بلا پی ٹی آئی کا انتخابی نشان ہوگا یا نہیں؟ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس حوالے سے الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ اگر بلے کا انتخابی نشان بنتا ہے تو پی ٹی آئی کو ملنا چاہیے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔
دوران سماعت ریمارکس میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم نے پی ٹی آئی کے مقدمے کے لیے جوڈیشل کونسل کا اجلاس آگے کیا، پی ٹی آئی انتخابات کرانے آئی تو 12 دن میں انتخابات کی تاریخ دے دی، آپ الیکشن کمیشن کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست لائے تو فوری الیکشن کمیشن سے جواب مانگ لیا، آپ لاہور ہائی کورٹ گئے وہاں لارجر بینچ بنا دیا، آپ لاہور ہائی کورٹ چھوڑ کر پشاور چلے گئے ریلیف مل گیا، اب اور کیا کریں؟ فورم شاپنگ کا لفظ میں استعمال کرنا نہیں چاہ رہا تھا، یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جب ایک جگہ سے ریلیف نہ ملا تو دوسرے جگہ بھاگو، اس طرح تو سسٹم خراب ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آرٹیکل 17 کہتا ہے ہر شخص کو پارٹی بنانے اور ووٹ ڈالنے کا حق ہے، آرٹیکل 25 قانون کے یکساں اطلاق کا کہتا ہے۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہ کیا اس پر تو اعتراض نہیں ہے۔
تحریکِ انصاف کے وکیل حامد خان کمرۂ عدالت میں موجود ہیں جبکہ علی ظفر لاہور رجسٹری سے بذریعہ ویڈیو لنک موجود ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ تفصیلی فیصلہ ابھی نہیں آیا۔
مخدوم علی خان نے بلے کا نشان واپس کرنے کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
وکیل حامد خان نے استدعا کی کہ مجھے تیاری کے لیے پیر تک وقت دے دیں۔
’’3 دن تک کیس ملتوی کرنا ہے تو پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرنا ہو گا‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 3 دن تک اگر کیس کو ملتوی کرنا ہے تو پھر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنا ہو گا، ہم تو کل اور پرسوں کام کرنے کے لیے تیار ہیں، ہفتے اور اتوار کی چھٹی قربان کر کے انتخابات کے کیسز سن سکتے ہیں، صرف یہ چاہتے ہیں کہ انتخابات وقت پر اور قانون کے مطابق ہوں، معلوم ہے کہ اب انتخابات میں وقت کم ہے۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ کیس کی فائل میں نے بھی نہیں پڑھی، آپ مقدمے کے لیے کب تیار ہوں گے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کل امیدواروں کو انتخابی نشان الاٹ ہونے ہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ اس صورت میں تیاری کے لیے کل تک کا وقت دیں، الیکشن کمیشن بتائے وہ کس طرح اپیل داخل کر سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن ایک جزوی عدالتی فورم ہے ان کا حقِ دعویٰ نہیں بنتا۔
’’پی ٹی آئی پر سوال آئے گا کہ وہ پشاور ہائیکورٹ کیسے چلی گئی‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ بھی ہے، اگر آپ الیکشن کمیشن کی اپیل کے قابلِ سماعت ہونے پر اعتراض اٹھائیں گے تو یہی سوال آپ پر آئے گا، آپ پر بھی سوال آئے گا کہ آپ پشاور ہائی کورٹ میں کیسے چلے گئے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے گزشتہ پارٹی انتخابات 2017ء میں ہوئے تھے، پارٹی آئین کے مطابق تحریکِ انصاف 2022ء میں پارٹی انتخابات کرانے کی پابند تھی، الیکشن کمیشن نے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات نہ کرانے پر پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا طریقہ کار کہاں درج ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پہلے جمال انصاری بعد میں نیاز اللّٰہ نیازی پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر بنے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے باقی ارکان کون تھے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کے علاوہ کوئی اور ممبر تعینات نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے سوال کیا کہ کیا یہ بات درست ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کی یہ بات درست نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کی دستاویزات کہاں ہیں؟
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ کیس کی تیاری کے لیے وقت اسی لیے مانگا تھا، الیکشن کمیشن کی اپیل قابلِ سماعت اور حقِ دعویٰ نہ ہونے پر بھی دلائل دوں گا، مناسب ہو گا کہ پہلے حقِ دعویٰ اور قابلِ سماعت ہونے کا نکتہ سن لیں، ایک فریق پارٹی جو الیکشن کمیشن کے آرڈر سے متاثرہ ہے اس کا حقِ دعویٰ تو بنتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، یہاں روز کلکٹر اپنے آرڈرز کے دفاع کے لیے آتا ہے، اس پر تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کی نظر میں برقرار نہیں رہ سکتا، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ کرے۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا تو حقِ دعویٰ ہی نہیں بنتا، الیکشن کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کیسے چیلنج کر سکتا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جس کی بنیادی 2 ذمے داریاں ہیں، الیکشن کمیشن کی 1 ذمے داری یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے معاملات دیکھے، دوسرا صاف و شفاف انتخابات کرائے، جب ایک کلکٹر کسٹم عدالت میں اپیل کر سکتا ہے تو الیکشن کمیشن کیوں نہیں؟ اگر الیکشن کمیشن کے حقِ دعویٰ پر سوال ہے تو آپ پر بھی سوال اٹھے گا کہ پی ٹی آئی کیوں ہائی کورٹ گئی؟ الیکشن کمیشن اپیل نہ کرے تو اس کے فیصلے بے معنی ہو جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ متاثرہ فریق اپیل کر سکتا ہے الیکشن کمیشن نہیں، کیا ڈسٹرکٹ جج خود اپنا فیصلہ کالعدم ہونے کی خلاف اپیل کر سکتا ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ جج عدلیہ کے ماتحت ہوتا ہے، الیکشن کمیشن الگ آئینی ادارہ ہے، کیا الیکشن کمیشن اپنے خلاف فیصلہ آنے پر سرینڈر کر دے؟ حامد خان صاحب! ایک آئینی ادارے کا قانونی ادارے سے تقابل نہ کریں، آپ نے جو 2 فیصلوں کا حوالہ دیا وہ قانونی اداروں کے حوالے سے ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہر آئینی ادارہ قانون کے تحت چلتا ہے اور الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ کے قانون کے مطابق چلتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چلیں ہم نے آپ کے اعتراض کو نوٹ کر لیا ہے، آپ کے پاس اعتراضات کرنے کا بالکل حق موجود ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمیں کل ہی نوٹس ملا ہے ہم تیار نہیں ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے ابھی تک یہ بات سمجھ آئی ہے کہ پارٹی نے اپنے ہی آئین کے تحت الیکشن نہیں کرایا، حامد خان صاحب! آپ دستاویزات داخل کرنا چاہتے ضرور کریں، آپ چاہتے ہیں کہ عدالت الیکشن کمیشن کا ریکارڈ منگوا لے تو ہم وہ بھی منگوا لیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت نے مسابقتی کمیشن اور وفاقی محتسب کے کیسز میں اداروں کو اپنے فیصلوں کے خلاف اپیلوں سے روکا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے سوال کیا کہ کیا آئینی اداروں پر ان فیصلوں کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ قانون اور آئین کے تحت قائم ادارے ایک جیسے نہیں ہو سکتے، آئین کے تحت بنا الیکشن کمیشن آئین کے مطابق ہی اختیارات استعمال کرے گا، کوئی ایسا فیصلہ دکھائیں جہاں آئینی اداروں کو اپیلوں سے روکا گیا ہو؟
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کا انحصار آئین نہیں الیکشن ایکٹ پر ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی بات مان لی تو یہ آئینی ادارے کو ختم کرنے والی بات ہو گی، الیکشن کمیشن کے کام میں سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرے گی، ایک بار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ آگے کرنے لگے، میں نے جسٹس جواد ایس خواجہ سے کہا کہ میں اختلافی نوٹ لکھوں گا، میں نے واضح کہا تھا کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے میری بات سے اتفاق کیا تھا، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے اس کے کام میں کوئی ادارہ مداخلت نہیں کر سکتا، اگر الیکشن کمیشن کوئی غیر آئینی کام کرے تو پھر معاملہ دیکھا جا سکتا ہے، الیکشن کمیشن کے وکیل کو کیس کے حقائق سے آگاہ کرنے دیں، پارٹی الیکشن کمیشن کی تقرری کی دستاویز کہاں ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ عدالت باضابطہ نوٹس جاری کرتی تو آج دستاویزات بھی لے آتے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی خود ہائی کورٹ گئی تھی، انہیں تو اپیل دائر ہونے پر حیران نہیں ہونا چاہیے تھا، الیکشن کمیشن سے کارروائی کا مکمل ریکارڈ منگوا لیتے ہیں، یہ مختلف افراد کو کیوں فریق بنایا گیا ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جن افراد نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن چیلنج کیا انہیں فریق بنایا گیا ہے، اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے بانی رکن اور حصہ ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے رکن نہیں ہیں۔
اس موقع پر اکبر ایس بابر کی جانب سے ایڈووکیٹ احمد حسن عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اکبر ایس بابر تحریکِ انصاف کے رکن کیسے ہیں؟
اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے ہماری شکایت پر کوئی تحریری جواب نہیں دیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اکبر ایس بابر نے خود کو پی ٹی آئی کا بانی رکن لکھا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ اکبر ایس بابر اب پی ٹی آئی کے رکن نہیں ہیں، پارٹی کا بیان کسی انفرادی شخص کے بیان پر فوقیت رکھتا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جذباتی نہ ہوں، اکبر ایس بابر کے رکن نہ ہونے کی دستاویز دکھا دیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ اکبر ایس بابر بانی رکن تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بانی رکن تو میرے حساب سے ختم نہیں ہو سکتا، اگر نکالا ہے تو لیٹر دکھا دیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے سوال کیا کہ کیا آپ بھی پی ٹی آئی کے بانی رکن ہیں؟
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ میں بھی پی ٹی آئی کا بانی رکن ہوں، بانی ارکان 8 سے 12 تھے، بانی ارکان اور بعد میں آنے والوں میں فرق کرنا ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے بعد حتمی طور پر بتائیں گے کہ دوبارہ سماعت ہو گی یا نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ وکیل احمد حسن نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ قرار دے چکی ہے کہ اکبر ایس بابر پی ٹی آئی کے رکن ہیں، کیا پی ٹی آئی کے انتخابات بلا مقابلہ ہوئے تھے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نے کہا کہ پہلے 3 پینل تھے پھر اعلان ہوا کہ سب لوگ دستبردار ہو گئے اور انتخاب بلا مقابلہ ہوا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سیاست میں تو مقابلے ہوتے ہیں، لوگ ٹکٹ کے لیے لڑائیاں کرتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ کسی عہدے پر کوئی مقابلہ نہیں ہوا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ نیاز اللّٰہ نیازی کون ہیں؟ کیا وہ عدالت آئے ہیں؟
اس موقع پر نیاز اللّٰہ نیازی عدالت میں پیش ہو گئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ وکیل ہیں؟ سب کا بلا مقابلہ منتخب ہونا کیا عجیب اتفاق نہیں؟
چیف الیکشن کمشنر پی ٹی آئی نیاز اللّٰہ نیازی نے جواب دیا کہ تمام عہدے دار بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ جمہوریت تو نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا بھی یہی مؤقف ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں فیڈرل الیکشن کمشنر کا ذکر ہے جبکہ نتائج کا اعلان چیف الیکشن کمشنر نیاز اللّٰہ نیازی نے کیا، انتخابی نتائج پر صرف چیف الیکشن کمشنر کے دستخط ہیں کسی صوبائی الیکشن کمشنر کے نہیں، کیا صوبوں کے انتخابات بھی پشاور میں ہی ہوئے ہیں؟ پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے ان سوالات کے جواب لیں گے۔
اس کے ساتھ ہی عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے کیس کی سماعت میں ڈیڑھ بجے تک وقفہ کر دیا گیا۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے دوبارہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کیس میں 64 صفحات پر مشتمل فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹرا پارٹی انتخابات پر سوالات اٹھائے تھے، الیکشن کمیشن کے مطابق تحریکِ انصاف کے انتخابات قانون کے مطابق نہیں تھے، پی ٹی آئی کے انتخابات خفیہ اور پیش کی گئی دستاویزات حقائق کے مطابق نہیں تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ پہلے پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر تھے، کیا وہ پارٹی چھوڑ گئے؟ اسد عمر صاحب کا کوئی استعفیٰ ہے؟ کیا ان کو پی ٹی آئی سے نکالا گیا ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے بتایاکہ اسد عمر سے متعلق الیکشن کمیشن کے پاس معلومات نہیں، عمر ایوب نے پی ٹی آئی کے انتخابات سے متعلق نوٹیفکیشن پر دستخط کیے، اب عمر ایوب سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی ہیں، وہ کیسے سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی بنے یہ نہیں معلوم۔
’’پی ٹی آئی نے اپنے آئین کی خلاف ورزی کی‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے آئین کی خلاف ورزی کی، انٹرا پارٹی انتخابات کہاں ہوئے؟ ہوٹل میں یا کرکٹ گراؤنڈ میں؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کو نہیں بتایا گیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کہاں کرائے گئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ انتخابات گانوگڑی میں ہوئے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں انٹرا پارٹی انتخابات کیوں کرائے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کوئی نوٹیفکیشن ہے کہ کس جگہ انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے، ورکرز کو بتایا گیا یا نہیں؟ انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق نوٹیفکیشن نہیں تو کیسے ورکرز کو پتہ ہو گا کہ کہاں ووٹنگ ہے، سوال تو یہ اٹھے گا کہ ممبران کو کیسے پتہ ہوگا کہ کہاں جا کر ووٹ ڈالیں؟ بتایا تو جاتا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کہاں ہو رہے ہیں تاکہ سیکیورٹی انتظامات کیے جاتے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان کو ہدایت کی کہ پی ٹی آئی کے وکیل جواب نہیں دینا چاہتے، آپ آگے چلیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے تحریری پوچھا کہ انتخابات کہاں کرا رہے ہیں تاکہ انتظامات ہوتے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو جواب دیا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے استدعا کی کہ ویڈیوز چلانے کی اجازت دے دیں، عدالت کو ثبوت دکھانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ قانون کی عدالت ہے، کوئی دستاویز ہے تو دکھائیں، ویڈیو چلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے نیاز اللّٰہ نیازی سے سوال کیا کہ آپ کی جماعت کے کتنے ممبر ہیں؟
نیاز اللّٰہ نیازی نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کے 8 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ ممبرز ہیں، ووٹنگ ہوئی تھی، ویڈیوز چلا کر دیکھ لیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے نیاز اللّٰہ نیازی سے کہا کہ آپ آج وکیل نہیں پارٹی ہیں، آپ کو کوئی تمیز ہے کہ سینئر وکلاء کی موجودگی میں اجازت لے کر بات کرتے ہیں، آپ کی پارٹی کے وکیل موجود ہیں، آپ بیٹھ جائیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان سے سوال کیاکہ پی ٹی آئی کے 2 دسمبر سے پہلے کب الیکشن ہوئے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کے آخری الیکشن جون 2017ء میں ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان کا کہنا ہے کہ آخری الیکشن دسمبر میں ہوئے دستاویزات سے بتائیں، ان کا کہنا ہے کہ 8 جون 2022ء کے انتخابات درست تھے جن کی الیکشن کمیشن نفی کر رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ 8 جون 2022ء کے انتخابات کا ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں رکھا کیونکہ انہوں نے دوبارہ انتخابات کا فیصلہ تسلیم کیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا 8 جون 2022ء کو جو انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے وہی لوگ حالیہ انتخابات میں بھی تھے؟
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت وقت دے تو تمام سوالات کے جواب دیں گے۔
’’لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی نے درخواست کو زندہ کیوں رکھا؟‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو مکمل وقت دیں گے لیکن جو سوالات ساتھ ساتھ اٹھ رہے ہیں ان کے جواب دیں، مطلب آپ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج بھی کیا اور الیکشن بھی کرا دیا، حامد خان صاحب! یہ لاجک بتائیے کیا ہے؟ پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق ہائی کورٹ میں کیس زیرِ التواء ہے، ہائی کورٹ کو تو کچھ جا کر بتائیں کہ درخواست واپس لے رہے ہیں یا نہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کا حکم چیلنج بھی کیا اور انٹرا پارٹی انتخابات بھی کر لیے، اگر الیکشن کمیشن کے حکم پر عمل کرنا تھا تولاہور ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لیتے، لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی نے درخواست کو زندہ کیوں رکھا؟
بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو چیئرمین شپ سے ہٹانے کا کیس انتخابات کے ساتھ منسلک کر دیا ہے، 2 مقدمات یکجا ہونے کے باعث لاہور ہائی کورٹ سے درخواست واپس نہیں لی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ پشاور ہائی کورٹ میں آپ لوگ پھر کیوں چلے گئے؟ ایک ہائی کورٹ میں کیس زیرِ التواء تھا تو دوسری ہائی کورٹ کیسے سن سکتی ہے؟
بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ پشاور میں پی ٹی آئی کے انتخابات ہوئے اس لیے وہاں کیس دائر کیا، اسلام آباد اور مختلف جگہوں سے ہمارے کارکنان اٹھائے جا رہے تھے، پشاور ہائی کورٹ شاپنگ کرنے نہیں گئے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ لفظ آپ نے استعمال کیا ہے میں نے نہیں، آپ کے اپنے الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتخابات چمکنی میں ہوئے پشاور میں نہیں، لاہور ہائی کورٹ میں درخواست زیر التواء رکھ کر پشاور کیسے پہنچ گئے؟ مجھے یہ سمجھ نہیں آیا، الیکشن کمیشن کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جہاں پہلے سے ایک درخواست پڑی تھی، لاہور ہائی کورٹ میں فیصلے کا انتظار کیا جاتا، الٹا پشاور ہائی کورٹ چلے گئے، لاہور ہائی کورٹ بھی پی ٹی آئی کو پسند نہیں آئی؟ کبھی لاہور ہائی کورٹ جاتے ہیں کبھی پشاور چلے جاتے ہیں، فورم شاپنگ کا لفظ میں استعمال کرنا نہیں چاہ رہا تھا، فورم شاپنگ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جب ایک جگہ سے ریلیف نہ ملا تو دوسرے جگہ بھاگو، اس طرح تو سسٹم خراب ہو جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آپ کے سامنے کیس زیرِ التواء ہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ مل رہی ہے نہ ہی سیکیورٹی دی جا رہی ہے، پشاور وہ واحد جگہ تھی جہاں سیکیورٹی تھی اور انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا، جب انتخابات پشاور میں ہوئے تو چیلنج بھی پشاور ہائی کورٹ میں کیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ لاہور ہائی کورٹ گئے، آپ کی درخواست پر فل کورٹ بنایا، اگر بلے کا انتخابی نشان بنتا ہے تو پی ٹی آئی کو ملنا چاہیے، ہم نے پی ٹی آئی کے مقدمےکے لیے جوڈیشل کونسل کا اجلاس آگے کیا، پی ٹی آئی انتخابات کرانے آئی تو 12 دن میں انتخابات کی تاریخ دے دی، انتخابات کی تاریخ دی تو علی ظفر خوش اور اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرلز سب خوش ہیں، آپ الیکشن کمیشن کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست لائے ہم نے فوری طور پر الیکشن کمیشن سے جواب مانگ لیا، آپ لاہور ہائی کورٹ گئے وہاں لارجر بینچ بنا دیا، آپ لاہور ہائی کورٹ کو چھوڑ کر پشاور ہائی کورٹ چلے گئے ریلیف مل گیا، اب اور کیا کریں؟ میرا طریقہ کار شاید لوگوں کو پسند نہیں ہے، میرا طریقہ کار یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی قانونی سوال ہو فوری طور پر کر لیتا ہوں۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے چیئرمین پی ٹی آئی کو پارٹی عہدے کے لیے نااہل کرنے کے لیے کیس چلایا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے بیرسٹر گوہر سے سوال کیا کہ آپ کس حیثیت میں دلائل دے رہے ہیں؟
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے جواب دیا کہ عدالت کی معاونت کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں ہدایت کی کہ حامد خان سینئر وکیل ہیں، انہیں بات کرنے دیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ پی ٹی آئی کی ایک درخواست خارج کر چکی ہے، پشاور ہائی کورٹ میں مقدمہ زیرِ التواء ہونے کی وجہ سے لاہور ہائی کورٹ نے درخواست خارج کی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ پھر تو لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ نہیں بنے گا، کیا لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کی گئی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق تو انٹرا کورٹ اپیل واپس لے لی گئی تھی۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ جن درخواستوں کا ذکر ہو رہا ہے وہ امیدواروں نے اپنے طور پر دائر کی تھیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ درخواست گزار عمر آفتاب صدر پی ٹی آئی شیخوپورہ ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ درخواست میں کی گئی استدعا پارٹی کی جانب سے تھی، پشاور اور لاہور ہائی کورٹ میں تضاد تو آ گیا ہے، کیا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ پی ٹی آئی نے چیلنج کیا ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ پی ٹی آئی بطور جماعت فریق ہی نہیں تھی تو چیلنج کیسے کرتی؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ ایک ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کا فیصلہ ہو دوسری ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ کا تو فوقیت کسے ملے گی؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ڈویژن بینچ کے فیصلے کو فوقیت دی جائے گی۔
’’لگتا ہے پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن سے پرانا جھگڑا چل رہا ہے‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن سے پرانا جھگڑا چل رہا ہے، پی ٹی آئی کی حکومت کب تک رہی ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ 10 اپریل 2022ء تک پی ٹی آئی حکومت میں رہی، اس وقت کورونا کی وجہ سے پی ٹی آئی نے پارٹی انتخابات نہ کرانے کا بتایا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مطلب جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی الیکشن کمیشن ریلیف دے رہا تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ نہیں الیکشن کمیشن نے اس وقت بھی پی ٹی آئی کو نوٹس کیا تھا، پی ٹی آئی تسلیم کرتی ہے کہ ان کے پارٹی الیکشن ہونا ہیں، الیکشن کمیشن نے اگست 2021ء کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے لیے ایک سال دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن بہت سخی تھا، جب اس پارٹی کی حکومت تھی الیکشن کرانے کے لیے 2 سال دیے، جون 2022ء والے الیکشن کیوں کمیشن نے درست قرار نہ دیے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کا رویہ ان کے ساتھ سخت کس وجہ سے ہو گیا، الیکشن کمیشن نے بطور سرکاری پارٹی انہیں بہت اکاموڈیٹ کیا، الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ عمر ایوب کو الیکشن کمشنر مقرر کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے 2021ء میں بھی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس کیا، تحریکِ انصاف نے 10 جون 2022ء کو انتخابات کرائے جس پر اعتراض اٹھایا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کورونا کی وجہ سے کتنی سیاسی جماعتوں نے انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے توسیع مانگی؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا اب الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے رویہ سخت ہو گیا ہے؟ خطوط دیکھ کر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ الیکشن کمیشن کا رویہ بدلتا رہا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی تب بھی شوکاز نوٹس کیے گئے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ الیکشن کمیشن کا سخت رویہ نیا ہے یا پرانا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ عمر ایوب کو نیاز اللّٰہ نیازی کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کرنے کا اختیار نہیں تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پی ٹی آئی کا پہلے مؤقف تھا کہ جون 2022ء والے انتخابات درست تھے، دوبارہ الیکشن پر جو عہدے دار فارغ ہوئے کیا ان کے حقوق متاثر نہیں ہوئے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کو حکومت میں ہوتے ہوئے بھی شوکاز دیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نگراں حکومت کے دباؤ میں کام نہیں کر رہے؟ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو وقت مانگنے پر ایک سال دیا پھر کہا کہ انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، پہلے پی ٹی آئی سرکاری پارٹی تھی اب شاید نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب ہونا ضروری ہے، نیاز اللّٰہ نیازی کا تقرر کسی بھی انتخاب کے بغیر ہوا، بیرسٹر گوہر نے بطور چیف الیکشن کمشنر استعفیٰ دیا جس پر نیاز اللّٰہ نیازی کا تقرر ہوا، عمر ایوب کے سیکریٹری جنرل ہونے کے بارے میں بھی الیکشن کمیشن کو آگاہ نہیں کیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کو سیکریٹری جنرل کی تبدیلی سے آگاہ کرنا ضروری ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت آگاہ کرنا ضروری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا باقی جماعتوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک ہی کیا جا رہا ہے؟ پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک تو نہیں ہو رہا؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ یکساں رویہ ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق سیکریٹری جنرل ابھی تک اسد عمر ہیں، اسد عمر کی جگہ طریقہ کار کے تحت نیا سیکریٹری جنرل پارٹی آئین کے مطابق نہیں آیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے ورکرز کو پارٹی الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا، ہر سیاسی جماعت کے ووٹر کا آئینی حق ہے کہ وہ اپنا ووٹ دے، اگر ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے تو قومی سطح پر بھی آمریت تصور ہو گی، اگر انٹرا پارٹی انتخابات میں ممبرز کو ووٹ نہ دینے دیا جائے تو یہ حق تلفی ہو گی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن جس طرح پی ٹی آئی کی چھان بین کر رہا ہے کیا سب جماعتوں کی ایسے ہی ہوتی ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ مجھے دی گئی ہدایات کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں سے انٹرا پارٹی انتخابات کا پوچھا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بظاہر نظر آ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد کارروائی نہیں ہوئی، پہلے سے مسئلہ چل رہا ہے، الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں اصلی ووٹ کاسٹ ہونے چاہئیں، اگر انٹرا پارٹی انتخابات بلا مقابلہ ہوئے تو پی ٹی آئی کے ووٹ کیسے کاسٹ ہوئے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بیرسٹر گوہر علی خان کو بلا مقابلہ چیئرمین پی ٹی آئی بنایا گیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بیرسٹر گوہر نے بطور چیف الیکشن کمشنر استعفیٰ دیا جس پر نیاز اللّٰہ نیازی کا تقرر ہوا، عمر ایوب کے سیکریٹری جنرل بننے کا بھی الیکشن کمیشن کو آگاہ نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق اب بھی پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری اسد عمر ہیں۔
’’حامد خان آپ مخدوم علی خان کو کلین بولڈ کرنے کیلئے تیار رہیں‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے مخدوم علی خان کو پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ دوبارہ پڑھنے کی ہدایت کی اور پی ٹی آئی کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ حامد خان آپ مخدوم علی خان کو کلین بولڈ کرنے کے لیے تیار رہیں۔
الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔