کراچی (مہتاب حیدر) پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ نے ایف بی آر س کم از کم 10ترمیم شدہ ، کاٹی اور ویلڈ کی ہوئی ضبط شدہ گاڑیاں انتہائی سستے نرخوں پردینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی آئی ڈی نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے یہ گاڑیاں اپنے سرکاری فرائض کی ادائیگی کےلیے درکار ہیں۔ اس قسم کی درجنوں ترمیم شدہ گاڑیاں ایف بی آر مختلف سرکاری محکموں کو تو دیتا ہی ہے مگرمخصوص بااثر افراد کو بھی دیتا ہے جیسا کہ ایف بی آر کے سابق سربراہا ن وغیرہ کو لیکن اس ملک میں کون پرواہ کرتا ہے۔ایف بی اار کے ڈائریکٹوریٹ انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن کسٹمزونگ کوملنے والی سرکاری درخواست کےمطابق پی آئی ڈی نے کہا ہے کہ ہم وفاقی حکومت کی پبلسٹی اور پرنسپل پروجیکشن کا ذمہ دار ادارہ ہیں اور وزیراعظم، صدر، وفاقی وزرا، وزرا، ڈویژنز،منسلکہ ڈپارٹمنٹس کی پبلسٹی کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور ان اداروں، محکموں کی پالیسیوں اور پروگراموں پر عوامی ردعمل سے حکومت کو آگاہ رکھتے ہیں۔ اس عمل کے دوران پی آئی ڈی کو میڈیا سے تعلقات رکھنا وتے ہیں، میڈیا کو سہولت کاری دینا ہوگی ہے اور حمایت دینا ہوتی ہے، وی وی آئی پی کو پروٹوکول ، حکومتی پالیسیوں کے بارے میں آگہی، پریس کانفرنسوں کا اہتمام کرنا، سیمینارز اور سمپوزیم کا انعقاد کرنا ہوتا ہے اور یہ سارے کام اس وقت تک موزوں طریقے سے سرانجام نہیں دیے جاسکتے جب تک کہ لاجسٹکس، کمیونی کیشن اور ٹیکنیکل انفراسٹرکچر ناکافی ہو۔اپنی ذمہ داریوں اور وظائف کا تفصٰل سے تذکرہ کرتے ہوئے درخواست میں کہا گیا ہے کہ پی آئی ڈی کے افسران کو اکثر و بیشترپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکے دفاتر جاناہوتا ہے کہ تاکہ وہ بروقت اطلاعات کو پھیلاسکیں۔اس غرض سے یہاں یہ تذکرہ کرنا مناسب ہوگا کہ پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کو 10 گاڑیوں کی سخت ضرورت ہےتاکہ اس کے افسران اپنے فرائض انجام دے سکیں جبکہ وفاقی حکومت کے کفایت شعاری کے اقدامات کی وجہ سے نئی گاڑیاں خریدنے کی اجازت نہیں مل رہی۔ہمارے علم میں آیا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آٗئی اینڈ آئی کسٹم کے پاس بہت سی ترمیم شدہ، کاٹی ہوئی اور ویلڈ اور ضبط شدہ گاڑیاں موجود ہیں جنہیں 1969 کے کسٹم ایکٹ کی شق 182 کے تحت نکالا جاتا ہے۔ یہ درخواست کی جاتی ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل ایف بی آئی براہ مہربانی ہمارے محکمے کو 10 گاڑیاں کم سے کم علامتی نرخوں پر دے تاکہ عہدیداران پنی ذمہ داریوں سے بہتر طریقے سے عہدہ برآ ہوسکیں۔