• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولوی عبدالحق ، احسن مارہروی ،عبدالستار صدیقی ، غلام مصطفی خان، رشید حسن خان، فرمان فتح پوری اور بعض دیگر اہل علم نے لکھا ہے کہ جو الفاظ خالصتاً اردو یاہندی کے ہیں ان کے آخر میں ہاے مختفی (یعنی ’’ہ‘‘) کے بجائے الف لکھنا چاہیے ، مثلا ً انڈا ، گھونسلا، تانگا، دھماکا، اڈا، سمجھوتا، بھروسا، مہینا ، پسینا،دھوکا، پتا(جیسے اتا پتا )، پتّا(درخت کا)، روپیا، کلیجا اور ٹھیکا وغیرہ کے آخر میں الف چاہیے اور ان کے آخر میں ہائے مختفی (یعنی ’ہ‘ لکھنا) یعنی ان الفاظ کو انڈہ ، گھونسلہ، تانگہ ، دھماکہ اور بھروسا وغیرہ لکھنا غلط ہے ۔ وجہ یہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ ہائے مختفی عربی اور فارسی الفاظ کے آخر میں آتی ہے اور اس قسم کے الفاظ(مثلاً انڈا، بھروسا، سمجھوتا ، دھماکا،تانگا) خالصتاً مقامی یعنی اردو یا ہندی کے ہیں۔

شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے اس سے اختلاف کیا ہے اور اپنی کتاب لغات ِ روزمرہ میں اردو املا میں اصلاح کی ایسی کوششیں کرنے والوں کو طنزاً ’’بزعم ِ خود مصلحانِ املائے اردو ‘‘کہا ہے۔ فاروقی صاحب نے پرانی لغات کے حوالے دیے ہیں اور لکھا ہے کہ بعض الفاظ مثلاً بنگالہ، روپیہ اور مالوہ کا یہ املا (یعنی آخر میں الف نہیں بلکہ ہائے مختفی) تین سوسال سے رائج ہے اور ’’اس میں تبدیلی اب وہی کرنا چاہے گا جسے زبان میں خواہ مخواہ چمڑے کا سکہ چلانا منظور ہو‘‘۔ بقول ان کے کیا ’’امروہہ ‘‘ کو اب ’’امروہا ‘‘ لکھاجائے گا۔ لیکن فاروقی صاحب شاید بھول گئے کہ ان ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ مقامات کے ناموں کے آخر میں الف نہیں بلکہ ’’ہ‘‘ ہی لکھی جائے گی، جیسے : پٹنہ، امروہہ، کلکتہ، مالوہ، بنگالہ، ڈھاکہ وغیرہ مقامات ہیں اور ان کے آخر میں الف نہیں ’’ہ‘‘ لکھنی چاہیے۔ 

لیکن آج یہ بحث منظور نہیں کہ انڈااورانڈہ یا بھروسا اور بھروسہ میں سے کون سا املا درست ہے۔ بلکہ آج صرف یہ عرض کرنا تھا کہ بعض ’’مصلحانِ اردو‘‘ نے جوشِ اصلاح میں ایسے الفاظ میں بھی الف کی جگہ ہائے مختفی لکھنے پر زور دیا ہے جودرحقیقت عربی یا فارسی کے ہیں لیکن ان مصلحین کے خیال میں یہ عربی یا فارسی کے نہیں بلکہ ہندی یا اردو کے ہیں۔ ایسا ہی ایک لفظ ہے خاکہ ، جس کوبھائی لوگ اب خاکا لکھنے پر زور دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اردو والوں نے خاک سے خاکہ بنالیا ہے۔

لیکن حضور !خاک تو فارسی ہے اور خاکہ بھی فارسی کا لفظ ہے اور اس لیے اس کے آخر میں ہاے مختفی (’’ہ‘‘) ہی چاہیے ۔ خاکہ فارسی کے لفظ خاک سے بنا ہے اور اس کے آخر میں ’’ہ‘‘ نسبت کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک کام کی بات آپ کو بتائے دیتے ہیں۔ محمد حسین آزاد نے جامع القواعد میں لکھا ہے کہ ’’ہ‘‘ دو طرح کی ہوتی ہے ، ایک اصلی اور ایک وصلی۔ اصلی’’ہ‘‘ تو وہ ہوتی ہے جو کسی لفظ کے املا میں اصلاً شامل ہو ا۔ وصلی’’ہ‘‘ وہ ہوتی ہے جس کوکسی لفظ میں جوڑ دیتے ہیں (گویا اس کا وصل ہوتا ہے)۔ اس ہائے وصلی یعنی اضافہ کی ہوئی ’’ہ‘‘کے استعمال کی بارہ (۱۲)سے زیادہ وجوہات آزاد نے بیان کی ہیں ہم یہاں صرف دو لکھتے ہیں:

۱۔ نسبت کے لیے: جب کسی لفظ کے آخر میں ’’ہ‘‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے تو اس میں نسبت کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے ، مثلاً: سبز سے سبزہ (یعنی جس کو سبز سے نسبت یا تعلق ہو)، اسی طرح سفید سے سفیدہ، میان سے میانہ اور خا ک سے خاکہ ۔ یہاں لفظ خاکہ خود آزاد نے مثالوں میں لکھا ہے اور یہاں ’’ہ‘‘ کا اضافہ نسبت کے لیے کیا گیا ہے۔آزاد کی فارسی دانی میں کیا کلام ہے؟

۲۔ مشابہت کے لیے: جب کسی لفظ کے آخر میں ’’ہ‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں تو اس میں مشابہت کو ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ، مثلاً : آفتاب سے آفتابہ (چونکہ یہ برتن آفتاب یعنی سورج کی طرح گول ہوتا ہے)، کمان سے کمانہ(یعنی کمان کی طرح خم دار)، دہان سے دہانہ ، گوش سے گوشہ ، چشم سے چشمہ (پانی کا چشمہ مراد ہے اور آنکھ سے مشابہت کی طرف اشارہ ہے )۔ اسی طرح دندان (یعنی دانت ) سے دندانہ ۔ مثال کے طور پر: میری کنگھی کا ایک دندانہ ٹوٹ گیا ہے۔

مختصراً یہ کہ لفظ خاک میں فارسی کے اصول کے مطابق ’’ہ‘‘کا اضافہ کیا گیا تو خاکہ بنا ۔ اسٹین گاس نے بھی اپنی لغت میں خاکہ درج کیا ہے اور معنی دیے ہیں: sketch, plan ۔ اگرچہ اس نے خاکہ کا ایک املا خاکا بھی درج کیا ہے۔ چلیے ہم خاکہ کے ساتھ خاکا کو بھی اس سند کی بنیاد پر درست مان لیں گے۔ لیکن’’ مصلحانِ املائے اردو ‘‘کا بضد ہونا کہ ’’خاکہ تو ہے ہی سراسر غلط‘‘ کس دلیل کے تحت ہے؟ کیا وہ اب سبزہ، چشمہ، گوشہ اور دندانہ جیسے الفاظ سے بھی ہائے مختفی نکالنے کی کوشش کریں گے؟

دوسری بات یہ کہ بعض الفاظ کے آخر میں الف کا بھی اضافہ ہوتا ہے، اردو میں بھی اور فارسی میں بھی۔ لیکن اس کے اپنے اصول ہیں ۔ دراصل الف کی کئی قسمیں اور مختلف استعمال ہیں جن میں سے کچھ قسمیں اس الف کی بھی ہیں جس کا لفظ کے آخر میں اضافہ ہوتا ہے۔ محمود رضوی مخمور اکبر آبادی نے اپنی کتاب اردو زبان اور اسالیب میں الف کی چوبیس (۲۴)قسمیں اور ان کے استعمال کی مثالیں بیان کی ہیں۔ لیکن سر ِ دست اس کا یہ محل نہیں ہے۔ان شاء اللہ پھر کبھی سہی۔