عضب اورردالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کی بیخ کنی کی۔ اب کچھ عرصہ سے ٹی ٹی پی اور داعش بھارت کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے پھر سر اٹھانے لگی ہیں۔ اور اپنی شیطانی ذہنیت کے ساتھ غیر انسانی کارروائیاں کر رہی ہیں۔

پاکستان کو معیشت کے بحران کیساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کو ختم کرنے اور دہشت گردوں کو کچلنے کا سخت جنگ لڑ رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے کالعدم تنظیموں، علیحدگی پسندوں اور ملک کے اندر سیاسی اور وطن مخالفت عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور ان کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کے اقدامات بھی ضروری ہیں۔ یہ واضح ہے کہ دہشت گردانہ واقعات میں خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ شہادتیں ہوئیں جبکہ دوسرے نمبر پر بلوچستان ہے یہ سال رواں کی رپورٹ ہے۔ صرف ستمبر تک دہشت گردی کے ہونے والے واقعات میں 333شہری اور 386سیکورٹی اہلکار شہید ہوئے تھےجبکہ 368دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ یہ اس سال ستمبر تک کے اعدادو شمار ہیں۔ دہشت گردوں کی قیام گاہیں افغانستان میں ہیں۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے مطابق افغانستان کو معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد کہاں پر ہیں بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں پاکستان دشمن منصوبوں کی تیاری، عملدرآمد، پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں اور انکی پناہ گاہوں کی مکمل ڈوزیئر افغان عبوری حکومت کو فراہم کر دی گئی ہے۔ اب افغان حکومت ایک ذمہ دار ہمسایہ ملک کا فرض ادا کرتے ہوئےپاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرے لیکن افغان حکومت نے تاحال پاکستان کے مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیا ہے۔ بلکہ افغانستان سے ان دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

افغانستان کے مذہبی رہنما نے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف کچھ عرصہ قبل فتویٰ بھی جاری کیا ہے اور افغان حکومت مسلسل اس بات کی تردید کرتی رہی ہے کہ افغانستان میں نہ تو کوئی دہشت گرد تنظیم ہے نہ اس کا ٹھکانہ ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر دہشت گرد، جن میں ٹی ٹی پی کے خوراج سرفہرست ہیں، کس طرح افغانستان سے آکر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے جو ڈوزیئر افغانستان کے حوالے کیا ہے اس پر افغان حکومت کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ دال میں کچھ کالا تو ضرور ہے۔

تازہ ترین