زندہ قومیں ملک کی قسمت بدلنے والے لیڈروں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ نے پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے عظیم لیڈر عطا کئے جنہوں نے قربانیاں دے کر پاکستان کو ناقابل تسخیر بنادیا۔ میرا اور میری فیملی کا شہید بینظیر بھٹو سے انتہائی قریبی تعلق رہا ہے اور یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ان کے قریب رہ کر کام کرنے کا موقع ملا۔ آج میں شہید بینظیر بھٹو کی 16 ویں برسی پر ان کے ساتھ گزارے کچھ تاریخی لمحات قارئین سے شیئر کرنا چاہوں گا۔
شہید بینظیر بھٹوسے میری پہلی ملاقات 1994ء میں سائٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ تقریب میں ہوئی جس میں انہوں نے مجھے بیمار صنعتوں کی بحالی پر ایوارڈ دیا اور بیمار صنعتوں کی بحالی کیلئے مجھ سے تجاویز مانگیں جن پر عملدرآمد کرکے بے شمار بیمار صنعتیں بحال ہوئیں جس کی بناء پر مجھے ان کی قربت حاصل ہوئی، وہ مجھے اپنے ساتھ برطانیہ، کوریا، اسپین، مراکش، ترکمانستان اور دیگر کئی ممالک کے سرکاری دوروں پر وفاقی وزراء کے ہمراہ لے کرگئیں۔
2002ء کے الیکشن میں شہید بینظیر بھٹو نے مجھے کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250 سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے کہا جو میری سیاسی زندگی کا آغاز تھا۔ بی بی نے مجھے پیپلز بزنس فورم اور سفارتی تعلقات (فارن لائزن کمیٹی) کی ذمہ داریاں دیں۔ میں جلاوطنی کے دوران دبئی میں محترمہ کے قریب رہا اور ہم نے اپنے برطانوی ممبر پارلیمنٹ دوست اور وزیراعظم ٹونی بلیئر سے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کیلئے بینظیر بھٹو کی وطن واپسی کی حمایت حاصل کی اوربالاخر 18 اکتوبر 2007ء کو بینظیر بھٹو نے وطن واپسی کا اعلان کیا۔ محترمہ کی کراچی واپسی ہم سب کیلئے خوشی کے ساتھ ایک چیلنج تھا کہ ہم کس طرح ان کا شایان شان استقبال کریں۔ میں استقبالیہ کمیٹی میں شامل تھا۔محترمہ نے مجھے لندن کے پارٹی اجلاس میں 2008ء کے الیکشن میں مجھے دوبارہ قومی اسمبلی کے حلقہ NA-250کیلئے پارٹی ٹکٹ دیا اور بی بی اور نواز شریف کی خواہش پر مشترکہ امیدوار نامزد کیا گیا جبکہ مجھے اے این پی، جے یو آئی اور سنی تحریک کی بھی حمایت حاصل تھی۔ بلاول ہائوس کا میرا حلقہ محترمہ کی خوبصورت قدآور تصاویرسے شاندار طریقے سے سجایا گیا تھا۔ وطن واپسی پر بینظیر بھٹو نے طیارے سے اترتے وقت میری الیکشن کیپ نہ صرف خود پہنی ہوئی تھی بلکہ طیارے میں سوار دیگر رہنمائوں کو بھی یہ کیپ پہننے کا کہا تھا جسے دنیا بھر کے چینلز نے دکھایا جو میرے لئے بڑا اعزاز تھا۔
کراچی میں بی بی کے سندھ الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت ہنگامے کے بعد بلاول ہائوس میں ایک ہنگامی میٹنگ بلائی گئی جس میں میرے علاوہ شیری رحمن، رضا ربانی، رحمان ملک، شاہ محمود قریشی، قائم علی شاہ، فہمیدہ مرزا، ذوالفقار مرزا اور پارٹی کے دیگر اہم رہنما بھی شریک تھے۔ میں نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ سیکورٹی کے پیش نظر ہمیں الیکشن کمیشن سے آپ کی ذاتی حاضری کا استثنیٰ حاصل کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں، میں نے اس وقت کے الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کنور دلشاد سے بینظیر بھٹو کی ذاتی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی جس کو مان لیا گیا لیکن رحمان ملک نے مجھے الیکشن کمیشن سے تحریری اجازت نامہ لینے کا مشورہ دیا۔ اتوار ہونے کے باوجود کنور دلشاد نے تحریری اجازت نامہ بلاول ہائوس فیکس کیا جسے دیکھ کر محترمہ نے مجھے Welldon کہا۔ اس موقع پر وہاں موجود ذوالفقار مرزا نے محترمہ سے مذاقاً کہا۔ ’’میڈم! ایسے کام صرف ’’مرزا ‘‘ہی کرسکتے ہیں۔‘‘ محترمہ نے جواب میں کہا۔’’نہیں صرف ’’بیگ ‘‘کرسکتے ہیں۔‘‘ محترمہ کی تعریف میرے لئے فخر کی بات تھی۔ اسی دوران میری الیکشن مہم جاری تھی اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سلیم ضیا کے میرے حق میں دستبردار ہونے سے میری پوزیشن بہت مضبوط تھی۔
27 دسمبر 2007ء کی شام میرے قریبی دوست فرخ مظہر نے اپنی ڈیفنس میں رہائش گاہ پر میری انتخابی کارنر میٹنگ رکھی تھی۔ میں نے جیسے ہی تقریر شروع کی تو تھوڑی دیر میں جلسے میں موجود ڈاکٹر مختار بھٹو بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے اور روتے ہوئے بتایا کہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ میں میزبان فرخ مظہر کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم کی طرف بھاگا جہاں ٹی وی پر بینظیر بھٹو کی شہادت کی اندوہناک خبر نشر ہورہی تھی جسے سنتے ہی میںسیدھا بلاول ہائوس بھاگا جہاںپیپلزپارٹی کے سینٹرز اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار بڑی تعداد میں جمع تھے اور اپنے عظیم لیڈر سے بچھڑ جانے پر ایک دوسرے سے گلے لگ کر زار و قطار رو رہے تھے۔ رات گئے جب میں ٹوٹا ہوا بلاول ہائوس سے اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا تو لوگ سڑکوں پر جگہ جگہ آگ لگاکر اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے تھے۔ پارٹی کی درخواست پر میں نے نوڈیرو جانے کیلئے دبئی اور مختلف جگہوں سے چارٹر فلائٹ کیلئے رابطے کئے۔ میں شہید بینظیر بھٹو کا جسد خاکی نوڈیرو سے گڑھی خدا بخش لے جانے اور مجھ سمیت لاکھوں افراد کی آہوں و سسکیوں میں ان کی تدفین کا منظر کبھی نہیں بھول سکتا۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے کئی روز بعد اُن کے بلیک بیری سے شریک چیئرمین آصف زرداری کا ایک میسج آیا کہ ’’شہید بی بی کے آخری پیغامات میں آپ کو کیا گیا یہ ایس ایم ایس بھی شامل ہے جو بی بی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر مجھے کیا تھا۔
"Are you happy, now you must win this seat, good luck"
میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ بی بی سے یہ میری آخری گفتگو ہوگی۔ میں NA-250 سے الیکشن جیت گیا تھا لیکن پیپلزپارٹی کی ایم کیو ایم کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے کی وجہ سے پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ووٹوں کی دوبارہ گنتی جیتنے کے باوجود مجھے سندھ ہائیکورٹ میں ایم کیو ایم کیخلاف دائر کیس سے دستبردار ہونے کی ہدایت کی اور میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی پارٹی ڈسپلن پر عمل کیا۔
مجھے افسوس ہے کہ میں وعدے کے مطابق بلاول ہاؤس حلقے کی نشست بی بی کو نہ دے سکا لیکن پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو، یوسف رضا گیلانی اور دیگر سینئر رہنمائوں کی درخواست پر میں نے آئندہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے اِسی کلفٹن ڈیفنس کراچی حلقے سے NA-241 سے آئندہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور دعا ہے کہ شہید بینظیر بھٹوسے 16 سال قبل کیا گیا وعدہ اس بار ان شاء اللّٰہ پورا کرسکوں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)