لیول پلیئنگ فیلڈ نہ دینے سے متعلق پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل لطیف کھوسہ سے کہا کہ ہمارا فیصلہ ماننا ہے مانیں، نہیں ماننا تو آپ کی مرضی، آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ مجھے ہدایات ملی ہیں کہ درخواست واپس لے لی جائے، آپ کے 13 جنوری کے فیصلے سے ہماری 230 سے زائد نشستیں چھن گئیں، ہم آپ کی عدالت میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے لیے آئے تھے، 13جنوری کی رات 11:30 پر ایسا فیصلہ سنایا گیا جس سے پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر گیا، ہم اب کیا توقع کریں کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی، آپ کے پاس آئین کے آرٹیکل187 کے تحت اختیار ہیں، آپ احکامات دے سکتے ہیں، ہم آپ کی عدالت میں یہ کیس نہیں لڑنا چاہتے، پی ٹی آئی کے امیدواروں میں سے کسی کو ڈونگا اور کسی کو گلاس دے دیا گیا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ نے تو پی ٹی آئی کی فیلڈ ہی چھین لی، الیکشن کمیشن صرف انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، ایک جماعت کو پارلیمان سے باہر کر کے پابندی لگائی جا رہی ہے، پی ٹی آئی کے تمام امیدوار آزاد انتخابات لڑیں گے اور کنفیوژن کا شکار ہوں گے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل لطیف کھوسہ سوال کیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے انتخابات شفاف نہیں ہیں؟
لطیف کھوسہ نے کہا کہ انتخابات بالکل غیرمنصفانہ ہیں، ہم نے عدلیہ کے لیے خون دیا، قربانیاں دیں۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ ہمیں بھی بولنے کی اجازت دیں، دوسرے کیس کی بات اس کیس میں کرنا مناسب نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کا ملبہ ہم پر نہ ڈالیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے جس جماعت سے اتحاد کیا اس کے سربراہ کو اٹھا لیا اور پریس کانفرنس کروائی گئی، اتحاد کرنے پر بھی اب ہم پر مقدمات بنانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، آپ کے فیصلے سے ہمیں پارلیمانی سیاست سے نکال دیا گیا، آپ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے لوگ آزاد انتخابات لڑیں گے، عدالت کے فیصلے سے جمہوریت تباہ ہو جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار کہا تھا کہ دکھا دیں انٹرا پارٹی انتخابات کا ہونا دکھا دیں، آپ کو فیصلہ پسند نہیں تو کچھ نہیں کر سکتے، لیول پلیئنگ فیلڈ پر ہم نے حکم جاری کیا تھا، عدالت حکم دے سکتی ہے حکومت نہیں بن سکتی، بیرسٹر گوہر کے معاملے پر پولیس اہلکار معطل ہوگئے، ہمارا کام انتخابات قانون کے مطابق کروانا ہے، الیکشن کا معاملہ ہم نے اٹھایا، پی ٹی آئی کی درخواست پر 12 دن میں تاریخ مقرر کی، الیکشن کمیشن کہتا رہا پارٹی انتخابات کرائیں لیکن نہیں کرائے گئے، کسی اور سیاسی جماعت پر اعتراض ہے تو درخواست لے آئیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل لطیف کھوسہ سے سوال کیا کہ آپ بتا رہے تھے کہ آپ نے کسی جماعت سے اتحاد کیا ہے؟
وکیل لطف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں وہی تو بتا رہا ہوں کہ ہمیں اتحاد بھی نہیں کرنے دیا گیا۔
الیکشن کمیشن ایک پارٹی کے پیچھے بھاگ رہا ہے: جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن فیئر نہیں ہے، الیکشن کمیشن ایک پارٹی کے پیچھے بھاگ رہا ہے، الیکشن کمیشن کو دوسری جماعتیں نظر نہیں آتیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے الیکشن کا معاملہ اٹھا، ہم نے تاریخ دلوائی، کیا آپ تاریخ دلوا سکے تھے؟ قانون ہم نہیں بناتے، قانون پر عمل کرواتے ہیں، آپ کو قانون نہیں پسند تو بدل دیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اے این پی کو الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان واپس دیا، پی ٹی آئی کو کیوں نہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں کل پتہ چلا ہے کہ اے این پی کے آئین کے مطابق ابھی وقت موجود تھا، اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے عوامی نیشنل پارٹی کو نشان واپس لوٹایا۔
چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لطیف کھوسہ صاحب یہ درست طریقہ کار نہیں ہے، آپ سینئر وکیل ہیں، آپ پاکستان کے سارے ادارے تباہ کر رہے ہیں۔