• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ان دنوں اس خبر کا بہت چرچا ہے جس میں 80کی دہائی میں نام نہاد فغان جہاد میں امریکہ کے کلیدی ذکرکے ایک گوشے سے پردہ ہٹایا گیا ہے، اگرچہ اُس وقت بھی لبرل و قوم پرست راہ نما اسے امریکی جہاد قراردے رہے تھے اور اس سے متعلق تمام تر تفصیلات بھی طشت از بام کررہے تھے لیکن ہر طرف ڈالروں کی بہار میں مستقبل میں اسے بہت سلیقے سے پاکستانی و افغان عوام کو بے خبر رکھا گیا ،اب چونکہ جنگ بارے حقائق آجانے سے سمندر میں کسی طلاطم خیزی یا حاصل کردہ مطلوبہ نتیجہ پر اثرانداز ہونے کاکوئی امکان نہیں اس لئے اس نام جہاد کا اصل کردارگاہے گاہےاُن رازوں سے پردہ ہٹاتا رہتاہے، جو اس جنگ کے دوران کھلاڑیوں کے ماسوا سب کیلئے سربستہ راز رہے۔ و اشنگٹن کی نیشنل سیکورٹی آرکائیو نے 42 سال بعد صدر جمی کارٹرکی جانب سے افغان جہاد کی فنڈنگ کے لیے کیے گئے اہم اقدامات پر مبنی دستاویز کو پبلک کیلئے کھول دیا ہے۔

1979میں امریکی صدر جمی کارٹر نے سی آئی اے سے افغان جہاد کی پاکستان کے ذریعے فنڈنگ کا حکم دیا تھا۔ اس حکم کے تحت امریکہ نے پاکستان کو 2.1 ار ب ڈالر کی امداد دینا تھی جبکہ سعودی عرب نے بھی اتنی ہی رقم دینا تھی۔ حکم نامے کے متن پر ’ حساس دستاویز ‘کی سرخی ہے ۔ متن کی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں سوویت مداخلت کے افغان مخالفین کو براہ راست یا تیسرے ملک کے ذریعے سے مہلک فوجی آلات فراہم کیے جائیں۔ مخصوص قسم کی تربیت دیں، جو کہ افغانستا ن سے باہر ہو تاکہ وہ ان ہتھیاروں کو استعمال کرسکیں یہ تربیت براہ راست بھی دی جاسکتی ہے اور کسی تیسرے ملک کے ذریعے سے بھی دی جاسکتی ہے۔ فلپس بونسکی، پولیٹکل افیرز مئی 1984ءکے مطابق امریکی صدر ریگن اُس وقت برہم ہوئے جب ایک صحافی نے افغان گوریلوں کو افغان باغی کہا، امریکی صدر کا اصرار تھا کہ ان کی جنگ Holy War(جہاد) ہے اور یہ مقدس جنگجو ہیں ’’بریگیڈیئر یوسف اس امر کا کھلے طورپر اعتراف کرتے ہیں۔‘‘ امریکی آفیشلز افغان جنگ کو ایک ایسا خدائی تحفہ سمجھتے تھے جس کے ذریعے وہ افغانستان میں کسی امریکی کا خون گرائے بغیر روسیوں کو قتل اور ان سے ویت نام کی شکست کا بدلہ لے سکتے تھے۔ بریگیڈیر یوسف نے جنر ل اختر عبدالرحمٰن کی مدح میں "The Silent Soldier"اور "The Bear Traip"لکھی تھیں ،وہ اس جنگ کے دوران ایک عرصے تک خفیہ ایجنسی کے افغان ڈیسک کے سربراہ رہے۔ بریگیڈیر صاحب لکھتے ہیں ’’امریکی (گوریلا) جنگ کا تجربہ نہیں رکھتے تھے اور مجاہدین ناتجربہ کار اور ایک مجاہد دوسرے مجاہدکا مخالف تھا‘‘

’’برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب اپنی کتاب Waiting for Allahمیں لکھتی ہیں‘‘ مجھے خود جنرل فضل الحق نے بتایا ،ہم نے امریکہ سے کہا، ہم نے آپ کو مچھلی پکڑنے کے لیے Worm( ایک کیڑا) دیا ہے جسے آپ بروئے کار لاسکتے ہیں لیکن اس کیڑے گلبدین حکمت یار پر بھروسہ نہیں کرسکتے‘‘۔ بریگیڈیر یوسف اعتراف کرتے ہیں ’’میں سمجھتا ہوں کہ افغان جنگ کا فاتح صرف اور صرف امریکہ ہے اور شکست یقینی طورپرتباہ حال افغانوں کو ہوئی‘‘۔ایسا ہی ہے ، 90ءکی دہائی میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت سے علیحدگی کے بعد جب امریکی پروردہ برہان الدین ربانی اور حکمت یار میں تخت کابل کیلئے جنگ ہوئی تھی، تو حکمت یار کی فورسز نے کابل پر اتنی بمباری کی تھی کہ وہ کابل جو، اب تک محفوظ تھا کھنڈر بن گیا تھا اور یہاں 50ہزار شہری ایک روز میں مارے گئے تھے۔

امریکی صدر ریگن نے روس کے خلاف ہو بہو 13ویں صلیبی جنگ کی پالیسی اپنا کر امریکی جنگ کو Holy War(مقدس جنگ) ظاہر کیا، ڈالر، ریالوں اور پاکستانی مذہبی عناصر و موقع پرست صحافیوں کے ذریعے ایسا اہتمام کیا کہ لوگ اسلام و افغان دشمنوں کو ’نام نہادمجاہد‘ باور کرنے لگے۔

امریکہ نے درجنوں تنظیموں کو شارٹ لسٹ کرتے ہوئے جن سات تنظیموں کو امداد کا اہل قرار دیا تھا ان کے رہنما یہی حکمت یار، ربانی، سیاف، محمدنبی محمدی، مولوی یونس خالص، سید احمد گیلانی اور صبغت مجددی تھے جو نائن الیون کے بعد بھی امریکہ کے کام آئے۔ یہ وہی نام نہاد مجاہد ہیں جنہوں نے خانہ کعبہ میں کئے جانے والے معاہدے کو بھی پامال کیا اور روس کے جانے کے بعد باہم برسرپیکار ہوکر اتنی تباہی مچائی کہ سویت یونین کی موجودگی میں جس کا تصور بھی محال ہوتا۔

یاد رہے روسی فوجوں کی موجودگی کے دوران اور پھر انخلا کے بعد معصوم بچوں، ضعیفوں اورخواتین سمیت 30لاکھ افغانوں کے قتل کا الزام انہی نام نہاد مجاہدین پر ہے، جنہیں امریکا، برطانیہ، جرمنی یہاں تک کہ اسرائیلی ایجنٹ تربیت دیتے تھے اور ان کی آماجگاہ پاکستان اور سہولت کار پاکستانی مذہبی جماعتیںاور قلم فروش صحافی تھے۔

تازہ ترین