• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہائیوں کی پیشہ ورانہ صحافت کو طویل بندش کے بعد توعاًو کرہاً فی الوقت خیر باد کہہ کر پھر سے میدان سیاست میں قدم رکھنے کو پر تول ہی رہا تھا کہ سیاست پھر سے اک لاینحل بحران کے ایسے خوفناک مرحلے میں داخل ہوچلی ہے جس کے سنگین نتائج کی فرشتوں کو بھی خبر نہیں اور ٹیلی وژن ٹاک شوز میں بیٹھے طوطوں کو تو بالکل بھی نہیں۔ آسمان صبح شام کیسے رنگ بدلے گا، انگشت بدنداں ہوں۔ بروز جمعہ سپریم کورٹ کے ایک معزز تین رکنی بنچ نے بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے مضحکہ خیز ترین نام نہاد سائفر کیس کے وہ پرخچے اُڑائے کہ اس کے پلے کچھ تھا بھی تو کچھ بچا نہیں۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ خان صاحب کے لاکھوں متوالے سمجھے کہ بس خان ابھی جیل سے رہا ہوکر انتخابی طوفانی مہم پہ چل نکلے گا۔ لیکن تحریک انصاف کی سیاسی قسمت کے مقدر ابھی نادیدہ بھنور سے نکلنے والے کہاں تھے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے بنچ کے معزز ججوں (جنہیں اب اپنی اخلاقی و سیاسی ساکھ ڈوبنے کی فکر لاحق ہو چلی ہے) نے تحریک انصاف کی شکایت پر یہ محسوس کیا کہ تحریک انصاف کو ہموار سیاسی میدان میسرنہیں، لہٰذا الیکشن کمیشن کو ہدایت کی گئی کہ وہ تحریک انصاف کی شکایات کا ازالہ کرے۔ اور ازالہ ہوا بھی تو اسی شام نہایت سرعت سے الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے پارٹی انتخابات ہی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پارٹی کو اس کے دیرینہ انتخابی نشان بلے سے ہی محروم کردیا۔ بہ یک جنبش قلم نہ صرف تحریک انصاف بلے کا نشان کھو بیٹھی، بلکہ اب اقلیتوں کی 10 اور خواتین کی 60 مخصوص نشستوں جن کا تعین کسی بھی پارٹی کو پڑنے والے ووٹوں کے تناسب سے ہوتا ہے ،سے محروم ہوگئی ہے۔ اب 171کی اکثریت میں سے 70 اراکین تو منہا کردئیے گئے یا قومی اسمبلی کی کل 342 نشستوں میں سے تحریک انصاف کیلئے باقی بچیں بھی تو 272 نشستیں یا کل نشستوں کا 20 فیصد انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی اسکے انتخابی کھاتے سے نکل گیا۔ آج (بروز ہفتہ)کاغذات نامزدگی کا آخری دن ہے اور امیدواروں کو پارٹی کے انتخابی نشان کی الاٹمنٹ 13جنوری کو ہونی ہے۔ گویا تحریک انصاف کے پاس الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے اور اس پر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کیلئے فقط 17روز بچے ہیں۔ اگر اعلیٰ عدلیہ اس پر اگلے ہفتے دس روز میں فیصلہ نہیں کرتی تو پھر پی ٹی آئی بغیر بیٹ کے میدان میں اُترے گی۔ شفاف انتخابی میدان میں فرشتے پہلے ہی اپنی پسند کی پچیں بناچکے ہیں اور اُنہیں ہائبرڈ انتخابی نظام کی ضرورتوں کے مطابق صبح شام بدلا جارہا ہے۔ ایسے میں الیکشن کے انعقاد کی 8 فروری کی تاریخ پتھر پر لکیر ہونے کے باوجود انتخابی عمل پر ہی بنیادی سوال اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے 70اور 77 کے انتخابی المیوں کی جو یاد دہانی کرائی ہے، اس سے کسی کےکان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب تحریک انصاف کرے تو کیا کرے؟ بلا شاید ملے نہ ملے، اسکا متبادل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ’’عوام دوست‘‘ کی طرح ’’انصاف دوست‘‘ بھی ہوسکتا ہے اور بلے کی جگہ کہیں ہتھوڑا اور کہیں درانتی تو کہیں کچھ بھی نشان ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے دور میں ایک نہیں، ہر حلقے کیلئےعلیحدہ انتخابی نشان کو آگ کی طرح پھیلانا کوئی مشکل نہیں۔ تحریک انصاف کو اب ایک ایسی آسانی میسر آئی ہے جو کسی دوسری پارٹی کو نہیں۔ ہر حلقے سے درجنوں امیدوار کھڑے ہوگئے ہیں اور وہ ان میں سے کسی کا بھی مناسب انتخاب کرسکتی ہے، نئی نسل کے عقاب راتوں رات گلی گلی ان نشانوں کی دھوم مچاسکتے ہیں۔ لینڈ سلائیڈ نہ سہی، مقابلہ خون خوار نہ سہی جگہ جگہ زبرست جوڑ پڑسکتا ہے۔ ایسے وقت میں جب پنجاب میں ن لیگ، اپنے وسیع تر مقامی انتخابی نیٹ ورک کے باوجود اپنی عوامی حمایت کی تاریخ کے سب سے نچلے درجے پہ کھڑی ہے ، کیلئے لاڈ پیار اور ریاستی سرپرستی کے باوجود انتخابی جیت مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ ضلع بہاولنگر جہاں میں خود قومی اسمبلی کے حلقہ 161سے امیدوار ہوں، وہاں اسکے دیرینہ امیدواروں کے خلاف فضا نہایت مخدوش ہوتی نظر آتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے جیالوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اگر کسی پارٹی کی فضا ہے تو وہ ہے تحریک انصاف۔ اب تحریک انصاف کے پاس کیا آپشنز اور پلان بی اور سی ہیں؟ کچھ خبر نہیں! یہ خیال کہ تحریک انصاف فقط شہروں تک محدود ہے، حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ دیہی پدر شاہی برادریاں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں اور محنت کش عوام مہنگائی اور بیروزگاری سے نالاں ہیں اور ان کیلئے روشنی کی کہیں لکیر نہیں۔ متوسط طبقے کے لوگ بہت تلخ نواہوچلے ہیں۔ جبکہ حیران کن طور پر عوامی بیزاری کا زیادہ تر بوجھ شہباز حکومت کے سر بندھ گیا ہے۔ اور جانے کیا کیا عوامل ہیں جو عمران خان کی کرشماتی اپیل کو بڑھاتے جارہے ہیں۔ وہ اب ایک زندہ شہید ہیں۔ اسوقت تک تو انتخابی مہم فقط پارٹی ٹکٹوں کی دوڑ تک محدود ہے۔ زیادہ تر کا رخ تو ن لیگ کی طرف ہے اور اسکے امیدواروں کو عوامی بیزاری کا سامنا ہے۔ ایسے میں الگ سے ایک عوامی جمہوری ایجنڈے کے ساتھ میدان میں اترنے کی مہم جوئی پہ اترا ہوں۔ محنت کشوں میں کیا پرانا کام بہت کام آرہا ہے اور جانے کہاں کہاں سے لوگ آکرہمت بندھارہے ہیں۔ غالباً اسوقت میں واحد امیدوار ہوں جس نے سیاسی، معاشی اور سیکورٹی معاملات پراپنا تفصیلی چارٹر جاری کیا ہے جس کی پڑھے لکھے لوگوں میں کافی پذیرائی ہوئی ہے اور محنت کشوں خاص طور پر کسانوں کیلئے تھوڑی بہت اُمید پیدا ہوئی ہے۔ لیکن اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے کا مقصد صرف اسمبلی کی سیٹ نہیں بلکہ ملک کی جمہوری کایا پلٹ، خوشحال مستقبل اور محنت کش عوام کی آسودہ حالی اور استحصال سے نجات کیلئے جدوجہد کرنا زیادہ ضروری ہے۔ بہاولنگر میرا آبائی ضلع ہے جہاں سے میرے بھائی ممتاز عالم گیلانی دو بار ایم این اے منتخب ہوئے اور انکی ایماندارانہ عوامی سیاست کا پھل بھی مجھے مل رہا ہے۔ لیکن لوگ جانے کیوں مجھ سے اتنی اُمیدیں وابستہ کررہے ہیں۔ وہ شاید اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ جانے میں کیا کرشمہ کردکھائوں۔ لیکن اکیلا چنا بھاڑ نہیں جھونک سکتا! عوامی نجات، جمہوری استحکام اور انقلابی کایا پلٹ کی جدوجہد طویل ہے۔ اک کوشش اور سہی۔

تازہ ترین