آج ہنودویہود اور غیر اسلامی طاقتوں کا اتحاد اور شیطانی سرکل جس طرح اہل اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے وہ پوری نسل انسانیت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے یہی وہ کافرانہ سوچ ہے جس نے فلسطین کی سرزمین کو آگ اور خون کے سمندر میں تبدیل کر دیا ہے ۔بچوں کے جنازے بھی ان کے خونیں منصوبوں سے محفوظ نہیں۔دلہنوں کے سہاگ لٹ رہے ہیںمائوں کی چیخوں نے پوری دنیا کو لرزا کر رکھ دیا ہے جوانوں کی لاشیں بے گوروکفن پڑی ہیں بہنیں اپنے بھائیوں کو ڈھونڈ رہی ہیں گھر گھر صف ماتم بچھی ہے، گلی گلی کہرام مچاہے اور شیطان اپنے لہو آلود جبڑے نکالے قہقہے لگا رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے اور کب سے ہے ظلم،جبر، استحصال، مکروفریب اور انسانیت کے تمام تر اصولوں کا باغی اسرائیل آج بربریت کی تمام تر حدوںکو پار کرکے عالمی امن کیلئے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے ۔ یہ آگ جو اس نے بڑی شدومد سے لگائی ہے اگر اس کو روکا نہ گیا تو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔اسرائیلی ریاست کے خمیر میں ہی وہ تمام تر غلاظتیں شروع دن سے ہی موجود تھیں جن کا ذکر میں نے کیا ہے اور اس صہیونی ریاست کی بنیادوں میں ہی یہی اصول کارفرماتھے ۔اگرچہ اسرائیلی ریاست کا قیام 1948ء میں ہوا لیکن مسئلہ فلسطین کا آغاز 1917ء کے معاہدہ بالفور سے ہوا جب مغربی سامراجی قوتوں اور انگریزی حکومت نے عربوں کی سرزمین کے ایک بہت بڑے حصے پر قبضہ کر لیا اور اس دھرتی کے اصلی مالکوں یعنی فلسطینیوں کو وہاں سےنکال کر یہودیوںکیلئے ایک الگ وطن کا اعلان کر دیا یہ اسلام دشمن قوتوں کا ایک گھنائونا منصوبہ تھا جس کی بنیاد ہی ظلم وستم جھوٹ مکروفریب اور انسانی اقدار کی پامالی پر رکھی گئی۔انہیں قوتوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے ذریعے فلسطینیوں کو وہاں سے نکال کر پوری دنیا سے یہودیوں کو لاکر یہاں بسانا تھا۔اسی منصوبے کے تحت اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے یہودی دہشت گردوں نے فلسطینیوں پر حملے کئے اور ایک بہت بڑی تعداد کو خوفزدہ کرکے اپنے ملک اور اپنی سرزمین سے دور ہونے اور ہجرت کرنے پر مجبور کیا۔ایسا کیوں ہے ؟اس کی ایک بہت بڑی وجہ تو عالم اسلام کو اپنے مسائل میں الجھا کر ان کو نئی نئی مشکلات اور نئے نئے مصائب کا شکار بنا کر ان کے اتحاد اور اخوت کو ریزہ ریزہ کرنا ہے تاکہ یہ ٹوٹے ہوئے تارے کسی وقت مہ کامل نہ بن جائیں۔ان میں قرآنی تصور ملت نہ پروان چڑھ سکے۔ یہودوہنود کی سازش ہے کہ کسی نہ کسی طرح روح محمدؐ کو جسمِ مسلم سے نکال کر اس میں مغربی تہذیب کی غلاظت کو بھر دیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ آج غیروں کی سازشیں اور انکے منصوبے مکمل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ وحدت مسلم کا تصور لمحہ بہ لمحہ کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔خوف اور ناامیدی کے آثار رہبران ملت اسلام کے چہروں پر عیاں ہو رہے ہیں وہ اقبال کے اس فلسفے کو سمجھنے سے عاری نظر آتے ہیں۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
آج قوم رسول ہاشمی ﷺ پر ابتلا کا عرصہ ہے لیکن وہ تمام عملی اقدامات مفقود نظر آتے ہیں جو کبھی اس کا خاصا ہوا کرتے تھے آج بہت سے مسلمان ملک اس بربریت، اس انسان دشمنی اور اس قتل عام پر خاموش دکھائی دے رہے ہیں اور انکی زیادہ سے زیادہ حمایت زبانی قراردادوں تک محدود ہو چکی ہے۔ جذبہ جہاد ختم نہیں تو کمزور ہو چکا ہے وہ ظالم و جابر اسرائیلی قوم کے دہشت گردوں کے سامنے کھل کر کلمہ حق نہیں کہہ پا رہے ۔وہ بھول گئے ہیں یہ زندگی ایک آزمائش ہے یہ جہان فانی ہے یہ عیش وعشرت مصنوعی ہے یہ اقتدار عارضی ہے اور یہاں تک کہ یہ زندگی بھی ختم ہونے والی ہے مغرب کی اقوام جس چیز کو موت اور تباہی سمجھتے ہیں وہ مسلمانوںکیلئے شہادت ہے اور شہید کبھی نہیں مرتے کبھی فنا نہیں ہوتے بقول اقبال؎
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
تیرے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
عالم اسلام کو قرآن کا یہ پیغام یاد رکھنا چاہئے کہ یہودونصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔ان سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی پھر بھی المیہ یہ ہے کہ کچھ نادان مسلمان ان سے دوستی اور محبت کی پینگیں بڑھانے پر تلے ہوئے ہیں ان کو بچوں، بوڑھوں ، نوجوانوں اور مائوں، بہنوں کا خون نظر نہیں آتا جو موجودہ جنگ میں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ بےشمار فلسطینیوں کے جلے ہوئے گھر، جلتی ہوئی عمارات، تباہ شدہ سکول اور خون آلود ہسپتال چیخ چیخ کرامت ِمسلم کی امداد کے تمنائی ہیں اور امن کی داعی عالمی طاقتوں کے پاس سوائے مذمتی قراردادوں کے سوا کچھ نہیں اس لئے کہ مغربی اور فرنگی دنیا صرف اور صرف اپنے مفادات کو مقدم سمجھتی ہےاور انکی ترقی اور خوشحالی کی تمام تر کرنیں یہودی نظریات اور یہودی مفادات سے جڑی ہوئی ہیں۔ آج پوری دنیا سے ہٹ کر فلسطینی اپنی بقاکی اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ خود لڑ رہے ہیں ۔ آج مغربی سامراج اور صہیونی قوتیں یکجا اور متحد ہو کر فلسطین کو مٹانے کے درپے ہیںلیکن تاریخ گواہ ہے کہ اللہ کے کرم سے فتح ہمیشہ سچ اور حق کی ہوگی کیونکہ باطل کو مٹنا ہوتا ہے اور باطل مٹنے والی شے ہے۔ مسلمان کے لہو میں دل نوازی، عالمگیر صداقت، فتح و کامرانی کا نشہ اور خدا پر یقین کی طاقت کا جذبہ عظیم اب بھی موجود ہے۔
تیری دعا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ ٔ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
مسلم دنیا کے حکمران کیوں خاموش ہیں خونِ مسلم کی اس قدر ارزانی ان کو کیوں نظر نہیں آ رہی ۔ رسول کریمؐ کے فرامین کیوں یاد نہیں آتے ’’ کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، بھائی بھائی ہیں ،ایک انسان کا خون پوری انسانیت کا خون ہے‘‘ وہ کیوں اس حقیقت کو فراموش کئے بیٹھے ہیں کہ اگر فلسطین میں لگی ہوئی اس آگ کو نہ بجھایا گیا اس ظلم و بربریت کو نہ روکا گیا تو ان کے اپنے گھر بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے ۔ خدا کرے کہ وہ وقت نہ آئے قدرت دستِ غیب سے ہماری حفاظت فرمائے، قبلہ اول کی آزادی کا لمحہ ضرور ا ٓئے پیغمبروںکی سرزمین کو امن، سکون اور خوشحالی نصیب ہو۔ اللہ کے کرم سے ایک ایسا وقت ضرور آئے گا۔
پھر قبلۂ اول کو چھڑالیں گے عدو سے
اس خطّہ پر نور کی جنت میں رہیں گے