• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی میں نواز شریف اور اب عمران خان، قید بامشقت کی سزا کیا ہوتی ہے؟

فائل فوٹو
فائل فوٹو

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ماضی میں نواز شریف کے بعد گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی کو بھی عمر قید اور قید بامشقت کی سزا سنائی۔

قید بامشقت سے مراد سزا کے دوران قیدی سے جیل میں کسی بھی قسم کا محنت والا کام لینا۔

ماہر قانون کے مطابق قید بامشقت کے بھی تین درجے ہوتے ہیں جس کے مطابق قیدیوں کو کام دیا جاتا یا ان سے لیا جاتا ہے۔

اے کلاس میں وزیراعظم، مشہور سیاسی یا کوئی اہم شخصیات کو شامل کیا جاتا ہے جنہیں عام کام نہیں دیا جاتا۔

اے کلاس میں شامل قیدیوں کو ان کے سیل میں کولر، فریج اور ٹی وی سمیت دیگر سہولیات دی جاتی ہیں اور ان قیدیوں کو 15 دن بعد گھر سے کھانا منگوانے کی بھی اجازت مل جاتی ہے۔

اے کلاس کے قیدیوں کو 2 مشقتی بھی دیے جاتے ہیں جو ان کے کاموں میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

اس کے بعد اعلیٰ تعلیم یافتہ یا پھر ایک اندازے کے مطابق 6 لاکھ روپے سے زیادہ ٹیکس دینے والے قیدیوں کو بی کلاس دی جاتی ہے۔

ایسے قیدی کو اگر قید بامشقت کی سزا ملی ہو تو اسے مشقتی نہیں دیے جاتے اور اسے اپنے کام خود ہی کرنے پڑتے ہیں جس کو با مشقت قید کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں عام قیدیوں کو سی کلاس میں شامل کیا جاتا ہے۔

ماہر قانون کے مطابق بامشقت سزا پانے والے قیدی کو کام کرنا پڑتا ہے جس میں کھانا پکانا، کپڑے دھونا، صفائی، نگرانی اور دیگر کام شامل ہیں جس کی انہیں اجرت بھی ملتی ہے۔

عام قیدیوں سے جیل کے روزمرہ سمیت مشقت والے کام لیے جاسکتے ہیں جس میں صفائی ستھرائی وغیرہ بھی شامل ہے۔

قید بامشقت کے دوران مجرم کی شخصیت یا اس کا پیشہ بھی دیکھ کر  اسے کام دیے جاتے ہیں۔

تعلیم یافتہ مجرم کو قید کے دوران دیگر قیدیوں کو تعلیم دینے کا کام بھی دیا جاسکتا ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید