• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشمیر کی تحریکِ آزادی دُنیا کے دیگر خطّوں میں جاری آزادی کی تحاریک سے قدرے مختلف ہے۔ جدید تاریخِ کشمیر میں آزادی کی یہ تحریک 1931ء میں اُس وقت شروع ہوئی تھی کہ جب مسلمانانِ کشمیر نے ڈوگرہ راج کی مطلق العنانیت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا۔ 

بعد ازاں،1947ء میں جب ہندوستان تقسیم ہوا اور یہاں کی شاہی ریاستوں کو برطانوی ہند کے سقوط کے بعد اُس کی جا نشین حکومتوں (بھارت اور پاکستان) کے ساتھ سیاسی بندوبست کے لیے ازسرِ نو معاہدوں کی ضرورت پیش آئی، تو اُمید کی جا رہی تھی کہ مہاراجا کشمیر اپنی رعایا کی خواہش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کریں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ اس موقعے پر کشمیر کی تحریکِ آزادی میں ایک نیا موڑ آیا۔ کشمیریوں نے ڈوگرہ حُکم رانوں سے کامل آزادی کی تحریک شروع کی اور ان کا مطمحِ نظر پاکستان سے الحاق ٹھہرا۔

1948ء میں جب مسئلۂ کشمیر سلامتی کائونسل میں پیش کیا گیا، تو اس تنازعے نے عالمی توجّہ حاصل کی۔ اس موقعے پرعالمی طاقتوں نے اس مسئلے میں دل چسپی لی اور اپنے مفادات کی خاطر پاکستان و بھارت کی حلیف بنیں۔49-1948ء میں اقوامِ متّحدہ کے کمیشن برائے پاک و ہند کی منظور کردہ تفصیلی قراردادوں کی روشنی میں یہ طے پایا تھا کہ جمّوں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ریاستی باشندے کریں گے، لیکن بدقسمتی سے اِس راہ میں ہمیشہ رُکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ دراصل، بھارت یہ چاہتا ہی نہیں کہ کشمیر کے باشندے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے الحاق کا فیصلہ کریں۔ بھارت کے نزدیک اس کا مطلب جمّوں و کشمیر سے دست بردار ہونا ہے، کیوں کہ کشمیریوں کی اکثریت بھارت سے الحاق کی خواہش مند نہیں ہے۔

بھارت نے سلامتی کائونسل کی قراردادوں سے رُوگردانی اورمقبوضہ جمّوں وکشمیرپراپنا قبضہ مستحکم کرنے کےدو طریقے اختیار کیے۔ اوّل، عالمی برادری،بشمول سلامتی کائونسل کو مسئلۂ کشمیر پر کسی قسم کےکردار سے بازرکھا جائے اور دوم یہ کہ مقبوضہ جمّوں و کشمیر میں اپنے پاؤں جمانے کے لیے حریّت پسندوں پر بدترین تشدّد کیا جائے۔ جہاں تک تشدّد کی بات ہے، تو 2014ء میں نریندر مودی کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد بھارتیہ جتنا پارٹی (BJP) کے دَورِ حکومت میں بھارت نے اس پالیسی پر جس طرح عمل کیا، اُس کی نظیر گزشتہ دہائیوں میں نہیں ملتی۔ 

بھارت نے نہ صرف حُریّت پسند رہنماؤں کو جیلوں میں قید کر رکھا ہے، بلکہ ایسے ہزاروں نوجوان بھی، جو حقِ خود ارادیت کی بات کرتے ہیں، جیلوں اور تفتیشی مراکز میں زیرِحراست ہیں یا پھرلاپتا کر دیے گئے۔ آج مقبوضہ جمّوں و کشمیر میں خوف کا یہ عالم ہے کہ کوئی شخص کشمیر کی تحریکِ آزادی کےحوالے سےبات بھی نہیں کرسکتا۔ اِس ضمن میں معروف برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے ایک رپورٹ نشر کی گئی، جس میں بعض کشمیریوں کی شناخت ظاہر کیے بغیر اُن سے کشمیر میں امن و امان کی صورتِ حال بابت گفتگوکی گئی۔

برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ ”بھارتی حکومت اب مختلف طریقوں سے آوازوں کو دبا رہی ہے، جب کہ پہلے احتجاج ہوتا تھا اور اس دوران مظاہرین اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپیں ہوتی تھیں، لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے۔‘‘ ایک اورخاتون کا کہنا تھا کہ ”بھارتی جبر سے لوگوں کا دَم گُھٹ رہا ہے۔ کوئی لکھے، تو وہ گرفتار ہوجاتا ہے۔

ہم جوسانس لیتےہیں، اُس میں بھی خوف ہوتا ہے۔‘‘ ایک نوجوان کشمیری نےبتایاکہ”صرف کشمیری ہی نہیں، بلکہ مُجھے لگتا ہے کہ بھارت بھی اس خاموشی پر اُلجھن کا شکار ہے۔ نہ جانے کشمیریوں کی اس خاموشی کا سبب اُن کی اجتماعی دانش ہے یاپھرنااُمیدی۔‘‘ تاہم، ان حالات میں اگر بھارت مقبوضہ جمّوں و کشمیر کے باشندوں کے اس سکوت کو امن قرار دے، تو اِسے اُس کی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی ہی کہا جا سکتا ہے۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ سلامتی کائونسل، عالمی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے بھی اس بھارتی جبر پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بیش ترممالک کے بھارت سے تجارتی تعلقات ہیں ، حتیٰ کہ اپنے اقتصادی مفادات کی خاطر اسلامی ممالک بھی مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر رسماً احتجاج بھی نہیں کر پا رہے۔ البتہ پاکستان وقتاً فوقتاً اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس اور او آئی سی کی وزرائے خارجہ کانفرنس میں روایتی طور پر مسئلۂ کشمیر کو اجاگر کرتا رہتا ہے۔

بھارت نے نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں زبان بندی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، بلکہ جمّوں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وہاں نئے قوانین متعارف کروا کےآبادی کا تناسب بھی بگاڑ رہا ہے، جو نہایت سنگین عمل ہے، کیوں کہ اس طرح مستقبل میں ریاست میں منصفانہ رائے شماری کاراستہ مسدود ہوجائےگا۔ حیرت کا مقام یہ ہےکہ مذکورہ بھارتی چال کےخلاف مقبوضہ کشمیرکی بھارت نواز سیاسی قیادت بھی احتجاج نہیں کر رہی، حالاں کہ جمّوں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ہی اُن کی سیاست کی بنیاد تھی۔

اِن حالات میں پاکستان کی جانب سے مقبوضہ جمّوں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے اور کشمیریوں کو اُن کا حقِ خود ارادیت دلانے کےلیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات ناگزیر ہوچُکے ہیں۔ اِس ضمن میں ذیل میں چند تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔

(1) عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنے کے لیے دفترِ خارجہ میں کشمیر سیل اور دنیا بَھر میں قائم پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسکس کو فعال کیا جائے۔

(2) کشمیری حُریّت پسند رہنماؤں پرمشتمل ایک سفارتی کائونسل تشکیل دی جائے اور اُس کے ذریعے عالمی برادری کومسئلۂ کشمیر کی حسّاسیت سےآگاہ کیا جائے۔

(3) سلامتی کائونسل کو یہ باور کروایا جائے کہ مسئلۂ کشمیر کا تصفیہ کروانا اُس کی ذمّے داری ہے۔ خطّے میں ممکنہ جنگ کے خطرات کوٹالنے کے لیے ضروری ہے کہ مسئلۂ کشمیر کو پُرامن طور پر حل کیا جائے۔