• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں دبئی میں ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس کوپ 28اختتام پذیر ہوگئی ،جس میں دنیا کے 197ممالک نے شرکت کی۔ کانفرنس میں ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ سے لاحق خطرات سے نمٹنے کیلئے اقدامات پر سفارشات پیش کی گئیں۔ یہ اقوام متحدہ کی سب سے بڑی ماحولیاتی سربراہی کانفرنس تھی جس میں 2030 ءتک عالمی درجہ حرارت کو روکنے، گرین ہائوس گیسز کے اخراج کو کم کرنے اور متبادل توانائی کے ذرائع کو استعمال کرنے کے اہداف مقرر کئے گئے۔ تاریخ میں پہلی بار دنیا کے تقریباً 200ممالک نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے بدترین نتائج سے بچنے کیلئے فوسل فیول کے استعمال میں کمی لانے پر اتفاق کیا جس نے دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات ( فوسل فیول) کے دور کے خاتمے کا اشارہ بھی دے دیا ہے اور آخر کار 13دن اور رات کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد کانفرنس کے اماراتی صدر سلطان جابر نے 30 سال کے بعد ہونے والے اس تاریخی معاہدے کی خوشخبری دی لیکن ان کے بقول اس کی اصل کامیابی تجویز کردہ اقدامات پر حقیقی عملدرآمد سے ملے گی۔

کوپ 28 اقوام متحدہ کی 28 ویں سالانہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس ہے جس کا مقصد مستقبل میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے، بارش، سیلاب اور گلیشیر پگھلنے جیسی موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی اور ترقی پذیر اور متاثرہ غریب ممالک کیلئے امداد فراہم کرنا ہے۔ گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اوپیک ممالک اور تیل سپلائی کرنے والی کمپنیوں پر بے انتہا دبائو ہے کہ وہ فوسل فیول ،جو کاربن کے اخراج کا اہم سبب ہے ، کو جلد از جلد بند کریں اور دنیا توانائی کے حصول کیلئے متبادل توانائی کے ذرائع ہوا، پانی، سورج اور نیوکلیئر انرجی پر منتقل ہو۔ کانفرنس میں 100سے زیادہ ممالک نے مشترکہ طور پر فوسل فیول یعنی تیل، گیس اور کوئلے کو ختم کرنے کیلئے سخت اقدامات تجویز کئے جبکہ اوپیک ممالک نے کھل کر تجویز کی مخالفت کی اور اتفاق نہ ہونے کی صورت میں کانفرنس کے آخری دن کے اجلاس میں ایک روز کی توسیع کرنا پڑی۔فوسل فیول کے خاتمے کے حامی اور گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ممالک کو کچھ بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک جن میں امریکہ، کینیڈا، ناروے اور یورپی یونین شامل ہیں، کی بھی حمایت حاصل تھی۔ سائنسدانوں کے مطابق بڑھتے ہوئے فوسل فیول (تیل، گیس اور کوئلہ) کے استعمال سے کرہ ارض کا درجہ حرارت میں 2.4سے 2.7فیصد اضافہ ہوسکتا ہے جو دنیا میں ماحولیاتی تبدیلیوں میں تباہی کا باعث ہوگا لہٰذاکانفرنس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ عالمی درجہ حرارت کو 1.5ڈگری سینٹی گریڈ کے ہدف تک محدود کرنا ہوگا اور فوسل فیول کے استعمال میں فوری اور متواتر کمی لانا ہوگی۔اس کے علاوہ کانفرنس میں اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ اخراج کرنے والے ممالک پر جرمانہ کاربن کریڈٹ کی شکل میں لگایا گیا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں کاربن کا اخراج دیگر صنعتی ممالک کے مقابلے میں کم ہے لہٰذا ہمارے صنعتکار کاربن کریڈٹ کلیم کرسکتے ہیں جس سے انہیں لاکھوں ڈالرز کا فائدہ ہوسکتا ہے۔

گیس اور کوئلے کی طرح تیل کا جلانا بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی بنیادی وجہ ہے کیونکہ یہ کرہ ارض پر گرین ہاوس گیسز (زہریلی کاربن ڈائی آکسائیڈ) کے اخراج کا سبب بنتا ہے لہٰذا اتفاق کیا گیا کہ توانائی کے حصول کیلئے روایتی ایندھن فوسل فیول کے استعمال کو بتدریج کم کرکے 2050 تک مکمل ختم کیا جائے۔ کوپ 28 معاہدے میں 2030 تک ماحول دوست ذرائع سے متبادل توانائی کی شرح میں 3 گنا اضافہ کرکے گرین ہائوس گیسز کے اخراج میں 43فیصد کمی کی جائے ۔ معاہدے میں کوئلے کے استعمال میں کمی کیلئے اقدامات اور ایسی جدید ٹیکنالوجی جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لاسکے ،کو استعمال کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ دنیا میں اس وقت 80فیصد توانائی خام تیل ،گیس (ایل این جی) اور کوئلے کے استعمال سے حاصل کی جاتی ہے جس کی وجہ سے پیش گوئی کی گئی ہے کہ 2023-24 میں عالمی درجہ حرارت 1.5فیصد ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرجائے گا اور یہ دونوں سال دنیا کے گرم ترین سال ثابت ہوں گے ۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کوپ 28 معاہدے کو ایک خوش آئند قدم قرار دیا ہے جبکہ یورپی یونین چیف نے فوسل فیول کے خاتمے کو ایک نیا دور قرار دیا ہے اور اس حوالے سے چین کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو متبادل توانائی کے حصول میں پہل کرنا ہوگی۔

قارئین! کوپ 28معاہدہ دنیا کی بڑی آئل کمپنیوں آرامکو، ایڈناک، شیل اور دیگر آئل سپلائی کرنے والی کمپنیوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آخری دن تک 13اوپیک ممالک اپنے مستقبل کے آئل بزنس کو بچانے کیلئے ماحولیاتی آلودگی سے متاثرہ ممالک کے ساتھ مل کر گلوبل وارمنگ میں کمی کرنے کیلئے اقدامات کرتے نظر آئے اور کانفرنس میں 100ارب ڈالر کا کلائمٹ فنانس فنڈز تجویز کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ معاہدے کی تجاویز اور سفارشات پر حقیقی معنوں میں کس حد تک عملدرآمد ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین