• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرۂ اَرض پر موجود دُنیا کے اطراف پہاڑی سلسلوں کے درمیان ایک ایسا قطعۂ زمین بھی موجود ہے جسے ’’پلیٹو‘‘ (Plateau) یا سطح مرتفع کہتے ہیں۔ یہاں پر سطح مرتفع سے مراد بلندی والا قطعۂ ارضی ہے۔ ارضی علوم میں اسے میزنما قطعۂ زمین (Table Land) بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ اپنی سپاٹ سطح اور اُونچائی کی وجہ سے یہ ’’میز‘‘ سے مشابہت رکھتا ہے لیکن پہاڑ بھی تو آسمان کی بلندی کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔ 

لہٰذا دونوں میں فرق کا تعین ضروری ہے۔ پہاڑ اور پلیٹو میں فرق یہ ہے کہ اگر پہاڑ اُفقی نہ ہو بلکہ خمیدہ ہو تو اس کے دونوں بازو میں زاویہ ڈھلوان موجود ہوتا ہے جو اُوپر جا کر ایک دوسرے میں ضم ہو کر ’’کرسٹ‘‘ بناتا ہے جو کسی بھی پہاڑ کا بلند ترین حصہ ہوتا ہے ،جس کا رقبہ اس کی نچلی سطح کے مقابلے میں بہت کم ہوتا جاتا ہے۔

یہ اپنے اطرافی علاقوں سے کم سے کم 2000 فٹ اور زیادہ سے زیادہ ہزاروں فٹ بلند ہوتا ہے۔ مثلاً کوہ ہمالیہ اور کوہ قراقرم جب کہ پلیٹو یا سطح مرتفع کا کوئی بازو (Limb) نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے زاویہ ڈھلوان صفر ڈگری یا بعض اوقات کچھ مقامات پر 10 ڈگری تک معلوم کی گئی ہے جو اُفقی چٹانوں کی فہرست میں آتا ہے۔ ’’پلیٹو‘‘ کا بالائی حصہ نچلے حصوں کے مقابلے میں بہت کشادہ اور سپاٹ (فٹ بال گرائونڈ کی طرح) ہوتا ہے۔ 

گویا ’’پلیٹو‘‘ ناہموار پہاڑوں کے گرد ایک سپاٹ پہاڑی میدان ہوتا ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی کئی سو فٹ اور زیادہ سے زیادہ ہزار فٹ تک جا پہنچتا ہے لیکن بلند ترین پہاڑ سے کم پلیٹو کے اطراف میں چشمے، دریا اور زرخیز مٹی بھی میسر ہوتی ہے جو حیات اور حیات نو کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں۔

دُنیا بھر میں قدیم تخلیق شدہ پلیٹو کا میدانی سروے اور کیمیائی اور طبعی تجزیئے کے بعد جو پہلو سامنے آتے ہیں ،اس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ یہ دو قدرتی عوامل کا نتیجہ ہے یعنی ’’آتش فشاں‘‘ اور ’’کوہ سازی‘‘ جہاں تک آتش فشاں کا تعلق ہے تو اس کا آغاز 200 ملین سال قبل اس وقت ہوا جب افتراقی قوت (Rifting Power) نے بحرِ اوقیانوس کو جنم دیا۔ 

وقت گزرنے کے ساتھ بحرِ اوقیانوس کے بیچوں بیچ ایک بڑے شگاف کی وقوع پذیری عمل میں آئی، جس کے توسط سے ’’مڈاوشونک رینج‘‘ (زیر سمندر پہاڑی سلسلے) کی تشکیل جس کے زیراثر افتراقی وادی (Rift Valley) کا وجود عمل میں آیا، جس نے زیر زمین اُوپر تلے موجود چٹانی تہوں (برّی و بحری) کو ایک دوسرے سے دُور کر کے آتش فشانی کی بنیاد رکھ دی جب کہ اندرون زمین کے بعض حصوں میں یہ چٹانی تہوں میں قریب سے قریب تر آ کر تصادم کا ذریعہ بن گئے اور کوہ سازی کا عمل وجود میں آیا۔

یاد رہے کہ زیر زمین 100 کلومیٹر کی گہرائی میں جو چٹانی تہیں موجود ہیں وہ چٹانی اکائی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ٹھوس سخت حرکی سل (Mobile Slab) سے مشابہت رکھتے ہیں،جس کے اطراف دراڑ زدہ حاشیے ہوتے ہیں۔ جو ٹھیک اسی طرح کی ہوتی ہیں جیسا کہ ایک اُبلتے ہوئے انڈے کے خول میں حرارت کی شدت کی وجہ سے دراڑ پیدا ہوتے ہیں۔ 

اس طرح افتراقی عمل کے دوران چٹانی پلیٹ کے حاشے شگاف تبدیل ہو کر سمندری فرشی پھیلائو اور زمینی تصادم کی بنیاد فراہم کی جہاں سے پگھلا ہوا چٹانی مواد (بسالٹک میگما) ارضی تپشی توانائی کی قوت کے زیر اثر آتش فشاں کی شکل میں پھوٹ پڑتا ہے، جس کے منجمد ہونے کے بعد ایک قدیم تہہ دار برکانی چٹان (بسالٹ) وسیع و عریض علاقوں میں پھیلتا گیا۔ 

سمندر اور زمینی فرش کے گرد یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے،جس نے قبل از تاریخ اور نوعمر آتش فشانی کی بنیاد قائم کی، جس نے ’’پلیٹو‘‘ یا سطح مرتفع کی تخلیق کی۔ مثلاً ایڈاہو (Idaho) پہاڑ کےمغرب میں کولمبیا پلیٹو، بھارت میں دکن پلیٹو، امریکا کا کولوراڈو پلیٹو، پاکستان کا پوٹھوہار اور بلوچستان پلیٹو اور ہمالیہ کے دامن میں تبت پلیٹو۔

جہاں تک ایڈاہو کولمبیا پلیٹو کا تعلق ہے تو یہ دُنیا میں سب سے وسیع اور سپاٹ لاوا پلیٹو ہے۔ اس میں واشنگٹن اورگن، کیلیفورنیا اور بھارت کے علاقے شامل ہیں۔ یہاں سے بسالٹک لاوا شگاف سے بہتے ہوئے پھیلتا گیا اور کم سے کم 20000 مربع میل کے علاقوں میں موجو قدیم چٹانوں کے اطراف سیلاب کی مانند پھیل گیا۔ منجمد ہونے پر سب سے زیادہ دبازت تقریباً 5000 فٹ تک معلوم کی گئی ہے جبکہ لاوا کا درجۂ حرارت 1000-1200 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ کچھ چٹانیں جو لاوا کے راستے میں آئیں وہ اس کے نیچے دب گئیں۔ قدیم قریبی دریائے اسنیک (Snake River) کی وادی میں پہاڑوں کے کچھ حصے دریا کے کٹائو کی وجہ سے بے نقاب ہو گئے ہیں۔

اس ’’پلیٹو‘‘ میں موجود کھائیوں کی دیوار پر ستون نما بسالٹک لاوا کی تہہ موجود ہے جو آتش فشانی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس قسم کے لاوا کا پھیلائو بھارت میں ’’دکن پلیٹو‘‘ کے نام سے معروف ہے جو پگھلے ہوئے چٹانی مواد ’’بسالٹ‘‘ پر مشتمل ہے جوسمندری فرش کے قدیم ٹکڑوں کی علامت ہے۔ اس ’’اوفی لائیٹ‘‘ (Ophiolite) کہتے ہیں۔ 

یہاں پر لاوا کے اُبلنے کا عمل ارضیاتی وقت کے پیمانے کی رُو سے بالائی کریٹیشس (Upper Cretaecous) دور میں ہوا، جس نے 518000 اسکوائر کلومیٹر کے علاقے کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ اس پلیٹو کی زیادہ سے زیادہ دبازت 2350 میٹر ممبئی کے ساحل کے قریب موجود ہے جب کہ اس کی دبازت مشرق کی سمت میں کم ہو جاتی ہے۔

یہ پلیٹو تقریباً سپاٹ سطح پر مائل نظر آتا ہے لیکن کسی جگہ پر 10 ڈگری کی بھی پیمائش کی گئی ہے۔ بعض ارضیاتی عمر میں آتش فشانی کے بجائے ’’کوہ سازی‘‘ کے عمل نے جنم لیا۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب افتراق (Rifting) کے بجائے چٹانی پلیٹوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے یہ ’’کوہ سازی‘‘ کی علامت ہے، جس کے نتیجے میں خطا (Fault) اور خمیدگی (Fold)پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ’’کولوراڈو پلیٹو‘‘ ماضی میں اس قسم کی سرگرمیوں کی بنیاد پر معروض وجود میں آیا ہے جو 13000 اسکوائر میل میں پھیلا ہوا ہے جو ایک شدید قوت کے ماتحت اُوپری اُٹھان کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ خصوصی طور پر جنوب مغرب یا ’’گرانڈ کینن‘‘ سیکشن میں (Grand Canyon) میں عمودی خطا کا رُجحان رکھتا ہے۔ 

اس ’’پلیٹو‘‘ میں جو چٹانیں موجود ہیں وہ مختلف ارضیاتی ادوار کو ظاہر کرتی ہیں اور متواتر اُوپری اٹھان اور چشمے کے کٹائو کے نتیجے میں گہری کھائی یا کھڈ (جہاں سے دریا بہہ رہا ہو) میں تبدیل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں پر ’’کولوراڈو‘‘ دریا ایک حیرت انگیز ’’گرانڈ کینن‘‘ کی تخلی ہے جو 7500-9800 فٹ بلند ہے۔ یہ پلیٹو ’’پیڈمائونٹ‘‘ پلیٹو ہے ،جس سے مراد چٹان کی بنیاد چونکہ یہ پلیٹو چٹانوں کے بیس میں تخلیق پاتا ہے اور پھر سمندر تک جا ملتا ہے۔ 

پاکستان میں بھی کئی ’’پلیٹو‘‘ موجود ہیں جن میں سے ایک ’’پوٹھوہار‘‘ اور دُوسرا بلوچستان پلیٹو۔ جہاں تک ’’پوٹھوہار‘‘ پلیٹو کا تعلق ہے تو یہ مشرق میں دریائے جہلم، مغرب میں انڈس دریا، شمال میں کالاچٹہ پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے جب کہ پلیٹو کا جنوبی حصہ تھل ریگستان کے احاطے میں ہے۔ 5000 اسکوائر میل کا یہ پلیٹو سطح سمندر سے 1200-1900 فٹ بلند ہے۔ 

سلسلہ کوہ نمک اس علاقے کا سب سے بلند پہاڑ ہے جہاں سے دریائے جہلم گزرتا ہے۔ جب کہ بلوچستان پلیٹو سطح سمندر سے اوسطاً بلندی 600 میٹر کے لگ بھگ ہے۔ یہ پلیٹو کوہ سلیمان کے جنوب مغرب اور کوہ کیرتھر کے مغرب میں واقع ہے۔ ٹیکٹونک تصادم کی وجہ سے دو فالٹ کی زد میں ہے۔ یعنی ’’چمن فالٹ‘‘ اور ’’اورناچ فالٹ‘‘ یہ فالٹ شمالاً جنوباً چمن سے بحیرۂ عرب تک چلی گئی ہے جو کوہ سازی کے عمل کی تصدیق کرتا ہے لیکن زمین پر سب سے بلند ’’پلیٹو‘‘ کوہ ہمالیہ کے دامن میں موجود ’’تبت پلیٹو‘‘ ہے۔ یہ ’’انٹرمائونٹین‘‘ طرز کی ہے۔ 

یعنی چٹانوں کے درمیان میں موجو سپاٹ میدان، جس کی بلندی 1200 فٹ ہے، جس سے اس کی تخلیقی وابستگی ظاہر ہوتی ہے جب کہ دوسرے پلیٹو مثلاً افریقا پلیٹو کے گرد نو عمر چٹانیں موجو نہیں ہیں، جس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ صرف اُوپری اُٹھان کے ذریعہ وجود میں آئی ہیں۔ یہ دُنیا کے تمام پلیٹو کے مقابلے میں بلند ہونے کی وجہ سے اسے ’’دُنیا کی چھت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

معاشی نقطۂ نظر سے بھی ’’پلیٹو‘‘ خطوں کو معدنی وسائل کے حوالے سے ’’اسٹور ہائوس‘‘ کہا جاتا ہے ،کیوں کہ دُنیا بھر میں کانکنی کی سرگرمیاں ایسے ہی پلیٹو خطہ میں ہو رہی ہے۔ مثلاً افریقا پلیٹو سونا اور ہیرے کی کانکنی کے لئے بہت ہی سودمند ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بھی پلیٹو خطہ کے مقام پر تیل کے اہم ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ 1915ء میں ’’خار‘‘ کے مقام پر 1955ء میں ڈھلیان جب کہ 1968ء میں ’’توت‘‘ کے اطراف تیل کی بڑی دریافت عمل میں آئی ہے جب کہ 1970ء سے پوٹھوہار میں ڈرلنگ جاری ہے۔ زراعت، مویشی گاہ، شیر فارم اور پن بجلی کے حصول کے لئے بھی استعمال ہو رہا ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید