• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مسلسل احتجاج ہو رہا ہے ، ریلیاں نکالی جا رہی ہیں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی جاری ہے لیکن اسرائیل کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ، بلاشبہ اسرائیل نے انسانی حقوق کے تمام تر قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے غزہ کو کھنڈربنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اسرائیل اب تک ہر حربہ آزماچکا ہے لیکن یر غمالیوں کو رہا نہیں کرایا جاسکا ، اس نے اسپتالوں پر بم گرانے کیلئے یہی موقف اپنایا تھا کہ انکے تہہ خانوں میں اسرائیلی یر غمالی موجود ہیں ، لیکن اسے منہ کی کھانا پڑی ۔ کوئی حربہ کار گرنہ ہونے پر اب اسرائیل نے بچوں سمیت فلسطینی شہریوں کی تذلیل کا نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔ امریکا سمیت بعض دوسرے ممالک اسکے ہم آوازہیں ۔ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردادوں کو امریکا ویٹو کر دیتا ہے ، آج کے جدید دور میں بھی لگ بھگ 4ماہ گزر جانے کے باوجود تمام مسلم ممالک کے علاوہ چین اور روس جیسے طاقتور ممالک بھی اسرائیل کا راستہ نہیں روک پا رہے ۔

جو ممالک اسرائیل اور امریکا سے خوفزدہ ہیں ان کو آزاد ملک ہونے کا نعرہ لگانے کا کوئی حق نہیں ، فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے دوران مغربی میڈیا کا دہرااور منفی کرداربھی دیکھنے میں آیا۔ امریکی ٹی وی بھی یکطرفہ رپورٹنگ کرکے پیشہ ورانہ بددیانتی کا ثبوت دے رہا ہے ۔اسرائیل نے نہتے فلسطینیوںپر 1948سے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے اور وہ دنیا کےاسلامی 57ممالک اور سوا ارب مسلمانوں سے پوچھ رہے ہیں کیا یو نہی ہمیں مسلا جا تا رہے گا اور تم خاموش تماشائی بنے رہو گے ؟ ان بچوں اور بچیوں کی لاشیں دنیا کے206 آزاد ممالک سے انسانیت کے ناتے پوچھ رہی ہیں ہمیں کیوں مارا گیا َ؟عالمی عدالت انصاف نے بھی فلسطینیوں کا موقف تسلیم کیا اور انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عدالت غزہ میں فلسطینیوں کو نسل کشی سے محفوظ رکھنے کا حق تسلیم کرتی ہے ۔ اسرائیل نے موقف اختیار کیا کہ ہم صرف دفاعی کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان جرائم کا ارتکاب نہیں کررہے۔ نسل کشی کنونشن پر عمل درآمد کرنے کیلئے اسرائیل کو ہنگامی احکامات جارہی کیے گئے اور حکم دیا گیاکہ وہ اس نوعیت کے اقدامات سے اجتناب کرے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے جنگ بندی کے فوری بعد اسرائیل کی دوبارہ وحشیانہ بمباری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے وہ جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے ۔ فلسطینی صحافیوں نے اسرائیل کی بمباری سے ہونے والی تباہی کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ انکے گھر ، اہم مقامات ،ا سکول ، یونیورسٹیاں اور ریسٹورنٹس صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کا مقصد ہمیشہ سے غزہ کودنیا کے نقشے سے ختم کرنا ہے اور جان بوجھ کر اس شہر کو تباہ کیا جا رہاہے ۔ اسرائیل پر جنگ بندی کا دبائو جاری رہا مگر ا س نے کسی بھی قوت کی کوئی پروا نہیں کی ۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ایک جانب اسرائیل نے فلسطین پر حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے دوسری جانب امر یکہ نے شام اور عراق میں ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے حملوں کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے ۔

حقیقت پوری طرح واضح ہے کہ عالمی برادری کی بھاری اکثریت اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینیوں کے موقف کو درست سمجھتی ہے ۔تاہم یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ اقوام عالم کی بھاری اکثریت یعنی 195ملکوں کی نمائندگی رکھنے والی جنرل اسمبلی کی قراردادیں نان بائنڈنگ ہوتی ہیں ۔ گزشتہ چند برسوں میں عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے جن میں متحد ہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی شامل تھے لہٰذا اسرائیل کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچانے کیلئے حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا ، یا پھر اسرائیل نے حماس کی جانب سے حملے کی تیاریوں کو اس لیے نظر انداز کیا کہ اسرائیل غزہ شہر پر قبضہ کر نا چاہتا ہے ۔ وہ غزہ پر قبضہ کر کے اپنی سلامتی کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین