ماضی میں پاکستان میں خواجہ سرا کمیونٹی کو ووٹ سمیت کئی شہری حقوق سے محروم رکھا گیا۔
سرکاری نوکری، تعلیم اور صحت سمیت کئی سہولتوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنے والی یہ کمیونٹی بسوں میں مخصوص جگہ نہ ہونے کی وجہ سے سفر جیسی بنیادی سہولت سے بھی محروم رہی۔
2010ء میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے فیصلے میں خواجہ سرا کمیونٹی کو بھی قومی دھارے میں شامل کر کے ان کے شہری حقوق متعین کیے تھے جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد شناختی کارڈ میں ان کے لیے ایک الگ خانے کا اضافہ کردیا گیا تھا۔
بعدازاں نومبر 2011ء میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو خواجہ سراؤں کے ووٹ کے اندراج کے لیے ہدایات بھی جاری کی تھیں۔
رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی تعداد
اس وقت ایک کیس میں سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے ریکارڈ کے مطابق اُس وقت پورے ملک میں رجسٹرڈ خواجہ سراؤں کی تعداد 80 ہزار سے زیادہ تھی۔
2017 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ ٹرانس جینڈرز کی تعداد 10418 تھی اور ان میں سے رجسٹرڈ ووٹرز 1700 سے 1800 کے درمیان تھے۔
خواجہ سرا کی سیاست میں انٹری
ملک میں اپریل 2010ء میں لندن سے پاکستان منتقل ہونے والی خواجہ سرا الماس بوبی نے اپنے ہم جنسوں کو صنفی مظالم سے نجات دلانے، سماجی و معاشی گرداب سے نکالنے اور معاشرے میں ایک باعزت مقام دلوانے کے لیے ’شی میل‘ پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی تھی۔
ماضی میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے بعد پاکستان میں 2013ء کے الیکشن میں خواجہ سرا نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تھا، اُس وقت صنم فقیر نامی امیدوار نے سکھر سے سندھ اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تھا۔
2024ء کے انتخابات میں خواجہ سرا کمیونٹی بھی میدان میں
اس مرتبہ 8 فروری کے انتخابات میں 3 خواجہ سرا قومی اور 2 صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔
اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی 2 نشستوں پر ایک جبکہ خیبرپختونخوا کی 2 نشستوں پر بھی دو خواجہ سرا میدان میں ہیں جبکہ ان انتخابات میں ملک بھر میں 2641 رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز ہیں۔