(گزشتہ سے پیوستہ)
کتنی دلچسپ اورتلخ حقیقت یہ ہے کہ ٹولنٹن مارکیٹ (این سی اے کا ٹولنٹن مارکیٹ کیمپس) تو این سی اے کے پاس ہے اور اس کا پرانا مرغی خانہ اور دیگرجانوروں کی دکانوں والا سارا علاقہ جو کہ اب تو کب کا مسمار ہو چکا ہے وہ لاہور میوزیم والوں کے پاس ہے۔ کافی عرصہ تک تو لاہور میوزیم والے یہاں این سی اے والوں کو پارکنگ نہیں کرنے دیتےتھے۔ این سی اے کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری کی انتہائی کوششوں کے بعد اب این سی اے والوں کو پارکنگ کی اجازت ملی ہے۔ مگر وہ اس پارکنگ کا کرایہ وصول کرتے ہیں۔ کسی عقل مند شخص نے یہاں اس قدر ریت ڈالوا دی ہے اور اس ایریا کو اتنا اونچا کردیا ہے کہ اب بارش کا پانی اس تاریخی عمارت میں داخل ہو جاتا ہے۔ اصولاً یہ پارکنگ ایریا بھی این سی اے کو ملنا چاہیے۔ دوسرے این سی اے کے بالکل سامنے گول باغ (ناصر باغ، میونسپل باغ، بینڈ اسٹینڈ باغ کو ئی بھی نام دے دیں)وہ بھی ہمارے خیال میں این سی اے کو ملنا چاہیے اور یقیناً یہاں پروہ کوئی خوبصورت چیز بنا سکتے ہیں۔ اب تو گول باغ پر نشہ کرنے والوں کا قبضہ ہے۔ یہ تاریخی باغ خوبصورت کرکے اس کے اندر کئی مثبت تعلیمی سرگرمیاں شروع کی جاسکتی ہیں۔ خیر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ٹولنٹن مارکیٹ فن تعمیر کی ایک اچھوتےانداز کی عمارت ہے۔ اگر آپ اس کی لکڑی کی چھتوں کو دیکھیں تو دیکھتے رہ جائیں۔ جس طرح خوبصورت مضبوط اور مختلف زوایوں سے لکڑی کے بڑے بڑے بالوں کو جکڑ کر بنایاگیا ہے ہم نے اپنی زندگی میں اس انداز کی اتنی خوبصورت عمارت نہیں دیکھی۔ لوہے کے بڑے بڑے پول مختلف جگہوں پر ہیں۔ ہال اتنے وسیع اور لمبے ہیں کہ کیا بتائیں۔ کاش کوئی اس عمارت کی چھتوں کے اچھوتے اندازِ فن تعمیر کو اپنا سکے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس عمارت میں کئی جگہوں پر چھوٹی اینٹ اور پھر کئی جگہوں پر بڑی اینٹ کابھی استعمال ہواہے ۔ دوسری طرف اس کے اندر کئی آرچز جن کوکسی نےبند کردیا ہے۔ آپ شدید گرمیوں میں بھی آ جائیں تو کبھی گرمی کا احساس تک نہیں ہوا۔ ہم تو کلاس ششم سے یہاں آ رہے ہیں آج بھی یہ عمارت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ این سی اے کے سربراہ وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری نے ایک اچھا کام تو کیا ہے کہ تمام دیواروں سے چونا اور بدنما رنگ اتروا دیا ہے۔ اب نیچے سے چھوٹی اور بڑی اینٹ کی دیواریں اپنی اصل شکل و صورت میں آ چکی ہیں۔ اس کے لال فرش جو ایک خاص میٹریل سے بنے ہیں، آج بھی ویسے ہی ہیں۔ ویسے آپ کو دلچسپ بات یہ بتائیں کہ این سی اے کی مرکزی عمارت کے اندر کئی لال فرش جو کہ ایک خاص میٹریل سے انگریزوں نے بنائے تھے آج ڈیڑھ سوبرس بعد بھی ویسی ہی چمک کے ساتھ ہیں۔ ہماری ہر حکومت ٹائلوں پر کروڑوں روپے خرچ کرکے پیسہ ضائع کرتی رہی ہے۔ آپ آج بھی پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے آئی آر، شعبہ نفسیات، شعبہ سوشل ورک میں جائیں 75برس قبل بنائے گئے گرے سیمنٹ کے فرش آج بھی ویسی چمک دیتے ہیں۔
ٹولنٹن مارکیٹ پر اگر حکومت تھوڑی سی توجہ دے دے تو یہ تاریخی اور قدیم عمارت مزید دو سو برس تک چل سکتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قدیم عمارت پر ویسا رنگ کیا جائے جو کبھی اس عمارت کا اصل رنگ تھا۔ این سی اے کے ٹولنٹن مارکیٹ کیمپس میں کیلی گرافی، روایتی کھڈی، پرفارمنگ آرٹ (ایکٹنگ ڈرامہ) فریسکو، پینٹنگ، ڈرائنگ، پرنٹ میکنگ، ڈیجیٹل فلم پروڈکشن، روایتی کرافٹ وڈ ورک، سنکنگ، سلمہ ستارہ، گرافک ڈیزائن، فوٹوگرافی اور لیڈر وغیرہ کے ڈپلومہ کورسز کرائے جا رہے ہیں۔ہم نے بڑی مد ت بعد یہاں روایتی کھڈیاں دیکھیں اور ان کھڈیوں پر کاریگر خوبصورتی کے ساتھ اسکارف، چادر، شالیں اور دیگر کپڑے کی خوبصورت چیزیں بنا رہے تھے۔بہت خوشی ہے کہ ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری اس روایتی ہنر کو زندہ رکھنے کے لئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں ۔ اب تو کھڈیاں بنانے والے اور کھڈیاں چلانے والے اور اس کام کو سکھانے والے لوگ تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔یہ بھی ایک فن ہے جو ہمارے ہاں مالی حالات کی وجہ سے نئی نسل کو منتقل نہیں کیا گیا۔ حالانکہ یہ لوگ بڑے ہنر مند ہیں اور ان کے فن کی قدر کرنی چاہیے۔ ایک زمانہ میں اس خوبصورت فن تعمیر کی حامل تاریخی عمارت میں کئی انگریز مرد اور خواتین اپنی موٹر کاروں (فورڈ، اوپل، مورس، ہل مین، بیوک، شیورلیٹ، واکس ویگن) میں آیا کرتے تھے۔ اس دور میں لاہور میں زیادہ تر چار موٹر کاریں عام تھیں۔ مورس، واکس ویگن، اوپل اور شیورلیٹ۔ اس کے علاوہ کیڈلک، مرسیڈیز وغیرہ بھی ہوتی تھیں۔ خیر اب تو بڑی بڑی قیمتی گاڑیاں آگئی ہیں۔ اس کے علاوہ بگیوں اور تانگوں پر بھی ہر ہفتے انگریز مرد، عورتیں اور اینگلو انڈین آیا کرتے تھے۔ کوئی یقین کرے گا کہ لاہور میں کبھی وکٹوریہ پارک، گڑھی شاہو، برٹ انسٹی ٹیوٹ ریلوے، کوئینز روڈ ، دیال سنگھ منشن اور لکشمی منشن میں بہت اینگلو انڈین رہا کرتے تھے۔ اب تو لاہور میں شاید ہی کوئی اینگلو انڈین ہو۔ ہم نے خود اینگلو ایڈین خواتین کو فراک پہنے مال روڈ پر گھومتے اور ٹولنٹن مارکیٹ پر خریداری کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ مقامی کرسچین بھی اس مارکیٹ میں آیا کرتے تھے۔ لاہور میں کسی زمانے میں گیلس اور پی کپ پہننے کا بہت رجحان تھا کبھی لاہور میں بہت کم لوگ آپ کو ترکی ٹوپی، ہیٹ، جناح کیپ اور دیگر ٹوپیوں کے بغیر نظر آتے تھے۔ ہر شخص کوئی ٹوپی پہنا کرتا تھا۔خاکی رنگ کا کپڑا چڑھا لکڑی کا ہیٹ لوگ پہنتے تھے اور سفید لکڑی والا ہیٹ ٹریفک پولیس والے پہنا کرتے تھے ۔ کیا خوبصورت لاہور تھا۔ جو لوگ گیلس والی پتلونیں پہن کر آیا کرتے تھے وہ اکثر گیلس کو ہاتھوں سے اوپر نیچے کرتے رہتے تھے۔ آج تو شاید ہی کوئی شخص گیلس پہنتا ہو۔ کبھی یہاں پر شراب بھی ملا کرتی تھی ویسے تو لاہور، ٹولنٹن مارکیٹ کے بالکل نزدیک کمرشل بلڈنگ کے کونے یا نکڑ پر ایک پارسی ایڈل جی وائن ہائوس کی دکان بھی جس کے شوکیس پر غیر ملکی شراب کی بوتلیں رکھی ہوتی تھیں۔ (جاری ہے)