• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈیورنڈ لائن کھنچی گئی تو ہم افغانستان کے شہری نہیں رہے ،محمود اچکزئی

کوئٹہ(صباح نیوز)پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے گزشتہ شب تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ڈیورنڈ لائن کھنچی گئی تو ہم افغانستان کے شہری نہیں رہے، جعلی شناختی کارڈوں کا ملبہ پشتونخوامیپ پر نہ ڈالا جائے،جہاں تک اس وطن کا تعلق ہے کہ یہ وطن افغان تھا یہ افغان ہے اس حوالے سے میں نے پارلیمنٹ میں کئی بار واضح طور پر سب کچھ کہا ہے کہ جب انگریز بہادر یہاں نہیں آیا تھا دریا امو سے لیکر انڈس تک یہ افغانوں کا وطن اور آزاد ریاست تھی اسلامی دنیا جس کا علامہ اقبال نے اپنی مشہور نظم میں ذکر کیا ہے کہ ” نیل کے ساحل سے لیکر تابہ خاک ِکاشغر ‘‘واحد افغان لوگ تھے جو آزاد مختار تھے باقی ساری مسلم دنیا سوائے ترکی کے تقریباً مختلف استعماری وسامراجی ممالک کے سامنے سرنڈر ہوگئی تھی پھرجب ہندوستان قبضہ ہوا تو برٹش انڈیا نے جس آدمی کو اپنا پہلا سفیر بنا کر افغانستان بھیجاجس کی کتاب ” دی کنگڈم آف کابل “ ہے اس شخص نے پہلے سفیر کی حیثیت سے 1805ء میں اپنی سفارت کے کاغذات” بالا حصار“پشاور میں افغان بادشاہ شاہ شجاع کے دربار میں پیش کئے پشاور تمام افغانوں کا 1820تک سرمائی درالخلافہ تھا یہ تو ہمارا تاریخی رشتہ ہے افغانستان سے اوراس سے بھی ہمارے عوام بخوبی آگاہ ہیںکہ جب ڈیورنڈ لائن کھنچی گئی اور افغان وطن تقسیم ہوا تو ہم افغانستان کے شہری نہیں رہے لیکن ہم افغان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب افغانستان میں سوویت یونین کی فوجیں داخل ہوئیں تو ہمارے استعماری حکمرانوں نے تمام افغانوں کو دعوت دی اور ان سے کہا کہ افغانستان” دارالحرب “ بن چکا ہے کفر داخل ہوگیا ہے لہٰذاآپ لوگ ہماری طرف آئیں ہم آپکا مدینہ کے انصار کی طرح استقبال کرینگے ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے آئے ہوئے کھڈوال عوام کاتمام ریکارڈ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایچ سی آر کےپاس موجود ہے ۔ہم یہاں کہتے نہیں تھکتے تھے کہ افغانوں نے ہمارے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں کہ روس کے ساتھ لڑکر نہ صرف اپنا دفاع کیا بلکہ پاکستان کا بھی دفاع کیا ہمارے حکمران انہیں مہاجرین نہیں بلکہ مجاہدین کی نام سے پکارتے تھے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب جنرل مشرف کی پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے انگریزی میں پوچھا Rables in afghanistan لیکن مشرف نے اسے برجستہ جواب دیا کہ Rables مت کہو بلکہ فریڈم فائٹرز آف افغانستان تو یہ الگ رشتہ تھا پاکستان کا افغانستان کے لوگوں کے ساتھ ،انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ساتھ معاہدے کے تحت افغانستان کے لوگ پاکستان میں موجود ہیں،اگر اب انہیں جانا چاہیے یا کوئی بھیجنا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن یہ ایک غلط عمل ہے کہ ان کے بہانے یہاں کے مقامی پشتون عوام کے شناختی کارڈ ز بلاک کئے جائیں ۔انہوں نے کہا کہ پشتونخوامیپ کسی بھی غیر ملکی کو شناختی کارڈ دینے کے حق میں نہیں ہے مگر ہم کہتے ہیں جس طرح دبئی ودیگر ممالک میں لاکھوں پاکستانی ، انڈین ، انڈونیشین ودیگر ممالک کے لوگ رہتے ہیں تو انہیں ورک پرمٹ دیا جاتا ہے اور وہ وہاں زندگی بسر کرتے ہوئے اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مقیم افغان عوام کو غیر قانونی طریقے سے تنگ کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی ،کیونکہ اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت انہیں یہاں رہنے کا حق ہے جب معاہدہ ختم ہو تو بیشک انہیں باعزت طریقے سے بھیجا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے وائس آف امریکہ کو اپنی انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ کسی کو افغان کھڈوال سے پنجابی ، سرائیکی ، سندھی یا بلوچ عوام تنگ ہیں تو انہیں پشتونخوا وطن کی طرف بھیجا جائے وہ یہاں آرام سے رہینگے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح کی کہ میرے انٹرویو کوصحیح معنوں میں نہیں سمجھا گیا اور محض چند الفاظ نکال کر غلط طور پر واویلا کیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم واضح اور نرم الفاظ میں یہ کہہ رہے ہیںاور مسلمان انسان اور پاکستانی کی حیثیت سے یہ بات کرنا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں افغانوں کو ناحق اور بلاوجہ تنگ کرنے نہیں دینگے ۔ انہوں نے کہاکہ ایک ماہ قبل کوئٹہ کی صوبائی اسمبلی میں ہمارے چار ارکان نے نادرا اور پاسپورٹ کے غلط کاریوں کی نشاندہی کی تو اگلے روز نادرا کے ڈی جی نے وزارت داخلہ اسلام آباد اور نادرا کے چیئرمین کوخفیہ خط لکھا اور یہ خط اسی وقت تمام چینلز اور سوشل میڈیا میں چلا کر ہمیں دنیا جہاں کی گالیاں دی گئیں مگر ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نے کبھی کسی غیر ملکی کو شناختی کارڈ نہیں دیا ۔انہوں نے کہاکہ اگر کسی کو غلط شناختی کارڈ جاری ہوا ہے وہ یا تو کسی کے اشارے پر جاری ہوا ہے یا پھر انہوں نے بہت بڑی رقم دی ہوگی ۔ اس میں جو بھی ملوث ہے اسے سخت سے سخت سزا دی جائے مگر جعلی شناختی کارڈوں کا ملبہ پشتونخوامیپ پر نہ ڈالا جائے اور نہ ہی خیبر پختونخوا ، فاٹا ، جنوبی پشتونخوا کے عوام کے شناختی کارڈز کو بند کرنیکی اجازت دینگے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اِس ریاست کے شہری ہیں ہم اس کے قوانین ،آئین کو مانتے ہیں مگر ماورائے آئین کوئی عمل ہمیں قبول نہیں اور نہ ہی کسی اور کو قبول ہونا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں کہ مداخلت ہورہی ہے اور نان سٹیٹ ایکٹرز کوپالا جارہا ہے اس مسئلے پر میں نے یہ تجویز کی کہ امریکہ ، چین ، پاکستان اور افغانستان جو افغانستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو مانیٹر کررہے ہیں وہ یہ ڈیوٹی بھی چین اور امریکہ کے حوالے کریں کہ وہ سیٹلائٹ سے ڈیورنڈ لائن کو مانیٹر کرے کہ کون مداخلت کررہا ہے اور چار ملکی کمیٹی کو رپورٹ پیش کرے۔
تازہ ترین