• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب چورہمیں سر عام آنکھیں دکھانے لگیں، گلی محلے میں آتے جاتے لوگوں کو لوٹیں، عورتو ں کی عزتیں پامال کی جانے لگیں، درندوں کے ہاتھوں معصوم بچے درندگی کے بعد قتل کر دیئے جائیں، قانون کے رکھوالے ہی وردیوں میں ڈاکے ڈالنے لگیں ، ایسے میں قانون و انصاف ان چوروں، ڈاکوؤں، قاتلوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالنے کی جرات تک نہ کرے توکوئی یہ سوچے کہ ہم ترقی یافتہ مہذب ممالک کی صف میں کہیں کھڑے ہوں گے اور کوئی غیرملکی سرمایہ کار اس جنگل میں آکر سرمایہ کاری کرے گا تو ایسی عقل والوں پرحیرت ہے۔ ہم لوگ بھی عجیب لوگ ہیں کہ خود کو بدلنے پر تیار نہیں اور خواب ایسے دیکھتے ہیں کہ جن کی تعبیر خود احتسابی کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ہم دہرا معیاررکھتے ہیں اور اول درجے کے منافق بھی ہیں۔ معاشرتی بگاڑ کو دیکھتے ہیں تو پھر یقین ہونے لگتا ہے کہ جیسے عوام ویسے حکمران۔ یہ تو نصیب والے ہی ہوتے ہیں کہ جنہیں بیک وقت دونوں اچھے ملتے ہیں۔ ہم جن ملکوں کی ترقی سے متاثر نظر آتے ہیں اور یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا ملک ان کی طرح تہذیب یافتہ ہو ، ترقی کی منازل طے کرتا نظر آئے تو ذرا سوچئے کہ وہاں کے شہری کس حد تک اپنے حقوق کے تحفظ کی خاطر پُرامن احتجاج کرتے اور ملکی مفادات میں کس طرح حکومتوں کو دباؤ میں لانے کے لئے متحد ہو جاتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ دھوکہ، فراڈ، کرپشن میں ایک دوسرے کے سہولت کار بھی بنتے ہیں اور اس دوڑ میں اول آنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں اور حصہ بقدر جثہ نہ ملنے پر دست و گریبان بھی ہو جاتے ہیں۔ ہماری سوچیں وقت ، حالات، مجبوریوں کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں کہ جو سیاست دانوں کے رنگ برنگے نعروں کے فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔قیمے والے نان، چند ٹکوں کے عوض اپنا ضمیرتک فروخت کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔ ہم اپنی ذاتی ضرورت، سہولت، ڈر خوف یا کسی دباؤ کے نتیجے میں اپنے حق رائے دہی کا خون تک کر دیتے ہیں اور توقع یہ رکھتے ہیں کہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا نمائندہ اسمبلیوں میں جا کر ان کے حقوق کا تحفظ کرے گا۔ ان کے ضمیر کی آواز بن کر ایوانوں میں ملکی مفادات میں قانون سازی کرکے اقوام عالم میں پاکستان کا نام سر بلند کرے گا۔ ہر گز نہیں ایسا ممکن ہی نہیں جس ووٹر نے اپنا ضمیر فروخت کیا اس کا منتخب کردہ نمائندہ ضمیر فروش ہی نکلے گا۔ ایک بار پھر سوچئے کہ ہماری اسمبلیاں قانون ساز اور قانون پر عمل درآمد کرنے والے ادارے ضمیر فروشی کا گڑھ کیوں بنتے جارہے ہیں؟ یہ ہمارے حکمرانوں کے اعمال کی سزا نہیں ، ہمیں اپنے کئے کی سزا مل رہی ہے۔ جب تک ہم اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ کا صحیح استعمال نہیں کریں گے اور حالات و واقعات ، سیاسی رہنماؤں کے کردار اور ان کی کارکردگی کا ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ نہیں کریں گے اور اس بحث سے آگے نہیں بڑھیں گے کہ خان کی حکومت امریکہ نے گرائی یا نواز شریف کو کیوں نکالا؟ بلاول بھٹو اور زرداری آج اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ کیوں نہیں ہیں، نواز شریف کی ہوا بن رہی ہے یا خان کی ہوا نکالی جارہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن صدر پاکستان بننے کی خواہش کیوں رکھتے ہیں؟ باپ پارٹی کو نیا باپ ملے گا یا یہ پارٹی کسی سوتیلے باپ کے سپرد کر دی جائے گی، سندھ خصوصاً کراچی میںایم کیو ایم ، جے یو آئی (ف) ، جی ڈی اے، فنکشنل لیگ کی (ن) لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کا مکو ٹھپ دیا جائے گا یا پھر نواز شریف کی چودھری شجاعت حسین سے ملاقات اور(ق) لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نتیجے میں (ن) لیگ کا پنجاب میں قلعہ مضبوط ہوگا یا نہیں؟ خان کے جیل میں ہونے یا آئندہ دنوں میں سزاؤں کے مرحلے سے گزرنے کے بعد تحریک انصاف کا ووٹ بینک کمزور ہوگا یا مضبوط؟ خیبرپختونخوا میں پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرین اصل پی ٹی آئی کا مقابلہ کرسکے گی یا نہیں؟ اور مولانا فضل الرحمن خیبرپختونخوا کے انتخابی معرکے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اور کیا وہ اتنی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرسکیں گے کہ مستقبل کے متوقع سیاسی منظر نامے میں (ن) لیگ یا پیپلز پارٹی کے زیر سایہ بننے والی ممکنہ مخلوط یا قومی حکومت سے اپنے لئے صدر مملکت کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں؟ جہاں تک زمینی حقائق کی بات ہے آج کی تاریخ تک خیبرپختونخوا میں پابندیوں کے باوجود تحریک انصاف کے محدود پیمانے پر ورکرز کنونشن اور اِکا دُکا انتخابی اجتماعات سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ بانی چیئرمین تحریک انصاف کے کارکنوں کا جوش و جذبہ کسی صورت کم نہیں ہوا اور عام انتخابات میں میدان ٹھیک ٹھاک لگے گا۔ پنجاب میں الیکٹیبلز کی تحریک استحکام پارٹی میدان میں نظر تو آتی ہے لیکن فی الحال اپنا عوامی تاثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ جوں جوں انتخابات کی تاریخ نزدیک آئے گی صورت حال مزید واضح ہوتی جائے گی۔ بظاہر’’ میاں دے نعرے وجن گے‘‘ کی ہوا بنتی یا بنائی جاتی نظر آرہی ہے لیکن عشق کی یہ منزل طے کرنا کسی بھی سیاسی رہنما و جماعت کے لئے آسان نہیں۔ ابھی پیپلز پارٹی آؤٹ ہوئی ہے نہ ہی (ن) لیگ اِن۔ تحریک انصاف بھی میدان میں ڈٹی نظر آتی ہے اور اس بارے کوئی پیش گوئی کرنا فی الحال تو ممکن نہیںکہ کون کس پر بھاری ہے ، اگر آپ کی سمجھ میں کوئی سیاسی جماعت نہیں آرہی تو پھرجماعت اسلامی آپ کی چوائس کیوں نہیں؟ جو ہر اخلاقی، سیاسی، قانونی ، آئینی و انتخابی معیار پر پورا بھی اترتی ہے اور اس کے دامن پر کوئی داغ بھی نہیں،مشورہ یہی ہے کہ اپنے ضمیر ، عقل، سمجھ بوجھ، شعور کے مطابق دیانت داری سے اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کا فیصلہ ابھی سے کرلیجئے آپ کا ٹھیک فیصلہ ہی پاکستان کی تقدیر بدلے گا۔

تازہ ترین